پاکستان سمیت پوری دنیا میں 3 دسمبر کو معذوروں کا عالمی دن
منایا جاتا ہے ۔ اس دن کو منانے کا مقصد معذور افرادکو یہ احساس دلانا ہے
کہ وہ تنہا نہیں ہیں، اس کے علاوہ معاشرے میں انکے تعمیری کردار کیلئے راہ
ہموار کرنا ہے ۔آج کے دن کچھ این جی اوز یقینا معذور افراد کے حوالے سے
تقریبات منعقد کرتی ہیں،اخبارات میں اسپیشل ایڈیشن شائع کیے جاتے ہیں، ٹی
وی پر پروگرام کیے جاتے ہیں ۔دنیا بھر میں 65 سے 70 کروڑ معذورافراد کے
ساتھ اظہار یکجہتی اوران کے حقوق کو اجاگرکرنا ہے ۔عالمی ادارہ صحت کے
مطابق دنیا کی10%آبادی مختلف قسم کی معذوریوں کی شکار ہے ،جن میں سے 80%کا
تعلق ترقی پزیر ممالک سے ہے ۔
اسلام نے معذور افراد پر کسی طرح کا معاشی بار نہیں رکھا ہے ، کسبِ معاش کی
الجھنوں سے انھیں آزاد رکھا ہے ، وہ تمام قرآنی آیات اور احادیثِ مبارکہ جن
میں کمزوروں، بے سہاروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان پر انفاق کی تلقین کی گئی
ہے ، معذورین بھی ان کے مفہوم میں داخل ہیں۔ علامہ شبلی ’’الفاروق‘‘ میں
لکھتے ہیں (حضرت عمرکے زمانے میں) عام حکم تھا اور اس کی ہمیشہ تعمیل ہوتی
تھی کہ ملک کے جس قدر اپاہج، ازکاررفتہ، مفلوج وغیرہ ہوں، سب کی تنخواہیں
بیت المال سے مقرر کردی جائیں، لاکھوں سے متجاوز آدمی فوجی دفتر میں داخل
تھے، جن کو گھر بیٹھے خوراک ملتی تھی، بلاتخصیص مذہب حکم تھا کہ بیت المال
سے ان کے روزینے مقرر کردیے جائیں ۔
آقا ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ ''جو کسی مجبور کی مدد و اعانت کرے گا اوراس
کیلئے آسانی پیداکرے گا،اس کا پل صراط پرسے گزرناآسان ہوجائے گا'' –اسلام
ہی وہ واحد مذہب ہے ،جو معذورین سمیت پوری انسانیت کا مسیحا ہے، آج شرط ہے،
اس کے نظام کو اپنانے کی اس پر عمل کرنے کی اسے اپنی زندگی میں شامل کرنے
کی، اس میں پورے کے پورے داخل ہونے کی ،دین اسلام تو مکمل ہے، اس کے نفاذ
کی ضرورت ہے ۔
اﷲ تعالی نے فرمایا ہے کہ ’’اندھے پر کوئی رکاوٹ نہیں اور نہ لنگڑے پر کوئی
حرج ہے ور نہ بیمار پر کوئی گناہ ہے ،اور نہ خود تمہارے لیے (کوئی مضائقہ
ہے ) کہ تم اپنے گھروں سے (کھانا) کھا لو یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے یا
اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں
سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں
کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا جن گھروں کی کنجیاں تمہارے
اختیار میں ہیں (یعنی جن میں ان کے مالکوں کی طرف سے تمہیں ہر قسم کے تصرّف
کی اجازت ہے ) یا اپنے دوستوں کے گھروں سے (کھانا کھا لینے میں مضائقہ نہیں)،
تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ تم سب کے سب مل کر کھاؤ یا الگ الگ،
پھر جب تم گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے (گھر والوں) پر سلام کہا کرو (یہ)
اﷲ کی طرف سے بابرکت پاکیزہ دعا ہے ، اس طرح اﷲ اپنی آیتوں کو تمہارے لیے
واضح فرماتا ہے تاکہ تم (احکامِ شریعت اور آدابِ زندگی کو) سمجھ
سکو‘‘(النور، 24: 61)
معذور افراد جو نہایت حساس ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں معذور افراد کو اتنی
توجہ نہیں دی جاتی جتنی دی جانی چاہیے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ذمہ داران یا
حکومت جو عام پاکستانیوں کیلئے کچھ نہیں کر پاتے ہیں، بھلا وہ معذور افراد
کیلئے کیا کریں گے ۔بے روز گاری ،غربت اور مہنگائی کے عفریت نے ملک کی نصف
سے زائد آبادی کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ۔ تو معذوروں کی کون سنے گا ۔
ہمارے ملک میں نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے مواقع نہیں مل رہے، جو صحت مند بھی
ہوں تو معذروں کے لیے کیا مواقع پیدا کیے جائیں گے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق اس وقت پاکستان میں کل آبادی کا سات فیصد
معذور افراد پر مشتمل ہے ،ترقی یافتہ ممالک میں معذوروں کے علاج معالجے کا
بوجھ حکومتوں پر ہوتا ہے، جبکہ ہمارے ملک میں اسکے برعکس ہے ۔
ہمارے ہاں معذروں کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے، معذورافراد جن گھمبیر مسائل
سے دوچارہیں ،ان میں بیروزگاری،علاج کی مفت سہولیات کی عدم فراہمی،سفری
مسائل،بنیادی ضروریات زندگی کے مسائل ،تعلیم کے مسائل وغیرہ ہیں ۔ہم سڑکوں
پر ،گلی محلوں میں ،شہر و گاؤں میں معذروں کو دیکھتے ہیں، جو سسک سسک کر جی
رہے ہوتے ہیں ۔اور بھیک مانگ کر پیٹ کا دوزخ بھر رہے ہوتے ہیں ۔ان کو ہمارے
معاشرے میں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ
’’کسی مسلمان کے لیے اتنی برائی ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو
حقیر سمجھے ۔‘‘(مسلم2524)
آدم کے کسی روپ کی تحقیر نہ کرنا
پھرتا ہے زمانے میں خدا بھیس بدل کر
حکومت کو چاہئے کہ وہ معذروں کے لیے وظائف کااجرا کرے ۔اس سے یہ بھی فائدہ
حاصل ہو گا کہ مصنوعی گداگروں کی باز پرس ممکن ہو سکے گی ۔ہماری حکومت اور
ذمہ داران سے درخواست ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ سرکاری ہی نہیں
غیر سرکاری ہسپتال میں بھی ہر جگہ معذورافراد کا علاج معالجہ مکمل فری
کیاجائے ۔معذورسرکاری ملازمین کیلئے معذوری الاؤنس فراہم کیا جائے ۔ |