بسم اﷲ الرحمن الرحیم
پہلی صدی ہجری کے اواخر میں محمد بن قاسمؒکے ذریعہ فتح سندھ کے ساتھ
ہندوستان میں مسلم فاتحین کے آمد کی ابتداء ہو ئی ۔شروع میں کچھ حکمرا نوں
نے اسے صرف فتح اور حصول زر کے لئے نشا نہ بنایا ،حکومت نہیں کی۔پھر بعد کی
صدیوں میں دنیا کے الگ الگ خطوں سے آنے والے مسلم حکمرانوں نے ہندوستان کے
طول وعرض میں بڑی بڑی اور مستحکم حکومتیں قائم کیں ۔ان تمام بادشاہوں اور
فاتحین کے درمیان ( ایک آدھ کے استثناء کے ساتھ )ایک بات مشترک تھی ،ان سب
کا نصب العین حکمرانی اور توسیع مملکت تھا ۔ان لو گوں کا اسلام سے تعلق
ذاتی یا رسمی تھا ۔لہذا بر صغیر میں اسلام کے پھیلاؤکا سبب اس خطہ کا
مسلمانوں کے زیر تسلط ہو نا نہیں ہے ․
دور جاہلیت سے ہی ہندوستان کے ساتھ عربوں کے تجارتی تعلقات تھے جو ما بعد
اسلام بھی جا ری رہے ،لیکن فرق یہ ہو گیا کہ پہلے صرف سامان تجا رت کے ساتھ
آتے تھے اب انکے ساتھ ایمان کی عملی دولت بھی تھی ۔پھر کثرت سے علماء اور
مشائخ کی آمد ہو ئی جو اس خطہ کے طول وعرض اور چپہ چپہ میں جا بسے یہ لوگ
علم کے ساتھ ساتھ مضبوط اخلاق وکر دار کے بھی مالک تھے ،جنہیں دیکھ کر کوئی
بھی ان کی تقلید اور اتباع پر مجبور ہو جائے ۔اس طرح اسلام ہندوستان(ماقبل
تقسیم) کے گوشہ گوشہ اور دور دراز علاقوں تک پھیل گیااور اس ملک کا جزو لا
ینفک ہو گیا ۔
۱۹۴۷ء میں جہاں ایک طرف آزادی کی سوہانی صبح کی ابتداء ہو ئی وہیں دوسری
جا نب یہ ملک مذہب کے نام پر دو حصوں میں بنٹ گیا ۔ اس تقسیم کے با وجود
ہندوستان میں مسلمانوں کی آبا دی دنیا کی دوسری بڑی مسلم آبادی ہے ،اور
یہاں کی سیاست پر اثر انداز ہو نے کے لئے کافی ہے جو بعض برادران وطن کے
لئے نا قابل بر داشت اور نا پسندیدہ ہے ،تو کچھ کے لئے خطر ناک ہے ،بعض لوگ
اسے اپنے وجود کے لئے باعث تشویش تصور کر تے ہیں ․
آزادی سے بہت پہلے جب ہندوستان استعماری قوت کے شکنجہ میں کسمسا رہا تھا
،بعض ہندو مدبرین کو یہ فکر لا حق ہو ئی کہ اس ملک میں ہندؤں کے وجود پر
خطرہ منڈلا رہا ہے ۔کیونکہ پہلے ہی ایک بڑی تعداد مسلمان ہو چکی ہے اور اب
برطانیہ نے عیسائی مبلغین کو اس ملک کے ہر کونہ میں پھیلا دیا ہے ۔لہذا وہ
لوگ ہندو ازم کے دفاع کے لئے کمربستہ ہو گئے اور مختلف تنظیموں کا وجود ہوا
۔بہر حال جب ہندوستان آزاد ہوا اور قائدین کے اصرار پر مسلما نوں کو انکا
حصہ بانٹ کرالگ دے دیاگیا۔لیکن یہ تقسیم خلاف فطرت تھی ،کیونکہ مسلمان اس
ملک کے چپہ چپہ میں آباد تھے اور وہ اصلاًاسی مٹی کے پیدا وار تھے جنہیں
بانٹنا یا الگ کر نا ممکن نہ تھا ، وقت کی ستم ظریفی کی وجہ سے علا قوں
کوتو بانٹ لیا گیا لیکن لوگ اپنی اپنی مٹی سے چپکے رہے ۔آج آزادی کے ساٹھ
سال بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد دوسرے مسلم ممالک سے کہیں زیادہ ہے
