سب سے پہلی بات جو ہمیں سمجھنے کی اشد ضرورت ہے وہ یہ کہ
بخار کسی بیماری کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک علامت ہے جس جسم کی جانب سے
کسی بھی خاص وجہ سے ردِ عمل کے طور پر ظاہر ہوتی ہے- لیکن سوال یہ اٹھتا ہے
کہ بخار چڑھتا کب اور کیوں ہے؟ ہم اکثر صرف بخار کا علاج کرواتے ہیں لیکن
ان وجوہات کی جانب توجہ نہیں کرتے جو اس بخار یا جسم کے درجہ حرارت میں
اضافے کا سبب بنی ہیں- اس کی بڑی وجہ بخار سے متعلق علم و آگہی کا نہ ہونا
ہے- ہماری ویب نے اسی حوالے سے اپنے قارئین کے علم و آگہی کے لیے معروف
چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر مبینہ آگبٹوالہ سے خصوصی ملاقات کی اور ان سے بخار
چڑھنے کی وجوہات٬ علامات اور ان کے علاج کے بارے میں دریافت کیا- ڈاکٹر
صاحبہ اس اہم معاملے کے بارے میں کیا معلومات فراہم کرتی ہیں٬ آئیے جانتے
ہیں-
ڈاکٹر مبینہ کے مطابق “ والدین ڈاکٹر کے پاس جاتے ہی تب ہیں جب بچے کو بخار
ہوتا ہے اور بخار ایک علامت ہے جو کہ جسم کے ردِ عمل کے طور پر کسی نہ کسی
وجہ سے ظاہر ہوتی ہے“-
|
|
“ اکثر والدین کو شکایت ہوتی ہے کہ ان کے بچے کو بخار ہے جیسے کہ بچے کا سر
گرم ہے اور جسم ٹھنڈا٬ یا بچے کو پسینہ بہت آرہا ہے- لیکن زیادہ تر والدین
بچے کو تھرمامیٹر لگائے بغیر ہی یہ باتیں کہہ رہے ہوتے ہیں- لیکن یاد رکھیں
جب تک آپ بچے کا درجہ حرارت چیک نہیں کریں گے آپ کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ
بچے کو بخار ہے بھی یا نہیں“-
“ 5 سال کی عمر تک کے بچوں کا بخار چیک کرنے کے لیے تھرمامیٹر بغل کے نیچے
رکھا جائے کیونکہ چھوٹے بچے زبان کے نیچے تھرمامیٹر نہیں رکھ سکتے- اس کے
بعد اگر تھرمامیٹر 100 ڈگری سے زائد درجہ حرارت بتاتا ہے تو اس میں مزید
ایک ڈگری جمع کرلیا جائے“-
“ تاہم بچہ اگر 8 یا 9 سال کا ہو تو تھرمامیٹر زبان کے نیچے ہی رکھ کر بخار
کو جانچا جائے اور یہی صحیح طریقہ ہے“-
ڈاکٹر مبینہ کا کہنا تھا کہ کہ “ 1 سے 2 ماہ کے بچے کے جسم کا درجہ حرارت
97 ڈگری ہو یا پھر 100 ڈگری اسے نارمل ہی شمار کیا جاتا ہے اور اسے بخار
نہیں کہہ سکتے“-
“ اکثر بچوں کو کپڑے میں لپیٹ کر رکھ دیا جاتا ہے٬ ہوا کا گزر نہیں ہوتا یا
کمرے میں گھٹن ہوتی ہے اور ایسی حالت میں درجہ حرارت چیک کیا جائے تو وہ
لازمی زیادہ ہی آتا ہے- صرف ایک دفعہ چیک کرنے پر یقین نہ کیجیے بلکہ 2 یا
3 مرتبہ چیک کر کے پھر فیصلہ کیجیے“-
“ گرمی زیادہ ہونے کی صورت میں بھی بچے کے جسم کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے-
اگر آپ کو لگتا ہے کہ ماتھا گرم ہے اور جسم ٹھنڈا ہے جبکہ تھرمامیٹر بھی
کچھ نہیں بتا رہا تو پھر آپ اسے نارمل ہی کہیں گے- جہاں تھرمامیٹر کا پارہ
اوپر جائے گا پھر آپ اسے بخار کہیں گے“-
|
|
“ اسپتال میں تو ڈاکٹر کئی اور طریقوں سے بھی بخار چیک کرتے ہیں جیسے کہ
کان سے بھی درجہ حرارت جانچا جاتا ہے لیکن والدین کے لیے تھرمامیٹر والا
عام طریقہ ہی کافی ہے“-
ڈاکٹر مبینہ کہتی ہیں کہ “ بخار کسی بھی جسمانی انفیکشن کا ردِ عمل ہوتا ہے-
جسمانی انفیکشن کی اقسام میں بیکٹریل انفیکشنز اور وائرل انفیکشنز شامل
ہوتے ہیں- وائرل انفیکشن میں تیز بخار چڑھتا ہے اور پورے جسم میں درد ہوتا
ہے“-
“ کچھ سادہ وائرل انفیکشن ہوتے ہیں جبکہ چند شدید اور خطرناک وائرل انفیکشن
بھی ہوتے ہیں جیسے کہ ڈینگی- وائرل انفیکشن عموماً 2 دن میں بغیر اینٹی
بائیوٹک کے ہی صحیح ہوجاتا ہے اس میں بس بچے کو پیراسٹامول یا پینا ڈول دی
