دیکھو مجھے جو دیدہء عبرت نگاہ ہو

پیرس میں ہوئے بم دھماکوں کی گونج اب تک عالمی سطح پر سنائی دے رہی ہے۔ساتھ ہی ردعمل اور افسوس کا اظہار بھی جاری ہے۔افسوس تو ہونا بھی چاہیے ان بد نصیبوں پر جو تھیٹر کے پرسکون ماحول میں " بے حیائی " کے مناظر سے لطف اندوز ہورہے تھے،جو موسیقی کی دھنوں میںمست اپنی لذتوں سے بھری دنیا کا مزہ لینے میں مگن تھے ، واقعی ہماری ہمدردی اور رحم کے قابل ہیں یہ تمام ہلاک شدگان اور زخمی افراد جو اپنی رنگین دنیا میں مصروف ہونے کی وجہ سے اپنے پیدا کرنے والے کو بھی بھول بیٹھے تھے۔جو اپنے ہی جیسوں کی سازش کا شکار ہوگئے اور اپنے ساتھ گناہوں اور سرکشی کا اعمال نامہ لے کر ہمارے ہاتھوں میں اپنی بے گناہی کا پلے کارڈ تھما کر چل دیے۔

اس واقعے کے پس پشت کس کا ہاتھ ہے ؟کون قصوروار ہے اور کون بے قصور، کون سازشی ہے اور کون نہیں ؟ان باتوں پر بحث کرنا ہماری ذمہ داری نہیں ۔ہماری ذ مہ داری تو صرف اور صرف اس واقعے سے عبرت اور غیرت حاصل کرنا ہے۔رہی بات انسانی ہمدردی کی تو منکرین خدا سے ہمدردی کیسی؟گستاخان رسول کی آہوں پر کراہیں کس لیے ،نبی اکرمﷺکی بیٹیوں کو باپردہ ہونے سے روکنے والوں کے ساتھ خلوص کس بات کا ؟داڑھی جیسی سنت نبوی اختیار کر نے والے مسلمانوں کو سر راہ ذلیل کرنے والوں کی ذلالت پر ہم کیوں آنسو بہائیں؟ہمیں خود یہ بتایا جارہا ہے کہ ان واقعات کو عمل میں لانے کےلیے یورپی طاقتیں معاشی اورسیاسی طور پر ذمہ دار ہیں۔پھر ہم اپنے رب کا یہ فرمان کیوں نہ یاد کرلیں وتعز من تشاءوتذل منتشاء"اللہ جسے چاہتا ہے عزت سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت سے نوازتا ہے۔"

" ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے"اس فرمان کو ہم نے اچھی طرح ذہن نشین کرلیا ہے لیکن اگر ہم اس میں لفظ "بے گناہ"کا بھی اضافہ کرلیں تو یقیناہم اسے اور اچھی طرح سمجھ جائیں گے۔اور تب ہم یہ بھی سمجھ سکیں گے کہ" بدر و اُحد" میں مسلمانوں نے جب اپنے ہی کافر و مشرک باپ ،بیٹوں اور دوسرے رشتہ داروں کا قتل کیا تھا تو اسے پوری انسانیت کا قتل نہیں کہا گیا۔کیونکہ یہ کوئی ذاتی دشمنی کی وجہ سے نہیں کیا گیا تھا بلکہ صرف اور صرف اپنےرب العزت کی خوشنودی و رضا اور اس کے ساتھ سرکشی کرنے والوں کے لیے سزا کے طور پر کیا گیا تھا۔آج ہمیں پوری دنیا میں جن خطابات سے نوازا جارہا ہےاسکے لیے ہم اتنے چراغ پا کیوں ہورہے ہیں ؟ہم کس بات سے خوفزدہ ہیں ؟ہمارے انبیا اور پیغمبروں کو بھی تو ان کی قوم نے بدنام کرنے کے لیےبرے القاب استعمال کیے تھے ،مجنون ،پاگل ،ساحر وجادوگر تک کہہ ڈالا تھا لیکن وہ ہماری طرح دین حق کو لوگوں تک پہنچانے میں پیچھے نہیں ہٹے بلکہ اور زیادہ کھل کر اپنی تعلیمات لوگوں کے سامنے پیش کیں تو کیا ہم انبیا کے وارثین اپنےخدا اور رسول کے احکامات اور سنتوں پر عمل کرنے اور ان کو عام کرنے سے محض اس لیے رک رہے ہیں کہ کہیں لوگ ہمارا نام دہشت گرد کے طور پر نہ لینے لگ جائیں۔ہم کس جرم کے لیے اپنی صفائی پیش کررہے ہیں کیا ہمیں اپنے ہم وطنوں کے ذریعے ملک بدر کیے جانے کا خوف ہے یا اپنے نفس کی کمزوری ہماری پریشانی بن گئی ہے؟ڈر تو ہمیں تب لگنا چاہیے جب ہمیں منافقوں، سرکشوں اور نافرمانوں کی قطار میں کھڑے ہونے کا خطرہ محسوس ہو اگر ہم واقعی قرآن و سنت پر لفظ بہ لفظ عمل کرنے والے مومن ہیں تو ہمیں سوائے اپنے خالق کےنہ کسی سے ڈرنا ہے نہ کسی کے بےکا ر مشوروںپر عمل کرنا ہے۔

