کچھ لوگوں کے خاموشی میں ہی عافیت ہوتی ہے
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
کہتے ہیں کہ ایک لڑکی کی شادی ہوگئی شادی کے بعد وہ بہت خاموش خاموش رہتی تھی اس کا شوہر تو خوش تھا لیکن ساس کو بہو کی خاموشی بری لگتی تھی وہ ہر وقت اسے کہتی تھی کہ بہو رانی باتیں کر لیا کرو ‘ دلہن باتیں کرتے ہوئے اچھی لگتی ہیں- تو جواب میں بہو نے ساس کو جواب دیا کہ میری امی نے کہا ہے کہ خاموش رہنے میں تمھارا بھلا ہے اس لئے میں خاموش رہتی ہوں - ساس بہو کی یہ نوک جھوک جاری رہتی تھی آخر کار ایک دن بہوساس کے نزدیک آکر بیٹھ گئی اور باتیں شروع کردی ساس بھی خوش ہوگئی کہ چلو میری بہو نے باتیں شروع کردی ہیں-کچھ دیر کی بات چیت کے بعد بہو نے یکدم اپنی ساس سے سوال کیا کہ اگر میرا شوہر یعنی تمھارا کہیں حادثے میں مر جائے تو کیا تم میری اسی طرح خیال رکھو گی اور کیا مجھے دوسری شادی کی اجازت دو گی- ساس بھی بہو کی اس ہولناک سوال پر سٹپٹا گئی اور یکدم اسے خیال آگیا اور اس نے اپنی بہو کو کہہ دیا کہ بہو رانی تمھاری خاموشی میں ہی بھلائی ہے - تمھاری ماں نے جو تمھیں خاموش رہنے کا کہاہے وہ ٹھیک ہے - تم خاموش ہی رہا کرو- |
|
ایک بہت مشہور مولوی سے ایک شخص ملنے کیلئے
آیا اس نے مولوی کو بتا یا کہ جناب میں نے غصے میں اپنی بیگم کو طلاق کا
لفظ کہہ دیا ہے اب میں کیا کروں-کیونکہ میرا ارادہ طلاق دینے کا نہیں تھا
بس زبان سے بات نکل گئی اور اب بیگم کہتی ہیں کہ طلاق ہوگئی ہیں اس لئے آپ
سے مشورہ کرنے آیا ہوں کہ آیا یہ طلاق ہوگئی ہیں کہ نہیں - مولوی نے سوال
کرنے والے شخص سے سوالات کئے اور پھر جواب دیا کہ ہاں طلاق ہوگئی ہیں اوراب
بیوی سے رابطے کیلئے صرف حلالہ ہوسکتا ہے باقی کوئی طریقہ نہیں- سوال کرنے
والے شخص نے مولوی کے پاؤں دبانا شروع کردئیے اور پھر یہی سوال کیا کہ جناب
میری اپنی بیگم سے بہت محبت ہے اور کیا واقعی طلاق ہوگئی ہیں- مولوی نے کہا
کہ ہاں طلاق ہوگئی ہے- سوال کرنے والے شخص نے تیسری مرتبہ پھر پوچھا کہ
دیکھ لیں کہیں کونے کھدرے میں کوئی صورت تو نکل ہی آئیگی- مولوی نے لات مار
کر اس شخص کو پرے کردیا اور ساتھ میں گالی بھی دی اور کہہ دیا کہ " ابے
طلاقی "طلاق ہوگئی ہیں -اللہ تعالی کے قانون کو تبدیل کرنے والا میں کون
ہوتا ہوں- جو قرآن و سنت میں ہے وہی میں نے بتا دیا- یہ سچا واقعہ ہے اور
اس مولوی نے خود بیان کیا تھا ( اللہ اس کی مغفرت نصیب کرے )- مولوی کے
بقول وہ شخص ان سے ٹکا سا جواب ملنے کے بعد کسی اور مولوی کے پاس گیا اور
ساتھ میں اسے خوش بھی کردیا تو اس نام نہاد مولوی نے طلاق دینے والے شخص کو
