Self Exploration, a journey to inner self
A journey to become conquered the world
خودشناسی بنائے فاتح زمانہ
آیئے آ ج خود سے ملتے ہیں۔۔۔
صحن میں بیٹھے مجھے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ میری سماعت سے فقرے ٹکرائےـ:
" پاپا جی میں نے آپ سے آپ کی زندگی کے پندرہ (۱۵) منٹ مانگے تھے وہ بھی آپ
نے نہیں دیئے ،ابھی بھی موقع ہے آپ میرے ساتھ آئیں اور مجھے وقت دے
دیں"جوابا باپ کی ـآواز آئی کہ نہیں ہے میرے پاس ٹائم ۔(دراصل یہ آوازیں
ہمسایوں کے گھر سے آرہی تھیں۔ یہاں ادب کے دائرے میں بیٹا اور باپ آپس میں
طعن وتشنع کے تیر چلارہے تھے)
بیٹا:ایک دفعہ پھر سوچ لیں ، نہیں تو میں ایسی بات کروں گا کہ پھر گھر میں
برتن ٹوٹیں گے (بیٹے کی بات میں دھمکی کی بو تھی)
باپ: پہلے کون سے بچیں ہیں جو اب ٹوٹ جائیں گے(باپ نے بھی دھمکی کو پروامیں
لائے بغیر ترت جواب دیا)
بیٹا:ٹھیک ہے پاپا جان آپ اپنی زندگی کے پندرہ (۱۵) منٹ نہیں دے سکتے تو
میں آپ کے لیے مر گیا اور آپ میرئے لیے مرگئے(صرف پندرہ (۱۵) منٹ کی ہی بات
تھی کیوں مرئے جا رہے ہیں میر ئے ذہن کے کسی گوشے میں چلبلاتے سوال نے اپنی
شکل دکھائی)
ؓباپ:ٹھیک ہے، ٹھیک ہے(باپ شاید اپنے بیٹے کی طبیعت کو بخوبی جانتا تھا)
بیٹا: تو پھر ٹھیک ہے آج کے بعد میں آپ سے اور آپ میرے سے بات نہیں کریں
گے۔
ؓباپ:اچھاٹھیک ہے !کوشش کروں گا(یقین جانئے آپ کا تومجھے علم نہیں میر ی
ہنسی نکل گئی) کیونکہ اگر یہی کوشش بروقت ایک دوسرے کو سمجھنے کی کر لی
ہوتی تو باپ و بیٹا ایک دوسرے کو پندرہ۱۵ منٹ کیا بہت سارا بخوشی دے رہے
ہوتے اور اسے ثواب سمجھ رہے ہوتے ۔چلیے مانا کہ وقت نکل گیا اب ہی اپنی سی
کوشش انسان اخلاص کے ساتھ کرلے تو کیا آپس میں نہ بولنے کی قسمیں کھانے اور
مرنے مارنے سے توکم از کم انسان بچ جا سکتا ہے۔
یہ ایک کہانی نہیں ہے۔
یہ میرے ایک ہمسائے کی کہانی نہیں ہے ۔ ایک تحقیق کے مطابق ۷۵ فیصد سے زائد
بیماریاں ذہنی کیفیات اورجذباتی کشمکش سے آتی ہیں۔ پریشانی
،انتشار،یاسیت،توقعات و خواہشات،خوف ،غصہ اور اس طرح معاشرتی وسماجی
ناہمواریوں کی کیفیات رکھنے والے الفاظ کی ڈکشنری آپ کو اپنے اردگر د نظر
دوڑانے پرمل جائے گی ،اس طرز کی ان گنت کہانیوں سے آپ کی مد بھیڑ ہوتی رہی
ہوگی۔دور کیا جانا اپنی ذات میں جھانک کر دیکھیں ہرطر ف اس طرح کی کہانیاں
بکھری پڑیں ہیں،کبھی ہمارئے ہی اندر بیٹھ کر ہمار اہی منہ چڑا رہی ہوتی ہیں
اور کبھی توجہ ومحنت کے بل بوتے ہم انھیں کاشت کرتے ہیں اورکبھی ان کے بغیر
ہی ہمارئے جھولی میں سانپ کی طرح کنڈلی مار کی بیٹھ جاتی ہیں جو ہماری ذات
کوانجانے میں دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے اور ہمیں خبر تک نہیں ہوتی۔ یہ چور
انسانی ذات کے اندر نقب لگائے بیٹھا ہوتا ہے اور ہم اپنے ہی آنگن سے بے خبر
ہو کر کہیں اور اس کو ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ یہ سب کیا ،کیسے ،کب اور کیوں
