بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اﷲ رب العزت نے بنی نوع انسان کو تمام مخلوقات کے درمیان سب سے عمدہ خلقت
کے ساتھ پیدا کیا ٰـــــــــــ ۔ اعضاء وجوارح کی ساخت ،ترتیب ، اسکی نوعیت
اور ہراعتبار سے انسان ساری مخلو قات کے درمیان ایک ممتاز مقام رکھتا ہے ۔
انسان کی عقلی ساخت بھی تمام مخلوقات سے الگ ہے،انسانی دماغ تمام دریافت
شدہ حیوانات کے دماغ کے بالمقابل کامل اور مکمل ہے۔حیوانات میں کسی کے اندر
صرف رد عمل کی صلا حیت ہو تی ہے،کسی میں ڈرنے خوف زدہ ہو نے کی تو کسی میں
صرف سمجھنے کی ہو تی ہے، وہ تجزیہ نہیں کر سکتا ۔لیکن انسانی دماغ میں اﷲ
نے وہ ساری با تیں جمع کر دیں ہیں ۔وہ سوچتا ہے ،سمجھتا ہے ، دیکھ کر
اندازہ لگا تا ہے ،قدر وقیمت متعین کر تا ہے اور تجزیہ کر تا ہے ۔اور نہ جا
نے کتنی بیش بہا خوبیاں دی ہیں جنکی تشریح یا تعبیر سے علوم انسانی معذور
ہیں ۔ یہ اشرفیت اس بات کی متقاضی ہے کہ ان کی عقل ،ان کے فہم اور ان کے
سوچ کے در میان تفاوت اور تنوع ہو ،کیونکہ یہی اختلاف اور تنوع انسانی علوم
اور معاشرہ کو ہمیشہ آگے کی طرف رواں رکھتا ہے ،مہمل اور منجمد ہو نے سے
روکتا ہے․
چھٹی صدی عیسوی میں جب انسانی معاشرہ کی طبعی ساخت پختگی کو پہونچ گئی تب
اﷲ رب العزت نے بنی نوع انسان کو ایک دائمی اورمکمل شریعت سے نوازا ، یہ
تکمیل اور دوام اس بات کی طالب ہے کہ اس کے اصول ومبادی انتہائی وسیع اور
لچکدار ہوں جو انسانی معاشرہ کے نہر رواں کو مستقل تھا مے رہیں ، ان کے دھا
روں کو کبھی اپنے کنا روں سے الگ نہ ہو نے دیں ،اسی مقصد کے لئے اﷲ تعالی
نے ہمیں قرآن کریم سے نوازا جسکا یہ اعجاز ہے کہ وہ کبھی بھی اس رواں دواں
انسانی قافلہ کا ساتھ نہیں چھوڑے گی اور نہ اس کے ضروریات کے لئے تنگ ہو گی
ـ۔دوسری طرف نبی کریم ﷺنے اس کے سارے اصول ومبادی پر عمل اور اس کی تشریح
کے ذریعہ اسے حتمی اور یقینی بنا دیا ․
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ اختلاف انسانی فطرت کا خاصہ ہے ،لہذا یہ چیزیں نبی
ﷺکے زما نہ میں ہی شروع ہو گئیں۔ یہاں صرف علمی اختلا فات کی بات ہو گی نہ
کہ سیاسی معاملات میں رونماں ہو نے والے واقعات کی ۔ بہر حال وقت کا پہیہ
گھو ما نبی ﷺ اس دار فانی سے رخصت ہو گئے ،صحابہ کرام کا زما نہ آیا اور
انکے درمیان اختلا فات ہو ئے ،پھر تابعین اور تبع تابعین کے زما نوں میں
اختلافات کا ہجوم ہو گیا ،طرح طرح کے مکتب فکر وجود میں آئے،الگ الگ مدارس
کا قیام ہوا اور ہر گذرتے وقت کے ساتھ یہ دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو تا چلا
گیا ۔یہ اپنے آپ میں غیر متوقع ،مقبوح یا صرف دشمنوں کے سا زش کا حصہ نہ
تھیں بلکہ خدائی نظام کا ایک جزو تھیں ۔ان سب کے درمیان جو بات غلط ہوئی وہ
یہ تھی کہ علمی بنیا دوں پر ہو نے وا لے اختلا فات کی وجہ سے ایک دوسرے کو
کا فر ،ملحد ،فاسق ، زندیق اور مباح الدم سمجھا جا نے لگا ۔ان کی خاطر
تلواریں چلیں اور انگنت جانوں کا ضیاع ہوا ․ کیا ان مسا ئل میں جو مبنی بر
علم ودلا ئل ہوں وسعت کے راستہ کو اختیار کیا جاسکتا ہے ؟ یعنی ہر دوسرا یا
تیسرا فریق ایک دوسرے کو فاسق اور مخطی کہنے سے گریز کرے ۔اس کو واضح کر نے