آج ہمارے نوجوانوں کو بگڑنے سے روکنے کی صلاح دی جارہی ہے،سمجھ میں نہیں آتا یہ بگڑنا کس کو کہہ رہے ہیں۔ہمارے نوجوان جب سوشل میڈیا پر دن رات فحش اور بےہودگی کا نظارہ کرتے ہیں ،آج کی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے برائیوں کی جانب راغب ہوتے چلے جارہے ہیں اس وقت ہمارا کوئی ہمدرد ہم سے یہ کہنے نہیں آتا کہ دیکھو تمہارے نوجوان کس راستے پر چل نکلے ہیں لیکن جب یہی نوجوان قرآن کریم کی ایک آیت ہی ایکدوسرے تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمارے ان کرم فرماؤں کے ہی نہیں خود ہمارے بھی کان کھڑے ہوجاتے ہیں کہ کہیں یہ راہ سے بھٹک تو نہیں رہا؟کہیں ملک مخالف سرگرمی میں تو شامل نہیں؟ارے ہم کیوں راہ سے بھٹکیں ۔ہم تو اچھی طرح جانتے ہیں ہم ایک "سیکولر"ملک میں رہتے ہیں اور جس ملک کو ملک بنانے میں ہمارے بزرگوں نے اپنی قیمتی جان گنوادی اس کو ہم اپنے ہاتھوں مصیبت میں ڈالیں یہ تو نا ممکن ہے۔

آج ہم مسلمانوں کے خون سے پوری دنیا سرخ ہے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کے قتل کے بعد بھی قاتل بڑی بے شرمی سے کہہ رہا ہے "غلطی ہوگئی" گویا مظلوموں کے خون کی قیمت "sorry "جیسے معمولی لفظ میں تولی گئی۔ایسے ہزاروں الفاظ بھی ہمارے اس خون کا بدلہ نہیں چکا سکتے جو عراق وشام و فلسطین اور افغانستان میں ان ظالموں نے بہایا ہے ۔ہماری خواتین اور بچیوں کی عزت و عصمت پر حملہ کرنے والوں نے یہ ثابت کر دیا کہ ان کے پاس عورت جیسی مقدس ہستی کا کوئی مقام نہیں ہمارے بچوں کو بموں کے ذریعے ختم کرنے والے یہ جلاد اپنے لیے جہنم میں گڑھے کھود رہے ہیں ہمارے نوجوانوںکی اسلام پسندی سے خوفزدہ ہو کر یہ لوگ خون پر خون بہاتے چلے جارہے ہیں ۔آج اگر ہم اپنے ہاتھ میں پتھر بھی اپنی مدافعت کے لیے لیتے ہیں تو الزامات لعن طعن اور مشوروں اور نصیحتوں کی بوچھار کردی جاتی ہے۔کیا ہم انسان نہیں؟کیا صرف سفیدفام انگریزوں کے جسموں میں ہی خون ہے کیا ہمارے بچے رحم کے قابل نہیں کیا ہماری باحجاب خواتین کے حجاب سے انھیں صرف اس لیے پریشانی ہے کہ کہیں اس کے فائدوں کو دیکھ کر اُن کی عورتیں بھی اس کا استعمال نہ کرنے لگ جائیں اور پھر وہ اپنے ذاتی مقاصد کے لیے انھیں سرراہ نیلام نہ کر سکیں؟بحر حال ،باتیں تو بہت ہوتی رہیں گی جلسے جلوس اور پروگرامس منعقد کرکے ہم اپنی صفائی بھی پیش کرتے رہیں گے مگر ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا ھوگا کہ کہیں ہمیں اپنی کسی غلطی سے بعد میں پشیمان نہ ہونا پڑے ۔معاشرے میں اصلاح کی خاطر کہیں ہماری اپنی صفوں میں ہی انتشار نہ پیدا ہوجائے۔اپنی خود ساختہ جماعتوں کو ہم نے زمانے میں پنپنے کا ذریعہ سمجھ لیا ہے لیکن ان کے قیام کے متعلق کوئی دلیل ہمیں قرآن و سنت سے نہیں ملتی۔کیا ہمارے درمیان موجود یہ انتشار معاشرے میں اصلاح پیدا کر سکتا ہے؟
Qudsiya Sabahat
About the Author: Qudsiya Sabahat Read More Articles by Qudsiya Sabahat: 6 Articles with 4564 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.