ہوتاہے اس کا جاننے کے لیے خود شناسی کو جاننا بہت ضروری ہے۔
"خود شناسی "کیا ہے؟
"خود شناسی "اپنے آپ کو جاننے کا وہ عمل ہے جس میں فرد اپنی ذات کے بارئے
میں خود جاننے لگ جاتاہے ۔اس کو اپنے رویہ ،جذبات، سوچوں، خیلات ،تخیلات
،عادات،محسوسات اور خواہشات کے اصل محرکات کے متعلق جانکاری ہونے لگتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اانسان کو گفتگو،ملنے جلنے ، اٹھنے بیٹھنے ، چلنے، کھانے
پینے اور دیگر حرکات کا انداز اسے اپنی شخصیت کے اتار چڑھاو کے بارئے میں
آگاہ کرنے لگ پڑتاہے۔ لیکن اگر فردا پنے آپ سے خود شناس نہ ہو سکے تو اس کو
انھیں وجوہات کی بنا پر اپنی شخصیت میں ادھورا پن محسوس ہوتا ہے۔ عجیب
وغریب خیالات آنے لگ پڑتے ہیں ۔ منفی سوچیں اس کے گرد گھیرا تنگ کرنے لگ
پڑھتی ہیں۔اور وہ اصل سبب کو جانے بنا اضطراب ،پریشانی اور ذہنی کشمکش کا
شکار ہوجاتاہے۔ او ر جو دشمن چور اس کی ذات کے اندر بیٹھا ہوتا ہے وہ اسے
کہیں اور تلاش کر رہا ہوتاہے۔ انسانی شخصیت کی تعمیر میں اپنے آپ کو جاننے
کاعمل بہت ضروری ہے۔ اس کی بنا انسان ادھور ی زندگی تو پوری کرسکتاہے لیکن
شاید بھرپور وتوانا زندگی سے دور اور اصل مقصد حیات اس سے کوسوں دور ڈیرہ
جمائے رکھتے ہیں۔
"خود شناسی "کے بغیر
کیونکہ ہر انسان جب تک "خود آگاہی " کے عمل سے نہیں گزرتا اسے محسوس یہی
ہوتا ہے کہ وہ زندگی میں شاید اس سطح،مقام (Level (سے او پرجاہی نہیں
سکتاتھا وہ سوچتاہے کہ میری قسمت میں اتنا ہی تھا ، وسعت نظر کو نہاں خانہ
دل میں کھلنے سے پہلے ہی یاسیت کی نظر کردیتاہے۔ اور یوں وہ اپنے آگے ایک
دیوار کھٹری کر لیتا ہے حالانکہ یہ اصول توپیارے اﷲ رب العزت کے ہاں ہے ہی
نہیں وہ ذات تو انسان کے کسی عمل وکسب کو اپنے ہاں نہیں رکھتی بلکہ اس کا
بدلہ انسان کے کیے سے کہیں زیادہ ہی دیتی ہے۔ سورہ نجم میں اسی لیے فرمایا
کہ " لیس للا نسان الا ما سعی" (پس انسان کے لیے وہی کچھ جس کو وہ کوشش
کرتاہے)، ایسی دیوار جس کے پرے جھانکنا کا اسے خیال عمر بھر ہی نہیں آتا،
اگر بھولے سے کوئی دریچہ ہی وا ہو جائے تو اس کے گرد دیگر اسباب اس کو لطف
اندوز ہونے سے پہلے ہی دیگر بھول بھلیوں میں گما دیتے ہیں ۔ احساس
جرم،غصہ،مایوسی اور تلخی کئی بیماریوں کی جڑہے ۔آپ کے سوچنے کا انداز خواہ
وہ منفی ہو یا مثبت وہ آپ کے دماغ،دل،نظام دوران خون،نظام تنفس،نظام انہضام
سمیت تمام جسم پر بھرپور اثر انداز ہوتاہے اسی طرح اگر آدھی عمر گزرنے کے
بعد یا عمر کے کسی بھی مقام پر جب وہ اس عمل سے گزر کر نکھرتا ہے تو اس وقت
خاصا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہوتا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی استعداد
کار و صلاحیت کو بڑھا کر گزرے وقت کی تلافی کرسکتاہے۔
"خود شناسی "کے بعد
اصل مزے کی بات تو تب بنتی ہے کہ جب بچپن( ویسے تو اپنے آپ کو جاننے کا امر
