ہمارے یہاں دن منانا کسی رسم ورواج
کو نبھانے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ سو معذور افراد کا عالمی دن بھی
ہمارے یہاں منایا گیا۔ کچھ تقریبات ہوئیں، تقریریں ہوئیں، وعدے اور دعوے
ہوئے، اور بات ختم۔ مگر بات ختم نہیں ہونی چاہیے۔ ذہنی اور جسمانی معذوری
کا شکار افراد کو ہمارے رحم، ترس اور ان سے منسوب دن منانے سے زیادہ ہمارے
ساتھ کی ضرورت ہے۔
ان افراد کی زندگی آسان بنانے انھیں اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے
سہولیات کی فراہمی حکومت کی ذمے داری ہے، لیکن ہم سب معذور یا اسپیشل افراد
کے حق کے لیے آواز اٹھا کر ان کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ پاکستان کے جسمانی اور
ذہنی معذوری کا شکار شہری کن مسائل اور مشکلات سے دوچار ہیں؟ اس پر بات
کرنے سے پہلے اس حوالے سے کچھ حقائق کا ذکر ہوجائے۔
معذور افراد کو اقوام متحدہ کی ہدایت پر خصوصی افراد بھی کہا جاتا ہے۔
معذور یا خصوصی افراد ایسے افراد کو کہتے ہیں جو کسی ایسے جسمانی یا دماغی
عارضے میں مبتلا ہوں جو انسان کے روزانہ کے معمولاتِ زندگی سرانجام دینے کی
اہلیت و صلاحیت پر گہرے اور طویل اثرات مرتب کرتا ہو۔ دوسرے لفظوں میں وہ
عارضہ اس فرد کے کام کرنے کی اہلیت یا صلاحیت کو ختم یا کم کردے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت ایک کروڑ کے لگ بھگ افراد معذوری سے
دوچار ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق
پاکستان کی کُل آبادی کا سات فی صد معذور افراد پر مشتمل ہے۔ یہ تعداد
نیوزی لینڈ، سوئٹزرلینڈ، سوئیڈن، آسٹریا اور کویت کی کل آبادی سے زیادہ ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی ٹیکنیکل مشیر ڈاکٹر مریم ملک کے مطابق تحریری صورت میں
پاکستان میں معذوروں کے اعدادوشمار موجود نہیں، نہ ہی معذور افراد کے لیے
پاکستان کے سرکاری ادارے پاکستان ڈس ایبل فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ پر ملک کی
معذور آبادی کی تعداد موجود ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم معذور
افراد کے مسائل کے معاملے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت، عالمی
بینک اور اقوام متحدہ کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ غربت بڑھنے، صحت اور تعلیم سے
محرومی، غیرمحفوظ کام کرنے، آلودگی اور پینے کا صاف پانی نہ ملنے سمیت حاجت
کی محفوظ سہولتوں کے فقدان سے دنیا بھر میں ذہنی و جسمانی طور پر معذور
ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے معذور
اور خصوصی افراد کے حقوق کے لیے بنائے گئے قوانین کی قرارداد پر پاکستان
سمیت دنیا کے 182 ممالک نے دستخط کیے تھے، جن میں سے رواں سال تک 153 ممالک
نے ملکی قوانین میں ترامیم کی ہیں، جب کہ اقوام متحدہ کے رواں برس ہونے
والے جنرل اجلاس نے معذور اور خصوصی افراد کو کسی بھی تفریق سے بالاتر ہوکر
قابلیت کی بنیاد پر انہیں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنے کی قرار داد پاس
کی تھی۔
ہمارے ملک میں معذوری کی وجوہات میں دہشت گردی، ذاتی رنجشوں، گروہی دشمنی
کی وجہ سے ہونے والے واقعات بھی ہیں، جن میں بہت سے لوگ آتشیں اسلحے کا
نشانہ بن کر ہمیشہ کے لیے معذور ہوجاتے ہیں۔ اس کے ساتھ راہ زنی اور ڈکیتی
کی وارداتوں پر مزاحمت کے دوران لوگوں کو فائرنگ کرکے زخمی کردیا جاتا ہے،
جن میں سے بہت سے کسی معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ٹریٍفک حادثات اور مختلف
قسم کے دیگر سانحات بھی افراد کو کسی جسمانی محرومی دینے کا سبب بنتے ہیں۔
