پاکستان کو درپیش مسائل، مشکلات، خدشات اور اُن کا حل - حصہ اول
(Muhammad Imran Khan, Peshawar)
حصہ اول
پاکستان کو درپیش مسائل، مشکلات، خدشات اور اُن کا حل |
|
|
پاکستان کو درپیش مسائل، مشکلات، خدشات اور اُن کا حل - حصہ اول |
|
حصہ اول:
یہ موضوع کوئی نیا نہیں ہے، کہ پاکستان اور پاکستانی عوام، پاک فوج،
سیکورٹی اجنسیوں کو کِن مشکلات کا سامنا ہے۔ حالات جب، جب سنبھلنے لگتے ہیں
تو، کرپٹ سیاستدان یا تو ڈائریکٹ مداخلت کرتے ہیں یا پھر
سمجھوتے، مُکمُکا کر کے حالات کو پھر اِک نیا رُخ دے دیتے ہیں۔
بہر حال امن و امان کی صورتِ حال سے شروع کرتے ہیں۔ فوج کے آپریشن سے حالات
کافی حد تک بہتر ہو
چُکے ہیں، چاہے و فاٹا ہو، خیبر پختونخواہ ہو یا پھر ملک کے دُوسرے بڑے شہر۔
لیکن ابھی بھی یہ حالات تسلی بخش نہیں۔
حالات تب ہی بہتر ہو سکتے ہیں ١۔ امن و امان نافظ کرنے والے اداروں میں سے
کالی بیڑوں کو ڈھونڈا جائے، اور اُس کا احتساب کیا جائے۔ ٢۔ جرائم پیشہ اور
منشیات فروش عناصر کے خلاف کریک ڈاون کیا جائے۔ ٣۔ شناختی کارڈ کو ہر شہری
کے پاس ہونا لازمی کیا جائے۔ ٤۔ سرکاری و نجی سیکیورٹی اداروں کے یونیفارم
کو عوامی جگہوں پر میسر ہونے پر پابندی۔ ٥۔ کیمکل کمپنیاں، اور کیمیکل
فروخت کرنے والوں اور خریدنے والوں کے اغراض و مقاصد اور پھراِن کیمیکلز کا
اُسی مقصد کے لئے استعمال یقینی بنانا۔ ٦۔ تمام سیکیورٹی اداروں کا مشترکہ
کمیشن اور معلومات کا اشتراک۔ ٧۔ ملک دُوشمن سیاستدان، عناصر، عوامل پر ناں
صرف گہری نظر رکھنا، بلکہ اُن کا بروقت سدباب کرنا۔
یہ تو ہوگئے حفاظتی اقدامات لیکن، ان میں عوام کا بھر پور حصہ لینا، عوام
کو اس بات کی آگاہی دینا کہ کوئی بھی مشکوک، شخص، چیز کوبحثیتِ مُحبِ وطن
پاکستانی بروقت حکومتی اور سکیورٹی عہداداروں تک پہنچانا۔
دوسرے نمبر پر کرپشن ہے، جو ہماری نس نس میں بھر گئی ہے، ہر خاص و عام ،
چھوٹا، بڑا، سرکاری و غیر سرکاری، ظاہر و باطن، اس مرض میں مبتلا ہے۔ ہر
فرد اپنی استطاعت (اوقات، حیثیت) کے مطابق کرپشن کر رہاہے، حرام و حلال کی
تمیز سے بالا تر جیسے ہم نے کبھی مرنا نہیں اور نہ ہی ہم نے اللہ کو اپنے
عمل کا حساب دینا ہو۔ استغفرُاللہ ۔
کرپشن کا صدِباب بھی اتنا مشکل کام نہیں۔ بس نیک نیتی ہونی چاہئے۔ ایسے
مواقع نہ دیے جائیں جہاں کرپشن ہونے کا گُمان ہو۔ ہر چیز شفاف اور صاف لغت
میں ہو۔ اور ہر اِک معلیاتی لین دین کی بدریج منظوری
ہو۔ اور پھر کام کرنے والے اور کام کروانے والے بھی مخلص ہوں۔
تیسرے نمبر پر ملکی وسائل کا صحیح استعمال ہے۔ میں کئی بار اس بات پر حیرت
کا اظہار کر چُکا ہوں کہ، ہمارے ملکی وسائل کی منصوبہ سازی صحیح ہاتھوں میں
نہیں ہے، ورنہ سوئی گیس جب دریافت ہوئی اس کو اسی وقت صرف کارخانوں اور
فیکٹریوں کو دیتے، ہر صوبے میں اِک اِک پاور سٹیشن قائم کرتے اور پھر گیس
سے بجلی بنا کے صنعتوں اور صارفین کو کم خرچ بجلی دیتے، اس طرح نہ تو گیس
کی پائپ لائنوں پر لاگت آتی اور نہ ہی بجلی کا بحران پیدا ہوتا۔ یہ کبھی
بھی ہو سکتا تھا، اگر ہمارے ملک کے وزیر
مشیر ملک کا مفاد مقدم رکھتے۔ بہرحال ابھی بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے پر کوئی
اس معاملے پر سوچھے غور تو کرے۔ اور صرف یہ ہی نہیں اور دیگر وسائل بھی
ہیں، جیسے کوئلہ، پیٹرول، اور گوادر پورٹ، کراچی پورٹ، لیکن ہم نے کبھی
اپنی حالت بدلنے کا سوچا ہی نہیں اور خود بخود یہ چیزیں ہوتی نہیں۔
جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حصہ دوم |
|