پاکستانی ذرائع ابلاغ کا قومی و ملی ثقافت سے انحراف

آج شہرِ اقتدار میں انتخابات کی وجہ سے سرکاری،غیر سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا جس کی بدولت مجھ ایسے تنخواہ دار طبقے کے افراد کو سکون سے گزارنے کے لیے ایک دن میسر آ ہی گیا۔فراغت کے لمحات میسر آنے پر ہم عام طور پر ٹی وی آن کر لیتے ہیں۔ان دنوں چونکہ شام، فرانس، عراق، فلسطین، افغانستان اور کشمیر سمیت مسلم دنیا میں قہر و ستم کے بادل چھائے ہوئے ہیں،اس لیے میں نے اس امید پر ٹی وی آن کر لیا کہ ایسی خبروں سے متعلق عوام کو آگاہ کرنے کے لیے کوئی چینل اپنی نشریات پیش کر رہا ہو گا لیکن مجھے تقریبا آدھا گھنٹہ تمام چینل بار بار ٹیون کرنے کے باوجود مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ایسا کہیں بھی نہیں ہو رہا تھا بلکہ پاکستانی ذرائع ابلاغ کا ایک ایسا بھونڈا اور "بے شرم" روپ ابھر کر سامنے آیا کہ بغیر اس میں کسی عملی کردار کے باوجود میرا سر شرم سے جھک گیا۔

اس کی وجہ یہ نہیں کہ مجھے ذاتی طور پر موسیقی اور رقص و سرور سے نفرت ہے یا میں زرق برق لباس اور بھڑکیلے لباس میں دنیا بھر کی نگاہوں کا مرکز بننے والیدوشیزاءوں کی حرکتوں سے بیزاری کا احساس ہوتا ہے،بالکل بھی نہیں؛عام حالات میں ٹی وی کے سامنے بیٹھے ہوئے میں بھی انہی چیزوں کی تلاش میں چینل بدلتا رہتا ہوں لیکن آج بات "عام حالت" کی نہیں تھی۔میر ا اور میرے جیسے کروڑوں پاکستانیوں کا مزاج عام انسان سا مزاج ہے جو حالات و واقعات میں زندہ رہتے ہیں اور خوابوں و خیالوں اور تخیلات و تصورات کی دنیا میں رہنا پسند ضرور کرتے ہیں لیکن ان کاکثیر وقت حقیقی دنیا میں روزی روٹی اور ظالم و مظلوم کے تماشوں میں کٹ جاتا ہے۔

میں اس امید کے ساتھ ٹی کے سامنے بیٹھا کہ شاید روس اور فرانس کے ایک ساتھ شام پر حملہ آور ہونے کے بارے میں مسلم دنیا کے کسی قائد حکمران کا تبصرہ یا مذمت نظروں سے گزر جائے لیکن ایسا کچھ نہ تھا۔ہاں خبروں میں کراچی میں ہونے والے ایک فیشن شو کی کوریج شامل تھی اور تقریبا آدھ گھنٹہ اس شو میں ماڈلز کو زرق برق،رنگیلے اور چمکیلے مہنگے ترین لباسوں کا مناظر پاکستان کی اس عوام کو دکھا ئے جا رہے تھے جس کی نوے فیصد آبادی کے پاس کھانے کو روٹی،پہننے کو اوسط کپڑے اور رہنے کو چھت بھی بمشکل میسر ہے۔یقینا اس فیشن شو میں دکھائے جانے والے لباس عام انسان کی دسترس میں نہیں ہیں اور نہ ہی ایسے لباس پاکستان کے عام معاشرے کا کوئی غیرت مند مرد اپنی ماں،بہن،بیوی یا بیٹی کے لیے پہننے کی اجازت دے سکتا ہے لیکن مجال ہے اس میڈیا کی جو اس کے بارے میں ایک حرف بھی مذمت کا بولے۔