کسی بیماری میں بروقت اور معقول علاج نہ ہونا یا سرے سے علاج نہ ہونا بھی
معذوری کا سبب بن جاتا ہے۔
بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم اس دیس کے باسی ہیں جہاں بچوں کو
پولیو کے قطرے پلانے کے لیے گھروں سے نکلنے والی ورکرز کو گولیوں سے بھون
دیا گیا۔ ان کا قصور بس اتنا تھا کہ وہ بچوں میں زندگی اور مکمل صحت بانٹنے
نکلی تھیں۔ سو ہمارے ملک میں معذوری کی ایک وجہ انتہاپسندی بھی بن گئی ہے۔
افسوس کے ہم ان افراد کو بہتر زندگی دینے سے خود معذور رہے ہیں۔ اس حوالے
سے جامع قانون سازی ہونی چاہیے تھی، لیکن قیام پاکستان سے اب تک معذور
افراد کے حوالے سے صرف ایک قانون
disabled persons employment and rehabilitation ordinance 1981
میں بنایا گیا، جسے ماہرین معذور آرڈیننس قرار دے کر رد کر چکے ہیں۔ اس
آرڈیننس کی دفعہ نمبر دس میں تمام محکموں کو ہدایت کی گئی ہے کہ ہر محکمہ
ایک فی صد (جسے بعد میں دو فی صد کردیا گیا) معذور افراد کو بھرتی کرنے کا
پابند ہے، لیکن ساتھ ہی دفعہ نمبر گیارہ میں یہ آپشن بھی رکھ دیا گیا کہ
اگر کوئی محکمہ کسی معذور کو بھرتی نہیں کرنا چاہتا تو وہ فی اسامی دو ہزار
روپے disability fund میں جمع کروا کر اس پابندی سے استثنا حاصل کر سکتا ہے۔
یوں معذور افراد کو ان کے حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ اس آرڈیننس میں معذور
افراد کی بحالی کے لیے نیشنل کونسل برائے معذور افراد کا تصور پیش کیا گیا
ہے، جسے اب تک قائم نہیں کیا گیا۔
گویا ہمارے یہاں ان افراد کے لیے قانون سازی کی سطح پر بھی کچھ نہیں کیا
جاسکا تو عملاً کیا ہوگا۔
لاقانونیت، چاہے وہ تشدد کے واقعات کو جنم دے، ٹریفک حادثات کا باعث بنے یا
کوئی اور سانحے کا باعث بنے، کو روکنا تو ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں
کے بس کی بات نہیں لگتی، چناں چہ معذوری کی وجوہات تو اپنی جگہ برقرار ہے،
لیکن حکومت خصوصی شہریوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے منصوبہ
بندی تو کر سکتی ہے۔ کم از کم لاقانونیت اور حادثات کا شکار ہونے والے
افراد کی کفالت ریاست کی ذمے داری ہے۔ اسی طرح ذہنی معذور بچوں کی کفالت کا
بھی حکومتی سطح پر مستقل انتظام ہونا چاہیے، خاص طور پر غریب گھرانوں کے
ایسے بچوں اور بڑوں کے لیے۔
ہمارے اردگرد ایسے لاتعداد لوگ موجود ہیں جو معذور ہونے کے باوجود پوری ہمت
سے حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اپنی ہی نہیں اپنے اہل خانہ کی بھی
کفالت کر رہے ہیں۔ ہمیں ایسے افراد کی کفالت اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
ہمارے عہد کے ذہین ترین سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ کا شمار بھی ایسے ہی باہمت
اور بہ کمال لوگوں میں ہوتا ہے، جو دنیا بھر کے معذور افراد کے لیے ایک
روشن مثال ہیں۔ اگر خاص طور پر معذور بچوں کے لیے تعلیم کا خصوصی انتظام ہو
اور ان کی سرکاری سطح پر کفالت کی جائے تو وہ کسی پر بوجھ بنے بغیر خودداری
کے ساتھ زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ اسی طرح سرکاری محکموں اور نجی اداروں کو
معذور افراد کے لیے ملازمتوں کا کوٹا مختص اور اس پر عمل کرنے کا پابند
کرکے ان افراد کی بہت بڑی تعداد کو روزگار فراہم کیا جاسکتا ہے۔ یہی نہیں
سڑکیں کراس کرنے کا معاملہ ہو یا پبلک ٹرانسپورٹ میں نشستوں کا، معذور
افراد کے لیے ہر جگہ خصوصی انتظام ہونا چاہیے۔
یاد رکھیے کہ ایسے افراد اﷲ تعالی کی طرف سے معاشرے اور ریاست کی ذمے داری
ہیں، ہم نے اگر یہ ذمے داری پوری نہ کی تو کہیں ہمارا رب جو ہمارا حقیقی
کفیل ہے کہیں ہم سے روٹھ نہ جائے۔ |