جب بھی شروع ہوجائے تو زندگی کے لیے یہ بے بہاں اثاثہ بن جاتاہے ) میں خود
شناس استاد،والدین یا کسی اور مربی ) (Mentor کی نظروں میں آکر یا خود سے
اپنے آپ کو جان جائیں تو اس کے ثمرات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ یونیورسٹی آف کیلی
فورنیا ،لاس اینجلس (امریکا)کی ایک تحقیق کے مطابق ۷سے ۱۰ سال تک کا انسان
ایک صحت مند اور بھرپور دماغ کا حامل ہوتاہے اور اس وقت کے لائف پیٹرن (طرز
زندگی جس میں عقائد،اقدار،اخلاقیات وغیرہ آجاتی ہیں)کے زیر سایہ وہ باقی
اپنی زندگی گزارتا ہے۔ آپ خود ایک لمحے کے لیے سوچیں ۔جب آپ بچپن میں تھے
اور اپنے سنِ شعور میں داخل ہوچکے تھے اس وقت آپ یہ جان جاتے کہ آپ کی یہ
خوبی اول درجے میں ہے (اس میں آپ کما ل کر سکتے ہیں ، آپ کی تعلیم اسی شعبہ
میں ہوتی ، آپ فوکس ہو کر چل رہے ہوتے کسی قسم کے انتشار (Confusion) کی
بجائے اپنے اہداف کو حاصل کرنے کی صلاحیت آپ میں کئی گنا بڑھ جاتی) اس کے
بعد آپ کے پاس خامیوں اور خوبیوں کی فہرست بن جاتی اور اس کے مطابق آپ اپنی
زندگی کو پلان کرتے تو کیا آپ یہیں کھڑئے ہوتے ۔۔۔؟
"میں تو بے کار ہو ں"
ایک لمحے کے لیے ذرا آنکھیں بند کرکے ایک گہری سانس لے کر سوچیں کہ آپ کے
ماضی میں کتنے موقع ایسے آئے کہ جب آپ نے سوچا کے ـ"میری دنیا کو کیا ضرورت
ہے؟" یا ـ"میں تو بے کار ہو ں" خدانخواستہ، یہ کہ میں کبھی کامیاب انسان بن
ہی نہیں پاوں گا،اسی طرح ناجانے کب کب یہ ہو ا کہ شاید میں تودرست فیلڈ آف
لائف میں نہیں ہوں میرا Area of interest تو کچھ اور ہی ہے، وغیرہ ،وغیرہ
اس طرح کے خیالات کے ساتھ جو دوسرا ظلم انسان اپنے اوپر کر بیٹھتا ہے وہ
اکثر یہ سوچ لیتا ہے کہ شاید میرے ساتھ ہی یہ ہوتاہے، دوسروں کے ساتھ تو یہ
نہیں ہوتا اور وہ اپنی طرز زندگی میں خوش ہیں یا یہ کہ شاید یہ میری ہی خام
خیالی ہے اس مقام پر آکر انسان کسی کے ساتھ شئیر بھی نہیں کرتا، اگر کھلے
دل کے ساتھ وہ اپنے کسی مہربان کو بتائے تو وہ اس کے لیے شاید بہترحل دے
سکے(لیکن میری کوتاہ علمی کے باوجود آپ سے عاجزانہ گزارش ہوگی کہ اگر آپ یا
آپ کے کسی اور عزیز کے ساتھ جب یہ معاملہ ہو تو اسے باقاعدہ کسی
مستندConsularیاماہرنفسیات سے ملوایے کیونکہ کئی کیسز میں ـ"نیم حکیم خطرہ
جان " والی ـ بات نظر آئی جوکہ مریض سیمت ساری فیملی کو انتہائی کرب میں
مبتلاکردیتی ہے)
خود ہی روگی بن بیٹھا
یہیں سے وہ اپنے سامنے خود سے نامحسوس دیوار کھڑی کرنا شروع کر دیتا ہے اور
خود ہی نا جا نے کتنوں موقعوں پر اس دیوار پر اپنے ہی ہاتھوں سے اینٹوں کو
سینچ سینچ کر اپنی شخصیت کو خود ہی بند کرتا رہتاہے۔یوں وہ جو اﷲ میاں جی
کو پالینے کی طرف جانے والی منزل کی سیڑھی جس کی ابتدا ہی انسان کی اپنی
شناسائی سے ہوتی ہے اس پر وہ خود ہی روگ بن بیٹھتا ہے۔انسانی شخصیت تہہ در
تہہ مختلف جہتوں کا ملاپ ہے اپنے آپ کو جاننے کا علم دراصل ان جہتوں کو
