دورِ حاضر پر سیل فون کے اثرات

ایجادات انسانی فلاح و بہبود کے وجود کے لیے وقوع پذیر ہوتی ہیں جو انسان کی زندگی کو آسان تر بنا دیتی ہیں۔ کچھ ایجادات ایسی ہیں جو فائدے کم اور نقصانات زیادہ پہنچاتی ہیں۔آج کل سیل فون کی وجہ سے دُنیا مُٹھی میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ سیل فون معاشرے کے لیے ناسور اور وبالِ جان بن کر رہ گیا ہے۔ سیل فون کا ناجائز استعمال خاندانوں میں دشمنیاں پیدا کر رہاہے۔ خاندانی رشتوں میں دوریاں پیدا ہورہی ہیں۔ نوجوان اُولاد نے والدین کو جیتے جی چنے چبوا دیئے ہیں۔ ماں باپ جو اپنی اُولاد سے بڑی اُمیدیں وابستہ کیے ہوتے ہیں۔ وہ بڑے اعتماد کے ساتھ اپنے بچوں کو کام اور ٹرینگ کے لیے بھیجتے ہیں۔ اُن کے ہاتھوں میں سیل فون تھماتے ہیں۔تاکہ اُن کے ساتھ رابطہ قائم رہ سکے ۔ اُن کی تمام جائز ضروریات پوری کرتے ہیں۔ لیکن یہی نوجوان لڑکے لڑکیا ں باہر جا کر اپنے والدین کی آنکھوں میں مٹی جھونک دیتے ہیں۔ تاکہ اُن کے والدین وہ نہ دیکھ سکیں جو کام وہ کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک لڑکی جب تک اپنے گھر میں ہوتی ہے۔ اُسے اپنے والد اور بھائیوں کا ڈر اور خوف ہوتا ہے۔ لیکن جیسے ہی وہ گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھتی ہے ۔ ویسے ہی اُس کے شرم و حیاء کے پردے کھُل جاتے ہیں۔ اُس میں سے اپنے والد اور بھائیوں کا خوف دور ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے آ پ کو آزاد خیال سمجھنے لگتی ہے۔ آج ہمارہ معاشرہ بدیوں ، برائیوں ،زناکاریوں اور بے راہ رویوں کا شکار کیوں ہے ؟ایسا اِس لیے ہے کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے ہمارے معاشرے کو ایسابنا دیا ہے۔

جس کا م کے لیے بھیجا جاتا ہے ۔ وہ اُس کام کو چھوڑ کر اور مختلف کاموں میں مصروفِ عمل ہو جاتے ہیں کہ اُن کے پاس اپنے والدین سے بھی بات کرنے کے لیے وقت نہیں ہوتا۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ اِن کے ایک ہاتھ میں موبائل فون تو دوسرے میں کتاب اور کانوں میں ہینڈ فری ہوتی ہے۔ کال پر کسی اور سے بات تو چیٹ ( Message) پر کسی اور سے بات ہو رہی ہوتی ہے۔ ایک وقت میں دو دو سے باتیں کرنا بڑی بہادری اور فنکاری سمجھتے ہیں۔لڑکا بڑے فخر سے اپنے دوستوں کو بتاتا ہے کہ مَیں اتنی لڑکیوں سے روزانہ بات کرتا ہوں ۔ تو اِسی طرح لڑکیاں بھی بڑے ناز و امان کے ساتھ اپنی سہیلیوں کو اپنے دوستوں کے بارے میں بتاتی ہیں۔ ساری ساری رات سیل فون پر باتیں کرتی ہیں۔ اِ ن کو دِن کے وقت بھی قرار نہیں آتا ۔ یہاں تک کہ اِن کو دن اور رات کا پتا ہی نہیں چلتا ۔ خدا جانتا ہے کس دنیا میں مگن ہو جاتے ہیں کہ اپنے آپ کو ہی بھول جاتے ہیں۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو معاشرہ خاک ترقی کرے گا۔