جاتی ہے“-
“ بیکٹیریل انفیکشن جسم کے کسی بھی حصے میں ہوسکتا ہے- اس میں ڈائریا بھی
ہوسکتا ہے٬ نمونیہ بھی ہوسکتا ہے٬ کان میں انفیکشن بھی ہوسکتا ہے٬ گلے میں
انفیکشن بھی ہوسکتا ہے اور پیشاب میں انفیکشن بھی ہوسکتا ہے“-
ڈاکٹر مبینہ کا کہنا تھا کہ “ بخار اترنے کا انتظار صرف 1 دن کریں اور نہ
اترنے کی صورت میں ضرور ڈاکٹر سے رابطہ کریں“-
“ اگر سینے کا انفیکشن ہوگا تو بخار کے ساتھ کھانسی بھی ہوگی٬ اگر گلے کا
ہوگا تو سوجن بھی ہوگی- ایک بخار جو تیزی سے چڑھتا ہے اور اس میں سردی بھی
محسوس ہوتی ہے وہ پیشاب کے انفیکشن کی وجہ سے ہوتا ہے“-
“ یہ انفیکشن چھوٹے بچوں یا پھر تھوڑے بڑے بچوں میں چیک کرنا مشکل ہوتا ہے
کیونکہ وہ یہ نہیں بتا پاتے کہ انہیں پیشاب کرتے وقت جلن محسوس ہوتی ہے- بس
اس کی یہی نشانی ہے کہ بخار تیزی سے چڑھے گا٬ سردی لگے گی اور کبھی کبھی قے
بھی ہوتی ہے“-
“ یہ صرف ڈاکٹر ہی جانچ سکتا ہے اور اس کا حتمی فیصلہ پیشاب کے ٹیسٹ کے بعد
ہی کیا جاتا ہے“-
|
|
ڈاکٹر مبینہ کے مطابق“ ایک بخار ایسا بھی ہوتا ہے جو کسی صورت کم نہیں ہوتا
ہے اور 100 ڈگری سے اوپر ہی رہتا ہے٬ یہ ٹائیفائیڈ کا بخار ہوتا ہے اور اسے
مدت کا بخار بھی کہا جاتا ہے“-
“ ٹائیفائیڈ کا بخار ہمارے ہاں عام اور یہ بخار کی ایک بڑی وجہ بھی ہے-
دوسرا عام بخار ملیریا کی وجہ سے ہوتا ہے- ملیریا کا بخار ایک دن چھوڑ
چڑھتا اور اترتا رہتا ہے اور اس میں بھی مریض کو سردی لگتی ہے- لیکن کبھی
کبھی ملیریا کا بخار مستقل بھی رہتا ہے اور سردی بھی محسوس نہیں ہوتی“-
“ تاہم یہ تمام چیزیں صرف ڈاکٹر ہی جان سکتا ہے آپ صرف 24 یا 48 گھنٹے
انتظار کریں اور نہ اترنے کی صورت میں ڈاکٹر کو دکھائیں“-
ڈاکٹر مبینہ بخار کم کرنے کا عام اور کارآمد طریقہ کچھ یوں بتاتی ہیں کہ “
بچے کے ماتھے پر سادہ پانی کی پٹیاں رکھیں- ٹھنڈے یا برف والے پانی کی
پٹیاں بالکل نہ رکھیں- عموماً والدین برف والے پانی کی پٹیاں رکھتے ہیں جس
کی وجہ سے بخار اور تیز ہوجاتا ہے اور جبکہ بچے کو سردی لگنے لگتی ہے اور
ساتھ ہی اس پر کپکپی بھی طاری ہوجاتی ہے“-
“ اگر ممکن ہو تو بچے کو عام پانی سے نہلا دیں لیکن باہر نکال کر براہ راست
پنکھے کے نیچے نہ رکھیں بلکہ تھوڑا سا لپیٹ دیں- اس طرح بھی بخار کم ہوجائے
گا“-
|
|
ڈاکٹر مبینہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ “ اکثر بچوں کو ویکسینیشن کی وجہ سے بھی
بخار چڑھ جاتا ہے جو کہ 24 گھنٹے تک رہتا ہے اور اس کے بعد یہ بخار خود ہی
ختم ہوجاتا ہے“-
“ ڈینگی کے موسم میں اکثر والدین پریشان ہوجاتے ہیں اور وہ یہی سمجھتے ہیں
کہ ہمارا بچہ بھی ڈینگی کا شکار ہوگیا ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے- چھوثے
بچوں میں کان کا انفیکشن عام ہے چونکہ وہ اپنی تکلیف بتا نہیں سکتا اس لیے
وہ صرف کان کو بار بار پکڑتا رہتا ہے- بخار کی تشخیص اور علاج صرف ڈاکٹر کا
کام ہے“-
“ شدید گرمی میں بھی بچے کو بخار ہوجاتا ہے ایسے میں بچے کو ہلکے کپڑے
پہنائیں اور لپیٹیں بالکل بھی نہیں تاکہ اسے ہوا ملتی رہے“-
آخر میں ڈاکٹر مبینہ کا کہنا تھا کہ “ بخار میں کبھی کبھار بچہ صدمے میں
بھی چلا جاتا ہے٬ یا ڈائریا یا پانی کی کمی ہوتی ہے تو بچے کے جسم کا درجہ
حرارت گر جاتا ہے یہاں تک کہ 97 سے بھی نیچے چلا جاتا ہے اور بچہ ٹھنڈا پڑ
جاتا ہے تو اسے HYPOTHERMIA کہتے ہیں- یہ بخار کی سب سے زیادہ جان لیوا
صورتحال ہوتی ہے اور ساتھ ہی خطرے کی گھنٹی بھی“-
|
|
|