یہ بدلتے انداز۔۔ ناگوار جدت !

وہ مناسب لب و لہجہ،سنجیدہ تاثرات،شائستہ انداز ِ بیاں،سادہ لباس اور ایک حد تک میک اپ ،اس پیشے کی خاصیت ہوا کرتا تھا۔چال ڈھال میں ٹھہراؤ کا عنصر نمایاں تھا۔اخلاقی اقدار کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا تھا۔ ذاتی مفاد پر ملکی مفاد کی خبروں کو ترجیح دی جاتی تھی۔ملکی سا لمیت سب سے اہم نقطہ تھی۔خبریں سنانے والوں کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کی متصدقہ خبریں بہت اہمیت کی حامل ہوا کرتی تھیں۔ خواتین نیوز اینکرز مناسب انداز میں دوپٹہ لینے کے ساتھ ساتھ سر پر بھی اوڑھا کرتی تھیں۔ یہ سب خصوصیات اب ماضی کا حصہ بن چکی!

پرائیویٹ نیوز چینلز کی آمد ہوئی اور ہر طرف شور و غوغا مچ گیا۔ ایک کے بعدایک چینل اس دور میں شامل ہوتا گیا اور یہ معقول پیشہ ایک کاروبار بن گیا۔جس کو چمکانے کے لئے دن رات تگ ودو شروع ہو گئی۔ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لئے نئی نئی سازشیں بھی جنم لینے لگیں۔ اور اب حال کچھ یوں ہے کہ کوئی بھی خبر ہاتھ لگنے پر فورا سے بریکنگ نیوز کی صورت میں دھرلے سے اور پورے یقین کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے۔اس ایک سطر کو ٹیلی ویژن سکرینز پر بار بار پٹخا جاتا ہے۔نیوز اینکرز کی چلاتی آواز سے ہوتی ذہنی اذیت الگ برداشت کرنا پڑتی ہے۔ اوپر سے چہرے کے بدلتے تاثرات سے کسی ڈرامہ چلنے کا گماں ہو رہا ہوتا ہے۔خبر کو چٹپٹا بنانے کے لئے لب و لہجہ کا اتار چڑھاؤ کیا خوب کام دے رہا ہوتا ہے ۔اگر دوسرے کمرے میں کسی کے کان میں یہ آواز پڑے تو وہ فورا دوڑتا آتا ہے کہ خیریت کی خبر نہیں لگ رہی مگر صورتحال اس کے برعکس نکلتی ہے ۔

ایک صحافتی اصطلاح ''Exclusive''ایسی خبرجوکسی بھی دوسرے ادارے ،چینل کے پاس نہ ہو،جس کے بارے میں صرف ایک چینل ہی ناظرین کو آگاہ کر رہا ہو،ہر چینل پر بیک وقت ایک جیسی خبرپر دائیں سے بائیں سیر کرتی دکھائی دیتی ہے۔خبر پڑھنے والے الگ بولتے چلے جارہے ہوتے ہیں کہ یہ خبر آپ صرف ہمارے چینل پر ملاحظہ کر رہے ہیں،فلاں فوٹیج ہمارے چینل نے سب سے پہلے حاصل کر لی،ان دستاویزات کی کاپی سب سے پہلے ہم موصول ہونے پر نشر کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔اس اصطلاح کی اب وہ شان نہیں رہی جو ماضی میں اس کے حصہ میں آتی تھی۔

نت نئے پہناوے کیا خوب رنگ بکھیرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ خواتین اینکرز کو خوب تیار کر کے بٹھایا جاتا ہے۔نئے نئے چینلز تونئی نئی روایات بھی جنم لینے لگیں ہیں ۔وہ نفاست بھرا دوپٹہ کلچر بہت پیچھے رہ گیا۔اب توشادی بیاہ کی مناسبت سے میک اپ کیا گیا ہوتا ہے۔جہاں یہ میڈیا خبروں کی دنیا میں ترقی کی منازل طے کر رہا ہے وہاں فیشن کے بھی چار چاند لگ رہے ہیں ۔وہ چیزیں جو اس پیشے کی آن بان تھیں ،ان میں جدت کا تڑکا لگا دیا گیا ہے۔ایک نیا انداز بھی متعارف کروایا گیا ہے جس میں ریمپ پر واک کرنے کے انداز میں نیوز بلیٹنز نشر کئے جاتے ہیں ۔ اس دوران نیوز اینکرز کے انداز بہت ڈرامائی ہوتے ہیں ۔

ایک عام آدمی، سیاستدان ،ٹی وی اداکار،صنعت کار یا کوئی بھی خاص و عام شخصیت کہ جس سے متعلق کوئی اہم خبر مل جائے ،تو بس سارے چینلز اخلاقیات کو بھول کر اس کی عزت کی دھجیاں اڑانے میں جت جاتے ہیں۔اگر کوئی بڑا آدمی ایک لمحے کو ڈگمگا گیا تو ا س کلپ کو صبح سے رات تک کے بلیٹنز میں مختلف قسم کے گانے لگا کر چلایا جاتا ہے۔خبر کو چٹپٹا بنانا تو کوئی ہمارے میڈیا سے سیکھے۔ریٹنگ کی دور نے ان سب چینلز کی آنکھوں پر ایک دوسرے پر فوقیت لے جانے کی پٹی باندھ رکھی ہے۔چاہے کوئی ملزم ہی کیوں نہ ہو ،ان کے شدید الفاظ اس کو مجرم بنا کر پیش کر رہے ہوتے ہیں ۔نیوز ہیڈ لائنز میں سرخیاں تو پھلجریوں کا کام کرتی ہیں۔ایسے ایسے الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوں ۔