یہی اولاد جب گھر ہوتی ہے تو اِن میں والدین کا عزت و احترام شدت سے پایا جاتا ہے۔ ہر بات اپنے والدین کو سچ سچ بتاتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی گھر سے باہر قدم نکلتے ہیں اور پھر سال ،چھ مہینے بعد گھر واپس لوٹتے ہیں تواُن کے یتور دیکھنے والے ہوتے ہیں۔ اُن کی چال ڈھال، بات چیت اور اسٹائلوں سے والدین مشاہدہ کر لیتے ہیں کہ اب ہمارا بچہ یا بچی ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ لیکن اُس وقت والدین بھی اپنی جوان اُولاد کے سامنے گونگے بن جاتے ہیں۔ والدین بھی بڑی سادگی کے ساتھ اپنی لاپرواہ اولاد کے سامنے خون کے آنسو پی جاتے ہیں۔
ایسا سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ ایسا سب کچھ اِس لیے ہو رہا ہے ۔ کیونکہ یہ سب ہمارے معاشرے کی پیداوار ہے ۔ جو کچھ معاشرے میں ہوتا ہے۔ بچہ ہمیشہ وہ ہی نقل کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بچوں میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ بدی اور برائی والے کاموں کو بہت جلد نقل کرتے ہیں۔یہی سیل فون والدین اِن کو اپنے ساتھ رابطے کے لیے دیتے ہیں۔ اور اِسی کے ساتھ پتا نہیں کہاں کہاں رابطے قائم کر لیتے ہیں۔پھر والدین سے کم اور دوستوں سے زیادہ رابطہ رہتا ہے۔ والدین کو بس اُسی وقت فون کرنا ہوتا ہے۔ جب پیسوں کی یا پھر کسی اور چیز کی ضرورت ہو ۔ یہی رابطہ اِن کی حسین و جمیل زندگیوں کوزنگ آلود کر کے رکھ دیتا ہے۔ اِ ن کے خوبصورت اور معصوم چہرے جُھلس کر رہ جاتے ہیں۔ پتا نہیں ایک دن میں کتنی زناکاریاں ہو رہی ہیں اور کتنے فیصد لڑکیاں ہسپتالوں میں جا کر اپنا ابارشن کر وا رہی ہیں۔خدا بھلا کر ے اُن کمپنیوں کا جنہوں نے ایسی ایسی میڈیسنز تیار کر دی ہیں جو لڑکے اور لڑکیوں کے لیے بروقت فائدہ مند ثابت ہو رہی ہیں ۔سیل فون بذاتِ خود برا نہیں ہے بلکہ اِس کا ناجائز استعمال کرنے والے لڑکے لڑکیاں برے ہیں۔بہن بھائیوں میں اتنی دوریاں پیدا ہوگی ہیں۔کہ وہ ایک پل کے لیے بھی ایک دوسرے کے پاس بیٹھنا گوارہ نہیں کرتے ہیں۔اُن کو جیسے ہی فرصت ملتی ہے ویسے ہی اپنے دوستوں سے محوِ گفتگو ہو جاتے ہیں۔دنیا کی رنگینیوں میں ایسے کھو جاتے کہ اپنے والدین کی ہی قدرو قیمت بھول جاتے ہیں۔

ہاں ! ایسی اولاد زندگی میں کبھی کامیاب نہیں ہوتی جو اپنے والدین کے پیار و شفقت سے محروم ہو۔

سیل فون جائز استعمال کے لیے بنایا گیا۔ لیکن نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے اِس کا ناجائز استعمال شروع کر دیاہے۔ اور پھر خدا بھلا کر ے اُن کمپنیوں کا جو آئے روز آسان اورکم قیمت ریٹ پر کال پیکجز نکا رہی ہیں۔نوجوانوں کی مشکلات کو آسان تر بنارہی ہیں۔میرے خیال میں اِن کے لیے سب سے بہتر نائٹ کال پیکج ہوتا ہوگا ۔ تاکہ وہ ساری رات آرام و سکون سے اپنے سونے کاوقت برباد کرسکیں ۔ اِن میں سے اپنے والدین کے لیے خالص پیار ختم ہو گیا ہے۔ اور اب جو باقی ہے۔ وہ سب دِکھاوا ہے۔ بس اگر خیال ہے ، پیار ہے توایک عاشق کو اپنے محبوب سے اور محبوب کو اپنے عاشق سے ۔ لیکن اِن کے پیار میں بھی ملاوٹ ملتی ہے۔ کیونکہ خالص یہ بھی نہیں ہوتا ہے۔ مطلبی ہوتا ہے۔
؂محبت ہوتی اگر خون کے رشتوں میں
تو یوسف نہ بِکتا مصر کے بازاروں میں

والدین چاہے پاس بیٹھے اپنی زندگی کی آخری گھڑیا ں پوری کررہے ہوں لیکن اُولاد کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ہمارے نوجوان لڑکے کیوں ہر میدان میں لڑکیوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں؟ایسا اِس لیے ہے کہ لڑکے بے ہوشی اور نا سمجھی کے عالم میں اِن کے بنائے ہوئے جال میں پھنس جاتے ہیں اور پھر اِن کا نکلنا مشکل ہو جاتاہے۔ کیونکہ لڑکی اِ ن کی کمزوری بن جاتی ہے ۔