۔جوسیاسی امور میں اثر انداز ہو نے کے لئے کافی ہیں ،یہ چیز برادران وطن کو
کھٹکتی ہے۔بعض ہندو تنظیمیں جنکے وجود کا پس منظر مسلم مخالفت ہے وہ اس صو
رت حال سے بہت زیا دہ نالاں اور غضب ناک ہیں ،انہیں دیار ہند میں مسلمانوں
کا وجود ایک لمحہ کے لئے بھی گوارہ نہیں ہے ۔اسی طرز فکر نے آزادی سے لیکر
اب تک سیکڑوں خونی فسادات کو جنم دیا ،لاکھوں معصوم جانیں اس کی خوراک بنیں
اور انسانیت اپنے آپ پر شرمسار ہو کر رہ گئی ․
ان سب کے درمیان ایک سوال جو مسلما نوں کے دل ودماغ میں بار بار پیدا ہو تا
ہے وہ یہ ہے کہ کیا اس ملک میں مسلمانوں کا وجود خطرے میں ہے ؟اس وسوسہ کو
اس وقت اور تقویت مل جا تی ہے جب ہم اسپین میں ہو نے والے حادثہ کو دیکھتے
ہیں ،جہاں آٹھ سوسالہ شاندار حکومت کے بعدمسلمانوں کانام ونشان ختم ہو گیا
۔انہیں خدشوں کے پیش نظر مسلما نوں میں مختلف تحریکوں اور تنظیموں کا وجود
ہو ا،انمیں سے اکثر تنظیموں نے سیا ست کو اپنا ہدف بنایا ،اور اسی راستہ سے
مسلمانوں کے سرخروئی کے لئے کوشاں ہوئیں۔گذشتہ سال ۲۰۱۴ء میں ہو نے والے
سولہویں پارلیمانی انتخاب کے دوران ساری مسلم تنظیموں نے ایک خاص پارٹی کو
بر سر اقتدار آنے سے روکنا چا ہا اور اس کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔
لیکن وہ پارٹی پوری اکثریت سے اقتدار میں آگئی بالفاظ دیگر پانچ سالوں کے
لئے اس ملک کے سیاہ وسفید کی مالک ہو گئی ․کیا سیا ست محض مسلمانوں کی بقاء
کی ضامن ہے ؟کبھی نہیں ،ہرگز نہیں ۔البتہ اسے جزوی طور پر تسلیم کیا جا
سکتا ہے ،یعنی ایک ایسی تنظیم جو اسمیں ملوث ہو ئے بغیر مسلمانوں کے حقوق
کی نگرانی کرے ۔لیکن پوری طرح اس اکھاڑے میں کود جا نا ،انہیں داؤں کو
کھیلنا ،انہیں ہتھکنڈوں کو استعمال کر نا ،وہی روش اختیار کر نااور پھریہ
دلیل دینا کہ یہ مسلمانوں کے وجود کی جنگ ہے ،سراسر غلط ، نا انصافی ، خلاف
واقعہ امر ، مشیت ربانی سے انحراف اور چشم پوشی ہے ۔آج سے چودہ سو سال قبل
جب اﷲ نے اس نئی امت کو وجود بخشا اس وقت کاشتکاری سے لیکر ملک گیری اور
سیا دت تک سارے شعبہ جات مو جود تھے اور ان کے لئے منا سب اشخاص دستیاب تھے
۔اس امت کو وجود بخشنے کا مقصد شعبہ ہائے حیات میں پائے جانے والے فسا دات
اور برائیوں کی اصلاح تھی جسے بہت واضح انداز میں اﷲ تعالی نے یوں بیان فر
مایا ’’ کنتم خیر أمۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر
وتؤمنون باﷲ ‘‘(اٰل عمران ۱۱۰)تم لوگ ایک بہترین امت ہو جسے لو گوں کی نفع
رسانی کے لئے پیدا کیا گیا ہے ،تم لوگوں کو اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور
بری باتوں سے روک تے ہو اور خود بھی اﷲ پر ایمان رکھتے ہو ۔یہ وہ مقصد ہے
جس کے پیش نظر اﷲ تعالی نے اس امت کو بر پا کیا ۔لہذا مسلمانوں کی بقاء کی
اولین شرط نفع رسانی ہے ۔اگر یہ صفت اس امت سے ختم ہو جائے تو بقاء کا