جمہوریت میں میڈیا کو پھلنے پھولنے کی کیا خوب چھوٹ ملی ہوتی ہے۔ میڈیا کی طرف سے جس کا فائدہ اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ہر کسی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہیں۔ ماڈل ایان علی کے کیس کو حد سے زیادہ کوریج دی گئی۔ ان کے اسٹائل،چال ڈھال، لباس اور جیل کے اندر کی خبروں کو بلاناغہ فوکس کیا گیا۔ انھوں نے اپنا چہرہ جتنا بھی چھپانے کی کوشش کی ،میڈیا والوں نے ہر ہر رخ سے ریکارڈ کی گئی ان رپورٹس کو دلچسپ طریقوں سے پیش کیا۔اوپر سے اینکرز نے ان کی خبر پڑھتے اپنی آواز کے زاویوں میں جو اونچ نیچ کا تڑکا لگایا ،اس نے کہیں توحاضرین کو متاثر کیا تو کہیں لوگ میڈیا کی ان حرکتوں پر اپنا سر پیٹ کر رہ گئے۔آج کل ایک پرائیویٹ نیوز چینل کی ریٹنگ بڑھانے کے غیر قانونی کام سے متعلق خبریں عام ہیں ۔اس عورت کی ہر ہر بات کو اہمیت دی جارہی ہے۔پروگرام نشر کئے جارہے ہیں ۔نیوز اینکرز بریکنگ نیوز چلا رہے ہیں ۔کبھی اس کے لئے انصاف کو پکار لگائی جاتی ہے تو کبھی اس کی باتوں پر بے یقینی کا اظہار کیا جاتاہے۔معاملے کی تہہ تک پہنچے سے پہلے ہی اینکرز کو خبر بریک کرنے کے لئے آسمان سر پر اٹھانے کے لئے کہہ دیا جاتا ہے۔ میڈیا کی اسی روز بروز بڑھتی غیر سنجیدہ طبیعت نے سامعین و حاضرین کو ایک حد تک پریشان بھی رکھا ہے ۔ سیاستدان الگ شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ملکی اور قومی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لئے کچھ اصول مقرر کئے گئے ہیں ۔کچھ حدود کا تعین کیا گیا ہے۔ تا کہ ملکی بدنامی نہ ہو۔ بین الاقوامی سطح پر ہماری ہنسی نہ اڑائی جائے۔ مگر ہمارے میڈیا نے پوری دنیا کے سامنے ہمارے مسائل کا رونا رو رو کر بیرونی طاقتوں کو پوری طرح آگاہ کیا ہوا ہے۔ جس سے کوئی نہ کوئی غیر ملکی شخصیت ہر دوسرے چوتھے روز ہمارے سر پر آ کر منڈلانے لگتی ہے اور اپنے مطالبے ہماری میز پر پٹخ جاتی ہے ۔

پہلے جب صرف سرکاری چینل ہوا کرتا تھا اس وقت ملک میں اتنی بے چینی نہیں تھی ۔ مہذب لب و لہجے میں بلیٹنز پیش کر کے اور مثبت خبروں کا تعین کر کے ملک میں امن کی صورتحال برقرار رکھی جاتی تھی۔ مگر اب ہر طرف واویلا مچا ہے ۔ بے شک ان میں کئی دوسرے مسائل کا بھی عمل دخل ہے مگر میڈیا بھی اپنا حصہ ڈالنے میں کسی طور پیچھے نہیں۔نیوز چینلز کو اپنی پالیسیوں میں ردو بدل کرنا چاہئے۔نیوز اینکرز کے انداز بیاں میں تبدیلی کے لئے کام کرنا چاہئے۔نیوز بلیٹنز میں پاکستان کا پازیٹیو امیج پیش کر نا چاہئے۔ خبریں پڑھنے والی خواتین کو مناسب دکھنا چاہئے۔ لب و لہجے میں کچھ دھیمہ پن ہونا چاہئے۔ خبر کو تیکھے اور چٹخارے دار انداز میں پڑھنے کی بجائے معقول انداز میں پڑھا جائے کہ جس سے سننے اور دیکھنے والوں میں ناراضی، اشتعال انگیزی، بے چینی اور نفرت کے جذبات پیدا نہ ہوں ۔صرف ریٹنگ حاصل کرنے کے لئے کسی کے کردار پر بے انتہا کیچڑ نہ اچھالا جائے اور نہ کسی کی حق تلفی کی جائے ۔اصولوں میں تھوڑا رد وبدل کر کے معاشرے میں سدھار پیدا کرنے کے لئے سرگرم عمل ہوں نہ کہ نیوز اینکرز کو ایک دو سطریں دے کر شور مچانے کی کھلی چھٹی دے دی جائے۔ گزرے ہوئے کل سے اوران کامیاب تجربات سے کچھ سنجیدہ نکات اٹھائیے،ان پر غور کیجئے ،شائستہ انداز و بیاں اپنا ئیے اور آواز کے تاثرات کے اتار چڑھاؤ کی حد مقرر کیجئے۔شکریہ !
shaistabid
About the Author: shaistabid Read More Articles by shaistabid: 30 Articles with 23051 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.