کے لئے زمانہ نبوی میں رونماں ہو نے والے ایک واقعہ کا ذکر مناسب ہو گا
․’’قال النبی ﷺ یوم الأحزاب․لا یصلین أحد العصرالافي بني قریضۃ فادرک بعضہم
العصر في الطریق فقال لا نصلي حتی نأتیہم وقال بعضہم بل نصلي لم یُرد منا
ذلک ،فذکر ذلک للنبي ﷺفلم یعنف ‘‘ ( غزوہ خندق والے دن نبی ﷺ نے کچھ صحا بہ
کو بنو قریظہ کی طرف روا نہ کر نے سے پہلے فرما یا ’’ تم لوگ عصر کی نماز
بنوں قریضہ میں ہی پڑ ھنا ‘‘راستہ میں جب عصر کا وقت ہوا تو کچھ صحابہ نے
فرما یا ’’ ہمیں عصر کی نماز بنو قریضہ پہونچ کر ہی پڑھ نی چا ہئے ‘‘اور
بعض لو گوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے کہنے کا مقصد یہ نہ تھا، اسکا تذکرہ نبی ﷺ
سے کیا گیا تو آپﷺ نے کوئی سخت سست نہ کہا ) ہر ایک نے اپنے اجتہاد و قیاس
کے اعتبار سے کام کیا اور نبی ﷺ نے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا ۔ ایک
دوسری حدیث جسمیں نبی ﷺ نے فرما یا کہ’’ جب حاکم اپنے اجتہاد سے کوئی حکم
لگا تا ہے اور اسکا وہ اجتہاد صحیح ہو تو اسکے لئے دو نیکیاں ہیں اوراگر
اجتہاد میں غلطی ہو جا ئے تو اس کے لئے ایک نیکی ہے ‘‘ ( متفق علیہ ) اس
حدیث میں حا کم سے صرف انتظامی یا سیاسی قسم کے لوگ مراد نہیں ہیں بلکہ یہ
دین کے تمام شعبوں کو شا مل ہے۔اجتہاد کے غلط یا صحیح کا حتمی فیصلہ کسی
دوسرے انسان کے لئے مناسب نہ ہو گا ،کیونکہ ہر مجتہد بوقت اجتہاد خود کو
صحیح مانتا ہے اور اسی وجہ سے وہ ایک حکم لگا تا ہے۔لیکن دونوں ہی صورت میں
وہ ثواب کا حق دار ہو تا ہے نہ کہ عتاب کا ۔ اول الذکر حدیث میں نبی ﷺ نے
کسی بھی فریق کو صحیح یا غلط کہنے سے گریز کیا ،جبکہ وحی کا سلسلہ جاری تھا
، فیصلہ کر نا قطعی مشکل نہ تھا لیکن خامو شی اختیار کیا ۔ علم اپنے آپ میں
ایک لا محدود شئے کا نام ہے ،یہ بہت ممکن ہے کہ آپ اس کا ئنات کے حدود واقف
ہو جا ئیں لیکن علم کے حدود سے واقف ہو نا قطعی محال ہے ۔اگر اس دن نبی ﷺ
نے فیصلہ دے دیا ہو تا تو آج ہر شخص کے ہاتھ میں علم کا جغرافیائی نقشہ مو
جود ہو تا ․
قرآن کریم میں اﷲ تعالی یہود ونصاری کو مخاطب کر تے ہوئے فر ما تے ہیں ’’قل
یا أھل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواءٍ بیننا وبینکم الاّنعبدالا اﷲ ولا نشرک
بہ شیئاً․․․․․الخ‘‘ (آل عمران ۶۴)اے اھل کتاب ایسی بات پر متفق ہو جاؤجو
ہما رے اور تمہارے درمیان مشترک ہے ،یہ کہ ہم اﷲ کے علا وہ کسی کی عبادت نہ
کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرائیں ۔اس آیت میں یہو د ونصاری کو
دعوت دی گئی ہے کہ دوسرے اختلا فات کو چھوڑ کر ایسی بات پر اتفاق کر لو جو
ہمارے اور تمھارے درمیان مشترک ہے ۔قرآن کی کسی بھی آیت کو ایک خاص پس منظر
میں دیکھنا یا اس کی اطلا قیت کو محدودیامقید کر نا سراسر زیادتی ہو گی
۔لہذا کثرت اختلاف کے با وجود قدر مشترک پر اتفاق کر نا اس کثرت اختلاف کو
ختم کر نے یا کم کر نے کا ایک کار گر ذریعہ ہے ۔اس سے مذہبوں اور مسلکوں کے
درمیان تشدد کا مزاج کم ہو گا اور افہام وتفہیم کی فضا عام ہو گی اور تبلیغ
کے لئے موزوں ما حول دستیاب ہو گا ․
اختلاف کی نو عیت خواہ کچھ بھی ہو،کیا کسی کے لئے منا سب ہے کہ دوسرے کو
مباح الدم ، ملحد،فاسق اور فا جر کے ٹھپے لگا تا پھرے ؟ اﷲ رب العزت نے