استحقاق بھی خطرہ میں پڑ جا ئے گا ،خواہ وہ ہندوستان میں ہو یا دنیا کے کسی
اور خطہ میں ،یہ شرط ہر جگہ یکساں طور پر قائم رہے گی ․ نافعیت کا ایک عام
اصول اﷲ تعالی نے اپنی کتاب میں ذکر فرما یا ہے ’’فاماالزبد فیذہب جفاء
وأما ما ینفع الناس فیمکث في الأرض کذالک یضرب اﷲ الامثال ‘‘(الرعد
۱۷)ٌْجھاگ رائیگاں اور بیکار جا تا ہے ،لوگوں کے لئے نفع بخش چیزیں زمین
میں ٹھہر جا تی ہیں ،اﷲ اسی طرح مثالیں دیتا ہے ۔دوسری جگہ اسی مفہوم کو
کچھ یوں بیان فرمایا ’’ألم تر کیف ضرب اﷲ مثلاًکلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ اصلھا
ثابت وفرعھا فی السماء ۔ تؤتی اکلھا کل حین باذن ربھا ویضرب اﷲ الامثال
للناس لعلھم یتذکرون ۔ ومثل کلمۃ خبیثۃ کشجرۃ خبیثۃ اجتثت من فوق الأرض
مالھا من قرار ‘‘(ابراھیم ۲۴،۲۵،۲۶) اے نبی ﷺکیا آپ نے نہیں دیکھا ؟اﷲ نے
کیسے پاک کلمہ کی مثال اس پاک درخت سے دی جس کی جڑیں مضبوط ہیں اوراس کی
ڈالیاں آسمان میں ہیں ۔ وہ درخت ہمیشہ اپنے رب کے حکم سے پھل دیتا ہے ،اﷲ
تعالی لوگوں کے لئے مثالیں پیش کر تا ہے تا کہ وہ نصیحت حا صل کریں ۔اور
برے کلمہ کی مثال اس برے درخت کی سی ہے جسے زمین سے اکھاڑ دیا گیا ہو اوراس
کا کوئی ٹھکا نہ نہ ہو ․
مذکورہ بالا آیتوں میں اﷲ تعالی نے بہت واضح انداز میں نافعیت کے اصول کو
بیان فر ما دیا ۔امت محمدیہ کی تخلیق اور بعثت کا مقصد ہی نافعیت بتایا تو
وہیں نافعیت کو اس دنیا میں قیام اور ثبات کے لئے عمومی شرط قرار دیا ۔اس
اصول کی معقولیت کو سمجھ لینے کے بعد بھی یہ کہتے رہنا کہ ہمارے آباء
واجداد نے یہ کیا وہ کیا ،ہمارے اسلاف نے یہ کار نامہ انجام دیاوہ کارنا مہ
انجام دیا بالکل عبث اور لاحا صل ہے ۔اسلاف کے کار ناموں کا اعتراف اوراس
کی تذکیرایک الگ شئے ہے ،لیکن اسکی دہائی دے کر اپنا حق ثابت کر نا اور خود
کی طرف سے بے عملی کو اپنی پہچان بنائے رکھنا انتہائی نا مناسب اور غیر
معقول بات ہے ۔اگر ماضی میں کوئی شئے کار آمد تھی اور موجودہ وقت میں اس کی
افادیت ختم ہو جا ئے تو ایسے چیز کی جگہ میوزیم ہو تی ہے نہ کہ یہ عملی
دنیا ․
ہندوستانی مسلمانوں کا اپنے وجود کے تحفظ کے لئے رائج سیاسی ہربوں کا
استعمال کر نا ،سیاسی قلابازوں اور پاکھنڈیوں کے پیچھے بھاگنا ایک طفلا نہ
سوچ ہے جو پختگی سے عاری ہے ،غیر ربانی فکر ہے جو ہدایت الہی سے نا آشنا
ہے۔ہمیں مناسب حال اور معیاری تعلیم کا انتظام کر کے نئی نسل کو مستقبل کے
لئے کار آمد اور مفید بنانا ہو گا اورخود بھی ہر سطح پر مفید اور کار آمد
بننا ہو گا ۔شکوہ سنجی کو چھوڑ کر عملیت کو راہ دینا ہو گا ۔ منقول ومعقول
کے پیش نظر یہ راستہ زیادہ مناسب معلوم ہو تا ہے جس پر چل کر ہم خود کو سر
خرو کر سکتے ہیں ․
فیروزعالم ندویؔ
استاذشعبہ عربی: یونیٹی پبلک اسکول
چنئی،تملناڈو
|