انتہائی احتیاط سے علیحدہ علیحدہ باریک بیں انداز میں مطالعہ کرنے سے شروع
ہوتاہے۔
تماشا کے شوقین
بنیادی طور پر انسان دو اشیاء کا مجموعہ ہیــــ" جسم اور روح"، یہ اجزا مل
کر ایک مکمل انسانی شخصیت کو بناتے ہیں۔ ہم جسم کے لیے خوراک لیتے ہیں
ہمارئے اردگر بے شمارکردار ایسے ہوتے ہیں جو تن سازی کے لیے خاصی محنت کرتے
ہیں۔ وہ صرف جسم کی طرف ہی توجہ مرکوز کربیٹھتے ہیں ۔ جویہ نہیں کرتے وہ
یہی شوق جانور پال کر پورا کرتے ہیں اسی طرح کچھ لوگ ساری عمر تماشا دیکھنے
میں ہی گزار دیتے ہیں جیسے آپ کھیل ساری عمر نہیں کھلیں گے لیکن شوقین ان
سے بڑھ کر کوئی نہیں ہوتا۔ اسی طرح ٹی وی شوز، مذاکروں وغیرہ کے شوقین خود
تواس کام شریک نہیں ہونا چاہیں گے لیکن تماشا میں خوش رہیں گے۔
سقراط کا جواب
کچھ ایسا ہی ایتھنز میں سقراط کے دور میں (۴۶۹۔۳۹۹ B-C )ہوتا تھا اس وقت فن
تن سازی(پہلوانی) پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی اس کی ایک وجہ ساتھ کی ریاست
سپارٹا سے حملوں کا خدشہ بھی تھا۔سقراط کی طبیعت بچپن سے ہی ان مشغلوں کی
طرف نہیں جاتی تھی۔ ایک دن سقراط نے اپنے دوست کرایٹوسے پوچھا کہ یہ سب
کرکے ہم زیادہ سے زیادہ کیا بن سکتے ہیں اس نے کہا کہ ہرکولیسبنا جاسکتا ہے
تو خود آگاہ سقراط گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ تو دوست نے جھنجوڑ نے پر اس نے
کمال بات کہی "تو کیوں نا اس محنت سے وہ کیا جائے جو اس سے بہت زیادہ بہتر
ہے "۔تن سازی یا جسم کا خیال رکھنا کو ئی بری بات نہیں لیکن صرف اسی پر
اکتفا کر لینا درست نہیں کیونکہ جس طرح ہمیں جسم کے لیے خوراک،ورزش
،تندرستی کے لیے ادویات ،آکسیجن، پانی اور ہوا وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے اسی
طرح روح(قلب) کی بھی کچھ ضروریات ہیں اہل مغرب روح کو دماغ کا ہی ایک حصہ
سمجھتے ہیں ۔ چونکہ روح کو روحانیت میں قلب سے ،نفسیات میں دماغ(انسانی ذہن
کا ڈھانچہ) اور ذہن کو روح کے امور سرانجام دینے کے لیے استعمال کیا جاتاہے
اسی طرح ہماری عا م زندگی میں ہم دل کا لفظ استعمال کرتے ہیں ہم عموما کہتے
ہیں " کام کو دل نہیں کر رہاــ، جیسے جملے اپنی روزمرہ زندگی میں ادا کرتے
رہتے ہیں"اسی طرح ذہن کے لیے بھی کافی غذا کی ضرورت ہوتی ہے مغربی دنیا کے
مشہور معالج ورنوم کوسمین کا مانناہے کہ" دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جو
انسانی جسم پر اس کے ذہن سے زیادہ اثرات مرتب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔"
فلم یاڈرامہ دیکھتے ہوئے کسی سین(منظر) میں جذباتی ہوجانا(ذہن کا مطا لعہ)
انسانی ذہن کو اﷲ رب العزت نے کمال کی چیز بنایا ویسے تو اﷲ میاں جی کی ہر
چیز نرالی ہے لیکن انسانی ذہن کی بے شمار خوبیاں ہیں جو کہ اب تک سائنس
دریافت کر چکی ہے جس میں روز مر ہ ہمارئے مشاہدئے بہت سی چیزیں آتی ہیں
لیکن ہم اسے روزمرہ کا معاملہ سمجھ کرخاموشی سے آگے گزر جاتے ہیں ہمار ا