کہہ دیا کہ " بس خاموش رہو اور کسی کو طلاق کے بارے میں مت بتاؤ تو تمھاری
طلاق نہیں ہوئی"-
کہتے ہیں کہ ایک لڑکی کی شادی ہوگئی شادی کے بعد وہ بہت خاموش خاموش رہتی
تھی اس کا شوہر تو خوش تھا لیکن ساس کو بہو کی خاموشی بری لگتی تھی وہ ہر
وقت اسے کہتی تھی کہ بہو رانی باتیں کر لیا کرو ‘ دلہن باتیں کرتے ہوئے
اچھی لگتی ہیں- تو جواب میں بہو نے ساس کو جواب دیا کہ میری امی نے کہا ہے
کہ خاموش رہنے میں تمھارا بھلا ہے اس لئے میں خاموش رہتی ہوں - ساس بہو کی
یہ نوک جھوک جاری رہتی تھی آخر کار ایک دن بہوساس کے نزدیک آکر بیٹھ گئی
اور باتیں شروع کردی ساس بھی خوش ہوگئی کہ چلو میری بہو نے باتیں شروع کردی
ہیں-کچھ دیر کی بات چیت کے بعد بہو نے یکدم اپنی ساس سے سوال کیا کہ اگر
میرا شوہر یعنی تمھارا بیٹا کہیں حادثے میں مر جائے تو کیا تم میری اسی طرح
خیال رکھو گی اور کیا مجھے دوسری شادی کی اجازت دو گی- ساس بھی بہو کی اس
ہولناک سوال پر سٹپٹا گئی اور یکدم اسے خیال آگیا اور اس نے اپنی بہو کو
کہہ دیا کہ بہو رانی تمھاری خاموشی میں ہی بھلائی ہے - تمھاری ماں نے جو
تمھیں خاموش رہنے کا کہاہے وہ ٹھیک ہے - تم خاموش ہی رہا کرو-
اس وقت سود سے متعلق بیان پر یہی صورتحال اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے صدر
مملکت کی بھی ہے- جنہوں نے گذشتہ دنوں ایک تقریب میں شریک ہو کر علماء سے
گزارش کی ہے کہ برائے مہربانی سود پر کوئی گنجائش نکال دیں-لوگوں کے خون
پسینے کی کمائی پرصدر بننے کے بعد پورے خاندان کو حج کرنے والوں کو اندازہ
ہی نہیں کہ کہاں اس کی اوقات ختم ہوتی ہیں اور کہاں اللہ تعالی کی حدود
شروع ہو جاتی ہیں- ایک محاورہ سنتے آتے ہیں کہ مردہ بولے تو کفن پھاڑ کر
بولے - یہ تو سنا تھا لیکن اس کی سمجھ نہیں تھی-حقیقت میں اس جملے کی سمجھ
اپنے کراچی کے رہائشی ممنون حسین کے اس بیان کے بعد ہی ذہن میں آگئی کہ
واقعی" مردہ جب بولے تو کفن پھاڑ کر بولتا ہے"- کچھ لوگ اگر نہ بولیں تو
اچھا ہی ہوتا ہے - یہ ان لوگوں کیلئے ایک نصیحت ہے جو کہتے تھے کہ " شریف "
نے واقعی بہت " شریف" شخص صدارت کیلئے چن لیا ہے بالکل کچھ بولتا ہی نہیں -
بعض لوگوں نے ان کو گونگا قرار دیا تھا لیکن اب انہیں یقین آہی گیا ہوگا کہ
کچھ لوگوں کے خاموش رہنے میں نہ صرف ان کی بلکہ پوری قوم کا بھلا ئی ہے-
اسلامی جمہوریہ پاکستان اور آئین پاکستان کے نام پر دکانداری کرنے والے
سیاستدان ‘ قانون دان اور مذہبی جماعتوں کے سربراہ بھی مردے کے کفن پھاڑ
بیان پر ابھی تک خاموش ہیں-کیا آئین پاکستان اس حوالے سے خاموش ہیں- اسلام
