کرپشن ایک ایسا آشنا لفظ بن چکا ہے جسے
کرنے والے کو خود ادارک نہیں ہوتا گناہ کسی طرح کا ہو اس کا عادی ہمیشہ اسے
معمولی سمجھتا ہے جس نے مرغے پال رکھے ہوں اسے کبھی بھی ان کی بد بو و تعفن
محسوس نہیں ہوتی آپ اگر مرغوں کی دوکان پہ چلے جائیں آپ زیادہ دیر وہاں
کھڑئے نہیں رہ سکتے آپ اس بد بو کے عادی نہیں جب کے دوکاندار کو وہ بد بو
محسوس نہیں ہو گی چونکہ وہ اس کا عادی ہو چکا ہے جھوٹ جب تک بولا نہ جائے
تب تک انسان ڈرتا رہتا ہے جب ایک بار جھوٹ بول لیا جائے تب ڈر ختم ہو جاتی
ہے انسان جھوٹ کا اس قدر عادی ہو جاتا ہے اپنی ہر بات میں جھوٹ بول لیتا ہے
لیکن اتنے بڑئے گناہ کو غیر معمولی بات سمجھتا ہے چونکہ وہ اس کا عادی ہو
چکا ہوتا ہے کرپشن ایسا لفظ ہے جو ہمارئے ملک و معاشرئے میں عام ہے ایک
روایتی لفظ بن چکا ہے کرپشن کے عادی کو شخص کو دوسرئے کی کرپشن نظر آتی ہے
مگر خود کبھی بھی اس جرم کے ارتکات کا محاسبہ نہیں کرتا زہن کی نازک
دیواروں میں شور مچاتی ،بین کرتی ،سر پٹخ پٹخ کر کچھ باتیں کہہ رہی تھی بول
لب آزاد ہیں تیرئے دل کو یہی دلاسہ دیا جاتا رہا اس بیماری کی تشخیص کے لیے
سر گرداں ہیں جب جھوٹی طفل تسلیوں نے عقل سے بغاوت کی تو کرپشن پہ کچھ
لکھنے کی جسارت کی ۔قارئین کرام ہم اہل قلم نے معاشرئے کے اندر میں پیدا
ہونے والی برائیوں کو روکنے کی بھر پور سعی کی یہ اتنی پھل پھول چکی ہیں ان
کو قلم سے روکنا ایک نا آشنا بات بن کر رہ چکی ہے کون سا ایسا محکمہ ہے جس
میں کرپشن نہیں ہر محکمہ ہر جگہ کرپشن ہی کرپشن ہے ہم بذات خود بھی اس لت
کے دلدادہ ہو چکے ہیں اگر اس وقت میں یہ لکھوں فلاں شخص و شخصیت نے فلاں
کرپشن کی ہے بعد از اشاعت اس کا رد عمل اس طرح سامنے آتا ہے دوسرئے دن
درجنوں بھر شہری کرپٹ مافیا کی پشت پناہی کے لیے کمر بستہ سر باکفن صحافتی
اداروں کے طواف کرتے نظر آتے ہیں اور پبلشرز کے خلاف غلیظ الفاظ کا آزادانہ
استعمال کیا جاتا ہے اور اداروں کو اس طرح کی سٹیٹ منٹ دی جاتی ہے شائع شدہ
خبر خلاف حقائق و زاتی عناد پہ مشتمل ہے ایک با کردار آفیسر یا معزز شہری
کی پگڑی اچھالی جا رہی ہے موصوف ایک با عزت شہری کو بلیک میل کر رہا ہے جب
اہل قلم یہ الفاظ لکھ رہے ہوتے ہیں ان کو کبھی بھی اس بات کا احساس نہیں
ہوتا ایک جرائم پیشہ فرد کے خلاف شائع ہونے والی خبر کو وہ لوگ جو معاشرئے
کے اندر اپنے آپ کو عزت مند کہلواتے ہیں وہ ایک مجرم کی پشت پناہی کر رہے
ہیں کیا ایسے لوگ اﷲ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں ڈرتے؟جو جرم کو حق اور حق کو
باطل قرار دئے دئے کر اﷲ تعالیٰ کے عذاب کو سر عام دعوت دئے رہے ہیں اگر ان
سے یہ بات پوچھی جائے بھائی کم از کم آپ تو اس جرم کا حصہ نہ بنتے آپ نے
کیوں تردید بھیج دی ؟یہ جواب ملتا ہے ان کی زاتی سٹیٹمنٹ تھی سو شائع کر دی
لیکن جب سٹیٹمنٹ دینے والے جرائم کی پشت پناہی کرنے والے جہاں سے اپنے بیان
میں جرم کو نیکی کہہ رہے ہوتے ہیں وہاں یہ کہنے سے قبل چند کھوٹے سکے بھی
ہاتھ میں پکڑئے ہوتے ہیں اس دوران جہاں ہم اہل قلم ان کی باتیں انتہائی
توجہ سے سن رہے ہوتے ہیں حقیقت میں ہماری تمام تر توجہ ان کی باتوں کی طرف
بہت کم اور مٹھی میں موجود سکوں پہ زیادہ ہوتی ہے یوں پہلا کرپٹ و بد دیانت
شخص وہ ہے جس کے خلاف کچھ شائع کیا گیا اس کے ہمارئے وہ معزز شہری ہیں جو
کرپٹ بد دیانت شخص کے سر پہ دست شفقت رکھتے ہیں اور تیسرئے درجے میں ہم خود
بھی برابر کے شریک ہیں جو اپنی غربت کے پیش نظر چند کھوٹے سکوں کے عوض اپنے
ایمان کو بھی فروخت کر دیا یوں کرپشن کا درخت اتنا تنآور ہو چکا ہے اور اس
کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں ان کی شاخیں ایوانوں و زمہ داروں کے آنگن میں عارضی
ثمر دئے رہی ہیں ایسے درخت کو کاٹنے کی سعی نا ممکن سی بات ہے ہم اہل قلم
بلا تنخواہ ہر محکمہ کے اندر موجود خرابی کی نشاندہی کرتے ہیں وہاں کس قدر
ہماری حوصلہ افزائی ہوتی ہے یہ دیکھ کر شرم سے روز روز مرنا پڑتا ہے لکھنے
کو ہم لکھ دیتے ہیں بتا دیتے ہیں وہ سامنے ہے کرپشن اس پہ مضبوط گرفت ڈالو
لیکن ڈالنے والا اس صحافتی تسلسل کے 15سالوں میں کوئی نظر نہیں آیا کرپشن
کی گرد غباراس قدر ہمیں اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے ہم اپنا جائز کام بھی
رشوت کے بغیر نہیں کروا سکتے یہی وہ پہلی اکائی ہے جس سے کرپشن کے درخت کو
آئے روز پانی مل رہا ہے اور مضبوط سے مضبوط تر ہو تا چلا جا رہا ہے ہم بھی
اکثر اوقات اس کو تقویت دئے بیٹھتے ہیں کون سی آسمانی مخلوق آئے گی جو
کرپشن کو دور کرئے گی صرف اہل قلم نہیں کر سکتے اہل قلم صرف نشاندہی کر
سکتے ہیں اور حکومت کے اندر موجود متعلقہ ایم ایل ائے یا زمہ دار عہدئے پہ
بیٹھے شخص کی زمہ داری ہے وہ واقع کا فوری نوٹس لیں اور غیر جانبدارانہ
چھان بین کی جائے اہل شہریان بھی عہد کریں سچی بات کی حمایت کی جائے اور
جرم کو روکنے کے لیے سچ لکھنے والوں کا ساتھ دیا جائے نہ انہیں تردید کے
لیے مجبور کیا جائے ہم نے اپنا آپ درست کرنا ہے جب ہم اپنے آپ کو درست کر
لیں گئے تو یقینا نوئے میں ایک شخص کم ہو کر سچوں کے ساتھ ہو گیا اکثر و
اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے ایک دیانت دار انسان ہمارئے پاس آتا ہم اسے
بطور تحفہ تحائف کی شکل میں عادی بنا کر رشوت خور بنا دیتے ہیں خدا راہ
دوران جائز کام نزر نیاز سے اجتناب کیا جائے جو جائز کام رشوت کے بغیر نہیں
ہوتا اس کو چھوڑ دیں اسی میں بہتری ہے دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی
پوشیدہ ہے اﷲ تعالیٰ کی مصلحت جان کر صبر سے کام لیں جبرا مت کسی ڈیپارٹمنٹ
،فرد ،افراد کو کرپٹ بنائیں ۔جنگلات آپ کے ہیں یہ آپ کی آئندہ نسلوں کے
اثاثہ جات ہیں ان پہ آپ کے حقوق محفوظ ہیں جب کو بشکل بالن ضرورت پڑئے
قانون کے دائرہ میں رہ کر متعلقہ آفیسر سے منظوری لیں اور کوشش کریں جنگل
سے ناکارہ لکڑی حاصل کریں اور تعمیراتی لکڑی کے لیے تحت ضابطہ منظوری لے کر
حسب ضرورت لکڑی حاصل کریں یہ آپ کا حق ہے اس کے علاوہ محکمہ کے کسی فرد و
افراد کو نقدی و تحفوں کا عادی نہ بنائیں پولیس سٹیشن پہ یقینا آپ کی
درخواست بغیر فیس کے کوئی نہیں پکڑتا ایسی صورت میں آپ ضلعی ایس پی صاحب سے
رابطہ کریں اگر خدا نخواستہ کام نہیں بنتا تو آپ ایک بار ہم سے بھی ضرور
رابطہ کریں اور ہر دو فریقین کے درمیان صلح کی صورت میں درخواست ختم کرنے
کی کوئی فیس نہیں ہے یہ فیسز ہماری اور پولیس کی غیر قانونی تعین کردہ ہے
دیکھنے میں آیا ہے ہر سائل سے درخواست وصول کرتے اور ختم کرتے وقت فیس لی
جاتی ہے قانونا کوئی فیس نہیں اگر کوئی ملازم اس کا مرتکب ہے آپ حکام کو
ضرور اگاہ کریں انصاف نہ ملنے کی صورت میں ہم سے ضرور رابطہ کریں اور رشوت
کلچر کے خاتمہ کے لیے ہمارا ساتھ دیں اہل قلم کا ساتھ حق کا ساتھ۔جن دو
محکمہ جات کا نام لیا گیا ہے اس کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے اس سے مقصود
ہر محکمہ ہے ،اﷲ فرماتا ہے ائے ایمان والو اﷲ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو
جاو۔ جب آپ اہل قلم کا ساتھ نہیں دیتے اور کرپٹ لوگوں کی صفوں میں نظر آتے
ہیں دل خون کے آنسو روتا ہے حالانکہ آپ کو ہمارئے ساتھ ہونا چاہیے ۔ |