حضرت آدم کو عورت باغِ عدن سے باہر نکلوا سکتی ہے، خدا کے بندے شمشون قاضی کو دلیلہ بے وقوف بنا سکتی ہے، داؤد بادشاہ کو نچا سکتی ہے، یوحنا اصطباغی کا سر کٹوا سکتی ہے۔تو وہ ہی مائی حوا آج کی ہر لڑکی کے روپ میں ہر لڑکے سے مجرہ بھی کرو اسکتی ہے۔ مگر مچھ کے آنسو بہا کر اپنی ہر بات بھی منوا سکتی ہے۔ اُ ن کو ہر میدان میں مات دے سکتی ہے۔ مرد آدم کی طرح بھولا بھالا ہے جبکہ عورت مائی حوا کی طرح طاقتور اور زور آور ہے۔ بس یہی وجہ ہے کہ لڑکے لڑکیوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔حقیقت میں لڑکے ہی معاشرے کا سر، فخر اور شان سمجھے جاتے ہیں اور لڑکیا ں گھر کی زینت ۔

ہم ایک دوسرے پر انگلیاں تو اُٹھا تے ہیں۔ ایک دوسرے کی نوک ٹوک تو بہت کرتے ہیں۔ کسی کا راز افشاں کر کے خوش تو حدسے زیادہ ہوتے ہیں۔دوسروں کی عزت کے ساتھ کھیلنا اور پامال کرنا تو بخوبی جانتے ہیں۔ لیکن اِس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ایک انگلی دوسرے کی طرف اور چار ہماری طرف ہوتی ہیں۔اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے اپنی آنکھ کا شتہیر نہیں دیکھتے لیکن دورسرے کی آنکھ کا تنکا بہت جلد نظر آجاتا ہے۔ اپنی عزت کا تو بہت خیال رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمارہ راز راز ہی رہے تو اچھا ہے ۔ ایسا کرنا سرا سر غلط ہے۔
آج ضرورت کسی کو ٹھیک کرنے کی نہیں بلکہ آج ضرورت ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنے آپ کو ٹھیک کریں۔
"If the man is right the world is right"

اپنی آنکھ کا شتہیر نکالیں ۔ اپنی آنکھوں اور دل و دماغ میں شرم و حیاء کی چادر اُوڑھ لیں ۔ اپنے اندر خوفِ خدا پیدا کرلیں۔ غصے کی بجائے نرمی و ہمدردی ، حسد کی بجائے پیارو تحمل اور برداشت سے کام لیں ۔ اپنے بڑوں کا احترام کریں اور چھوٹوں سے شفقت سے پیش آئیں ۔ نیک ، اچھے اور پائدار کام کریں۔ صلاح و مشورے سے چلیں۔ایک دوسرے کا دل سے احترام کریں۔ اپنے آپ کو نہ ہی کسی سے کم تر اور نہ ہی اعلیٰ و برتر سمجھیں ۔اپنی خاص توجہ اُن کاموں کی طرف دیں جن کے لیے خاص طور پر ہمین بھیجا گیا ہے۔ تو تب ہی ہم اچھے شہری بن سکیں گے۔ تب ہی ہمارہ معاشرہ ترقی کی منازل طے کرے گا۔

آخر میں میری اپنے اُن تمام بہن بھائیوں سے گزارش ہے جو اِن اخلاقی برائیوں کا شکار ہیں۔ جو اپنی زندگی کا گھو ڑا غلط راستے پر دوڑا رہے ہیں۔اب بھی اُن کے پاس بڑا قیمتی اور سہانہ وقت ہے کہ وہ اپنی برائی والی زندگی سے کنارہ کشی کر لیں ۔ اور روحِ خدا کو اپنا لیں تو ہر روحانی خوشی اُن کے دامن میں ہوگی۔ کیونکہ اُن کے تمام دکھ ، درد اور غم خدا باپ اپنے اوپر لے لے گااور اُن کو خوشیوں کی چادر میں اُوڑھ لے لگا۔

اگرمیری اِس چھوٹی سی کاوش میں کسی کو کوئی چیز نازیباہ گزرے یا پھر کوئی بات ناگزیر لگے تو وہ اپنے اِرد گرد کے ماحول کو جانچ لے تو اُسے خود ہی دودھ کا دودھ او ر پانی کا پانی نظر آجائے گااور پتا چل جائے گا کہ اصل سچائی کیاہے۔
Irfan Dominic
About the Author: Irfan Dominic Read More Articles by Irfan Dominic: 6 Articles with 6080 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.