کے منافی باتیں کرنے والوں کویہاں بھی استثنی حاصل ہے- اگر اعلی عہدے پر
بیٹھا کوئی شخص عوام کی خون پسینے کی کمائی کھائے ‘ کرپشن کرے اور اسے
قانونی طور پر تحفظ حاصل ہے کہ یہ کمی کمینوں کا پیسہ ہے اور ان کا کوئی
پرسان حال نہیں انہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے جانے جانیوالے ملک
میں تحفظ حاصل ہے لیکن کیا انہیں اللہ تعالی کے ہاں بھی استثنی حاصل ہوگا
ٹھیک ہے کہ صدر مملکت کو آئین نے تحفظ دیا ہے کہ اس کے خلاف کوئی قانونی
کارروائی نہیں ہوسکے گی اور آرٹیکل 248 کے تحت ممکن ہی ہے لیکن اسی آئین
میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ صدر مسلمان ہوگا اور اس ملک میں اسلامی نظام کے
فروغ کیلئے انفرادی و اجتماعی طور پر کوششیں بھی کی جائینگی -
کیا صدر مملکت کے عہدے کیلئے منتخب کرنے سے پہلے ممنون حسین کی تحقیقات کی
گئی تھی کہ آیا یہ مسلمان ہے کہ نہیں اور اگر ہے بھی تو یہ کیسا مسلمان ہے
جواللہ تعالی کے سود کے حوالے سے کھلے احکامات کے بعد بھی عالموں سے مدد کا
طالب ہے- اور کون ایسا عالم ہوگا جو دنیا کی چند روزہ زندگی کی خاطر اپنی
مستقل زندگی کو برباد کریگا- شائد کوئی پاگل ہی ہو-ٹھیک ہے کہ کرسی کا اپنا
ہی نشہ ہوتا ہے لیکن کیا یہ کرسی اور چند دن کی زندگی مستقل ہے یہ وہ سوال
ہے جو کرسی اقتدار ‘ پیسے و ‘ طاقت کے نشے میں ہر اس شخص کو جو اس عہدے ‘
طاقت کا منبع ہوتا ہے اسے اپنے آپ سے کرنے کی ضرورت ہے - کیونکہ بڑی بڑی
شخصیات جن کے آگے دنیا سر جھکاتی تھی جب مٹی تلے دب گئے تو پھر اللہ تعالی
نے ان کے خاندان اور حواریوں کو بھی دکھلا دیا کہ خاک سے پیدا ہونیوالا خاک
ہو کر اپنی اوقات میں آجاتا ہے-
گئے دنوں کی بات ہے کہ خیبر پختونخواہ کے ایک بہت بڑی سیاسی پارٹی سے تعلق
رکھنے والی دبنگ شخصیت جو اس وقت حکومتی عہدے پر تعینات تھے نے ایک تقریب
میں خطاب کے دوران کہہ دیا کہ " اللہ اکبر کا دور" گزر گیا اب سائنس و
ٹیکنالوجی کا دور ہے- ( اللہ دبنگ شخصیت کی مغفرت کرے( کیونکہ وہ ایک حادثے
کے بعد اب منوں مٹی تلے دب چکا ہے- دبنگ شخصیت کا جنازہ جب ہورہا تھا تو تب
بھی "اللہ و اکبر" کی آوازیں آرہی تھی-اور اللہ اکبر کو ماضی کا کہنے والے
خود ماضی بن گیا- لیکن اللہ اکبر کی آوازیں آج بھی آرہی ہیں اور اس دنیا کے
اختتام تک آتی رہینگی-یہی ہے انسان کی حقیقت ‘ - اس وقت حضرت علی رضی اللہ
تعالی عنہ کا ایک قول ذہن میں آرہا ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ پیسہ
‘ طاقت اور اقتدار ملنے کے بعد انسان کا اصلی چہرہ سامنے آجاتا ہے - |
|