اپنے نبی ﷺ کو مخا طب کر تے ہو ئے فر ما یا ’’فذکر انما أنت مذکر ․ لست
علیہم بمسیطر ‘‘( الغاشیۃ ۲۲)آپﷺ نصیحت کر تے رہیں کیونکہ آپ ﷺ نصیحت کار
ہیں ، آپﷺ ان کے اوپر داروغہ نہیں ہیں ۔ دوسری جگہ اس بات کو کچھ اس طرح
واضح کیا گیا ہے’’نحن أعلم بما یقولون وما أنت علیہم بجبار فذکر بالقرآن من
یخاف وعید ‘‘( ق ۴ )ہمیں معلوم ہے کہ وہ لوگ (کفار و منافقین )کیا کہتے
ہیں؟ آپﷺ ان کے اوپر دارو غہ نہیں ہیں لہذا آپ ﷺ قرآن کے ذریعہ ایسے لو گوں
کو نصیحت کریں جو اﷲ کی وعید سے ڈرتے ہیں ․
مذکورہ بالا آیات میں اﷲ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کو صرف تبلیغ اور تذکیر کی
ذمہ داری دی ، تحکمانہ انداز اختیار کر نے سے کلی طور پر منع کر دیا ۔یہ
رویہ کفر کے متعلق اختیار کر نے کے لئے کہا گیا ہے ، تو فی ما بین المسلمین
اس طریقہ سے ہٹ کر راستہ اختیار کر نا کہاں تک مناسب ہو گا ؟یہ نہ صرف فر
مان الہی کی مخالفت ہو گی بلکہ دین میں براہ راست تخریب کے مترادف ہو گا ․
اب ذرا ایک نظر اس عہد کے مزاج پر ڈالیں جس سے ہم ابھی گذر رہے ہیں ،یہاں
ایک لا محدود آزادی کو انسان کے بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے
۔ہر شخص اظہار رائے کے لئے بالکل آزاد ہے ،ہر کوئی زندگی کے تمام مسائل میں
اپنی ایک ذاتی رائے رکھتا ہے ،لیکن ان تمام آراء سے ہٹ کر لوگ ایک نظام پر
متفق ہو تے ہیں اوراسے بحسن وخوبی چلا تے ہیں ۔ بسا اوقات ایک ہی ریاست میں
رہنے والے دو متضاد نظریات کے لوگ ایک مشترکہ لائحہ عمل پر متفق ہو کر کام
کر تے ہیں ۔یہ نظارہ کچھ علاقوں کے استثناء کے ساتھ دنیا کے بیشتر حصوں میں
دیکھنے کو ملے گا ۔یہ معاملہ ان لوگوں کا ہے جوہدایت سما وی سے ناآشنا اور
خالق کائنات کے بتائے ہوئے طریقوں سے ناواقف ہیں۔ لیکن جن لو گوں کے پاس
ہدایت ربانی اور تر بیت نبوی کا پورا ذخیرہ موجود ہے وہ زیر بحث معاملہ میں
او ل الذکر لوگوں سے کہیں پیچھے ہیں جو بڑے افسوس اور شرم کی بات ہے ․ بسا
اوقات بعض مسلم تنظموں اور فرقوں کے اندر دینی حمیت بیدار ہو تی ہے ،اتحاد
واتفاق کا جذبہ ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے تو جلسوں ،جلوسوں اور سیمیناروں کا
انعقاد کیا جا تا ہے ،بڑے بڑے پوسٹرز اوربینرز تیا ر کئے جا تے ہیں اور ان
پر جلی حروف میں قرآن کریم کی یہ آیت لکھی جا تی ہے ’’واعتصموا بحبل اﷲ
جمیعا‘‘( اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو )لیکن جب آپ ان کے قریب ہو نگے تو
معلوم ہو گا کہ یہ لوگ ’’واعتصموا بحبل جماعتنا ‘‘(ہما ری تنظیم کی رسی کو
مضبو طی سے پکڑ لو )کا جاپ جپ رہے ہیں۔ اتحاد کے مفہوم سے نا بلد ،اتفاق کے
رموز ،باریکیوں اور نزاکتوں سے نا واقف ہیں ․ امت مسلمہ کے ہر فرد کی ذمہ
داری ہے کہ وہ اپنے متعلقہ مسلک کو کچھ لو گوں کے متفقہ نظریات کا مجموعہ
سمجھے نہ کہ ایک مستقل دین تصور کر بیٹھے،اسی طرح مختلف مسالک کے علماء
اپنے اپنے مکتب فکر کو اسی نظر سے دیکھیں نہ کہ دکان اور تجارت کی حیثیت سے
،اور مختلف فیہ مسائل کوصرف ایک مختلف فیہ مسئلہ ہی سمجھیں نہ کہ سامان
تجارت ․ اﷲ الموفق والمستعان
فیروزعالم ندویؔ
استاذشعبہ عربی: یونیٹی پبلک اسکول
چنئی،تملناڈو |