میرا ایک دوست کہتا ہے کہ ثقافتی دنیا میں ارتقاء رونما ہونے کو آئے تو ایسی یکسر تبدیلیاںمنظر عام پر آتی ہیں اور ان کے ظہور میں کوئی اچنبھا محسوس نہیں ہونا چاہیے۔میں کہتا ہوں کہ ثقافت کبھی تبدیل نہیں ہوتی،ہر قوم اپنی ثقافت میں زندہ رہتی ہے اور اگر کوئی قوم کسی غیر کی ثقافت کو اپنا لے تو وہ قوم،وہ قوم نہیں رہتی بلکہ وہ قوم،دوسری قوم بن جاتی ہے۔اس لیے اگر کوئی دانشور یا تجزیہ نگار ہمیں پاکستانی قوم سمجھے اور ساتھ اس ثقافت کے پیروکاروں کے ریوڑ میں شامل ہونے کا مشورہ دے جو ہماری نہیں ہے،تو مجھے اس کی عقل،سمجھ،فہم و فراست اور دانش وری پر ماتم کرنے کے سوا اور کوئی حل نظر نہیں آتا۔اسی طرح یہ لفظ"منظر عام" مجھے انتہائی چبھتا ہوا محسوس ہوتا ہے کیونکہ منظر عام کا مطلب ٹی وی چینل کی اسکرین نہیں ہوتا بلکہ منظرِ عام کا مطلب ہے غریبوں کی بستی،ناداروں کو کوچہ،مفلسوں کا محلہ،مسکینوں کا بازار اور محنت کشوں کی گلی۔میں غلط نہیں کہہ رہا کیونکہ پاکستان کا منظر عام یہی ہے۔کیا اس منظر عام بلکہ علاقہ ہائے عام کا کوئی غیرت مند شخص اپنی محرمات کو ان لباسوں کے زیب تن کرنے کی اجازت دے گا؟اگر وہ اجازت دے بھی دے تو اس مشرقی تہذیب و تمدن میں پلی ہوئی،اسلامی روایات کی امین کوئی باحیا اور عفت مآب دوشیزہ اسے قبول کر کے عملی شکل دے گی؟اگر دونوں جانب سے ایسا ہو جائے تو کیا وہ پاکستانی ثقافت کے سفیر کہلانے کے مستحق ٹھہریں گے۔بالکل بھی نہیں،وہ تو شاید اس معاشرے میں قابلِ قبول بھی نہیں ہوں گے۔

روشن خیالی ،بردبالی،رواداری اور "جدت پسندی" کی آڑ میں ہمارے قومی سطح پر چلنے والے ذرائع ابلاغ میں بعض اوقات قومی حمیت،غیرت،عزیمت اور تہذیب کا جنازہ نکالنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا جاتا۔بے کار مکالموں پر مبنی فضول ڈرامے،کھوکھلے پلاٹوں پر مبنی ٹیلی فلمیں اور حیا باختگی کی دعوت دیتی ہوئی فیشن انڈسٹری کے فیشن شوز دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ثقافت نہیں بلکہ اطاعت کو بغاوت میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔روزانہ بنیادوں پر خبروں میں "انٹرٹینمنٹ" عنوان سے فلموں،ڈراموں اور تھیٹر میں کام کرنے والی خواتین کے ظاہری عروج اور مہنگے ترن رہن سہن ،ان کے آئٹم سانگز اور فلمی ٹریلر تو باقاعدگی کے ساتھ دکھائے جاتے ہیں لیکن یہ کوئی نہیں دکھاتاکہ چادر اور چار دیواری کی حدود پار کر کے،رات کے اندھیرے میں کتنی لڑکیاں عزت مآب اور سفید پوش خاندانوں کی حرمت پامال کرتے ہوئے گھروں سے بھاگ کر شہروں کا رخ کرتی ہیں اور وہاں بیٹھے ہوئے لٹیروں کے جتھوں کے ہتھے چڑھ کر اپنا سب کچھ تباہ و برباد کر بیٹھتی ہیں۔
ایک شریف انسان یقینا اخلاقیات کے دائرے میں صرف اس لیے نہیں رہتا کہ اس میں عفت و عصمت کے تحفظ کی ضمانت ہے بلکہ غربت و افلاس کا مارا ہوا ایک پاکستانی اس لیے بھی اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو اس دنیا سے دور رکھنا چاہتا ہے کہ وہ اسکے معاشی بوجھ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ماہانہ دس سے پندرہ ہزار روپے کمانے والا وہ شخص جو اپنی بیٹی کو سال میں ایک دفعہ ایک ہزار روپے کا سوٹ خرید کر دیتا ہے،اگر اسی کی وہی بیٹی ٹی وی اسکرین پر ہونے والے فیشن شو میں کسی ماڈل کو پانچ لاکھ روپے کا لہنگا پہنے ہوئے دیکھ کر اس سے مانوس ہو جائے اور اسی مقام پر پہنچنے کے خواب اپنی آنکھوں میں سجا لے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے،یہ مجھے واضح کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہر سلیم العقل پاکستانی اس کا مجھ سے بہتر تجزیہ کر سکتا ہے۔
Syed Adeel Ahmed Gilani
About the Author: Syed Adeel Ahmed Gilani Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.