ذہن ملٹی ٹاسکنگ جیسی سرگرمیاں خودکار نظام کے تحت کررہا ہوتا ہے اس کے لیے
لاکھوں کی تعداد میں نیوران کو استعمال کرتے ہوئے مشکلات کو سلجھا رہا
ہوتاہے۔دماغ ہی جو ہمیں سانس لینے،زندہ رہنے ،دل کو پمپ کرنے جیسے اہم کام
لاشعوری حصے سے کروا رہاہوتاہے اور یہی حصہ آپ کے ۹۵فیصد سوچوں پرحکمرانی
کر رہا ہوتاہے اور صر ف ۵ فیصد دماغ ہماری شعوری حصہ کی سوچوں پر چل رہا
ہوتاہے۔جی ہاں!ہمارے لاشعوری ذہن ہی ہمیں اپنی حفاظت و صحت وغیرہ کے افعال
سرانجام دینے کے لیے تیارکرتاہے اسی طرح دیگر بہت سارے کام میں ذہن کا یہ
حصہ (لاشعور) آپ متوجہ کررہاہوتاہے مثلا،آپ دفتر پختہ ارادہ کرکے جاتے ہیں
کہ آج میں نے یہ کام اس انداز میں کرنا ہے لیکن وہ پہلے والے طریقے سے ہی
کر آتے ہیں یا اس کی ایک اور مثال ہے کہ جب آپ کے ذہن میں آپ کے پسندیدہ
کھانے خوشبو پہنچتی ہے تو آپ فوری آپ کے منہ میں کیاہوتاہے۔۔۔؟کیا آپ اس
بارئے میں منطق ودلائل کو ذہن میں لاتے ہیں۔۔۔نہیں لاتے کیونکہ آپ کا
لاشعوری ذہن کام کر رہاہوتاہے۔اسی طرح آپ فلم دیکھتے ہوئے آپ کسی سین(منظر)
میں رو پڑتے ہیں یا جذباتی ہوجاتے ہیں تو کیا آپ کے علم میں نہیں ہوتا کہ
یہ سارئے منظر فلمائے گئے ہیں اور حققیت سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور اسی
طرح سارئے کردار پیسے لے رہے ہیں ۔
بھولناکوئی بیماری نہیں
جدید تحقیق کے مطابق انسان کو ایک دن میں تقریبا ۷۰۰۰۰۰ (Thoughts (سوچیں
آتی ہیں اور اﷲ رب العزت نے ۸۵۰ مختلف صلاحیتوں(Skills (سے نوازا ہے لیکن
عام انسان صرف ۴۰ سے ۵۰ صلاحیتیں استعما ل کرتا ہے جیسے قوت حافظہ کو ہی لے
لیں نہایت ہی نامساعدہ حالات میں بھی کچھ لوگوں میں بلاکی ذہانت ہوتی ہے ۔
حافظے کی بات آئی ہے تو گزارش کردوں کہ بھولناکوئی بیماری نہیں۔ذہن میں آیا
ہوا حافظہKnowledge Bank میں محفوظ ہوجاتا ہے اور وہ کبھی ضائع نہیں
ہوتا۔مختلف حالات جیسے پریشانی،ذہنی دباہ کی وجہ سے زیادہ تر یاداشت متاثر
ہو تی ہے۔ اسی طرح یاداشت کو بڑھایا بھی جاتا ہے جو کہ درحقیقت اس بات کا
منہ بولتا ثبوت ہے کہ ذہن میں اس کام کے لیے بلا کی صلاحیت موجود ہوتی
ہے۔آپ نے کبھی غور کیا کہ عربوں کا حافطہ کیوں اتنا قوی تھا اس کی کئی
وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن میرے خیال میں جو اہم ہیں وہ ان کا علم انساب (of
Family History The knowledge ( ،رزمیہ اشعارو فصیح الکلام ہونا اور سب سے
بڑھ کر جھوٹ سے گریز کرنا ہے آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں عربوں کے ہاں اس
وقت کئی معاشرتی بیماریاں تھیں لیکن وہ جھوٹ جیسی بیماری سے بچے ہوے تھے۔
جھوٹ کس طرح ہماری صلاحیتوں کو کھاتاہے اس کا ذکر آگے کرو ں گا (انشاء اﷲ)
ایک اندازائے کے مطابق انسانی ذہن اگرروزانہ کی بنیاد پر لاکھوں نیوران بھی
استعمال کرئے تو اسی سال تک اس کے اسی فیصد سے زائد نیوران محفوظ ہوتے ہیں
۔
(جاری ہے) |