ہندوستان میں عرب ممالک سے تشریف لائے حضرات کی تاریخ،
پچھلے چودہ صدیوں کی ہے۔ ہر صدی کی تاریخ میں عربی تاجر، صوفیاء کی آمد کی
فہرست کافی طویل بھی ہے اور تاریخی بھی۔ بھارت کا مغربی ساحلی علاقہ صوبہ
گجرات ، مہاراشٹر، گوا، کرناٹک اور کیرلا میں پھیلا ہوا ہے۔ مہاراشٹر ، گوا
اور کرناٹک میں یہ ساحلی علاقہ کونکن یا کوکن کہلاتا ہے تو ریاست کیرلا میں
مالابار۔ اس مغربی ساحلی علاقوں میں عرب سے ہجرت کرکے آئے عربی نسلوں کے
افراد بے شمار آباد نظر آتے ہیں۔
مالابار ساحل کے کنارے کئی شہر ایسے ہیں جہاں عرب تاجر، مبلغین حضرات تشریف
لائے اور اسی زمین کو اپنا مسکن بنا لیا۔ یہ سلسلہ دو چار صدیوں کا نہیں
بلکہ حضرت محمد ؐ کے دور سے ہی نظر آتاہے۔ آپ ؐ کے دور میں حضرت مالک بن
دینارؒ کیرلا تشریف لائے اور یہیں پر مقیم ہوگئے۔
مالابار ساحلی علاقوں میں کئی یمنی باشندے اور نسلیں آبادہیں۔ اس علاقے میں
یمنی صوفیاء کی تعداد قابل ذکر ہی نہیں بلکہ غوروفکر کی بھی طالب ہے۔کیرلا
ریاست کے چند علاقوں میں عربی نام جیسے عیدروس، بلطفیٰ، بلطفی، تنگل، سنی
تنگل، سید تنگل، سید پوکونی تنگل وغیرہ عام نظر آتے ہیں۔ غور طلب بات یہ
بھی ہے کہ عرب سے آئی نسلیں ریاست کیرلا کے اضلاع کوژیکوڑ، مالاپورم، کونور،
کاسرگوڈ میں آباد نظر آتی ہیں۔ عیدروس، بلطفیٰ یمن سے آئے صوفی بزرگوں کی
نسلیں ہیں۔ تنگل اور سید تنگل یمنی ہی نہیں بلکہ آلِ رسولؐ بھی ہیں۔
بارھویں صدی ہجری میں ملکِ یمن سے تشریف لائے حضرات میں حضرت عبداﷲ بن محمد
العیدروس بھی تھے۔ موصوف کا پورا نام سیّد عبداﷲ بن محمد العیدروس بلطفہ
ہے۔آپ ایک مبلغ دین اور صوفی شخصیت تھے۔
حضرت عبداﷲ بن محمد العیدروس، جنہیں مقامی لوگ عیدروس مسلیار (مُسَلِیار)
کے نام سے پہچانتے ہیں۔ بھارت کی ریاست کیرلا کے مشہور شہر کالیکٹ میں ان
کا مقام ہے۔ اس شہر کے کْٹی چیرا علاقے میں ادایا گارا روڈ پر مُسلَتَم
ویڈو (مسلتم گھر یا مسلم گھر) پر ان کا مزار موجود ہے۔در اصل یہ مقام ان کا
مقبرہ ہے، جسے مقامی عوام عیدروس مسلیار آستانہ یا مقام کے نام سے جانتی ہے۔
موصوف کی تاریخ پیدائش کا کوئی علم نہیں ہے، مگر مقام پیدائش ملکِ یمن ہے۔
ان کے مقبرہ میں کندہ تختی میں تاریخ وفات 1185ھ لکھی ہوئی ہے۔ یہ مقبرہ یا
مقام ڈھائی سینٹ زمین پر بنایا گیا ہے جو وقف شدہ ہے۔ اس مقام کے بغل ہی
میں ان کے ورثاء کا گھر بھی ہے جس میں ان کی چھٹویں پیڑھی کے افراد مقیم
ہیں۔ اس کے علاوہ اس مقام کے قرب جوار میں اور مُمبارم علاقے میں بھی ان کے
وارث آباد ہیں۔
عرب تاجر حضرات اور صوفیائے کرام اُن دنوں میں جزائر شرق الہند ، جاوا،
مالایا، سُمترا اور سنگاپور جیسے ممالک میں تجارتیں بھی کیا کرتے تھے اور
تبلیغ دین بھی۔ موصوف نے بھی ان ممالک کا دورہ کیا اور کئی افراد آپ کے
ہاتھ پر بیئت کیا اور مشرف بہ اسلام ہوئے۔موصوف نے ان ممالک میں اپنے کئی
خلفاء کو تبلیغی کام پر لگایا اور دین و معاشرے کا کام کیا۔
کالیکٹ، حیدر علی اور ٹیپو سلطان کے دور میں سلطنت میسور کا حصہ رہا ہے اور
مسلمانوں کا مرکز بھی۔ مالابار مسلم مینیول میں اس علاقے اور مقام کو بینچ
آف ٹیپوسلطان بھی کہا گیا ہے۔ تاریخی دستاویزوں اور مقامی لوگوں کے مطابق
یہ علاقہ سلطنتِ خداداد میسور کا مقبوضہ رہا۔ حیدر علی اور ٹیپو سلطان کے
گورنر یہاں پر مقرر تھے جن کا مرکز کالیکٹ کے قریب فاروق آباد شہرتھا۔ آج
بھی اس شہر اور علاقہ جات میں سلطنتِ خداداد کی شان و شوکت آثارِ قدیمہ کے
مراکز بیان کرتے ہیں۔ اسی دور میں صاحب موصوف اور ان کے معاصرین اس علاقے
میں تبلیغِ دین کا کام کیااور اسلامی معاشرے کو مستحکم کرنے میں کوئی کثر
نہ چھوڑی۔ ان کی نسلیں ہندوستان کی جنگِ آزادی میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ
لیااور آج بھی ان آزادی کے متوالوں کی تصویریں یہاں کے گھروں کے دیواروں کی
زینت بنی ہوئی ہیں۔
دینی خدمات کی بناء پران کی شہرت کا چرچہ دور دراز تک تھا۔ان کے مریدین کی
نسلیں دنیا کے مختلف ممالک جیسے امریکہ، یورپ، سعودی عرب، یمن، یہاں تک کہ
جاپان میں بھی بسی ہیں۔ ان کے چاہنے والے اور مریدین کی نئی نسلیں ان کے
مقام پر بصورت زائرین آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں جن کی تعداد کم کیوں نہ ہو۔
موصوف کی وفات ۱۱۸۵ھ میں ہوئی اور اسی مقام پر ان کی تدفین ہوئی۔ ان کی قبر
کے سراہنے ایک کتبہ ہے جس کو ان کے خلیفہ جناب محمد بن ابراہیم نے لکھوایا
تھا، جو ان کی تاریخ کو واضح کرتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ کتبہ عربی زبان
میں لکھا ہوا ہے۔ |