قرضے کی عادی اقوام

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اورکہنے لگا میری بیوی،بچھے بھوکے ہیں مجھے بیت المال میں سے کچھ کھجوریں دے دے تا کہ میں اپنے گھر والوں کو کھانے کے لیے دے سکوں آپ نے اس کو چند ریال دیئے اور کہا کہ ان سے کلہاڑا خرید کر میرے پاس لائوں تو وہ کچھ دیر بعد بازار سے کلہاڑا لیکر آ گیا اور آپ صلی علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اب جنگل میں جائو اور لکڑیا کاٹ کر انکو بازار میں بیجوں اور جو پیسے حاصل ہو گے ان سے اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنا۔ وہ شخص جنگل سے لکڑیاں لے کر آتا انکو بازار میں فروخت کرتا اور گھر میں کھانے کا سامان خرید کر لے جاتا اس طرح وہ کام کرتا رہا۔ جب وہ خوشحال ہو چکا تھا تو آپ کی خدمت میں حاصل ہوا اور سارا واقعہ سنایا آپ بہت خوش ہوئے اور اس سے کہا کہ محنت میں ہی عظمت ہے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے کئی گنا بہتر ہے کہ آپ خود کما کر کھائے۔

بد قسمتی سے ہم یہ سبق بھول گئے ہیں ہماری قوم میں ہر تیسرا بندہ بھکاری ہے کوئی اللہ کے نام پہ تو کوئی والدین کا نام لیکر پمارے جذبات سے کھیلتا ہے تو کوئی چائے، سگریٹ اور کوئی ٹپ کے نام پہ مانگ رہا ہے
اگر میں بڑے پیمانے پر جائوں تو کئی "یو ایس ایڈ" تو کئی "یو کے ایڈ" زلزلے کے ناپ پر،سیلاب کے نام پر،تعلیم کے نام پر،دہشت گردی کے نام پر تو کئی "آئی ایم ایف" اور عالمی بنک سے قرض لیا جا رہا ہے۔ ایسے قومیں سرخروں نہیں کرتی ہمیں سوچنا ہو گا نہیں تو ہم قرضوں کے بوجھ تلے ہی دب جائے گے اور ہمارا نام ونشان قوموں کی فہرست سے خارج ہو جائے گا۔

نیلسن مینڈیلا نے کہا تھا زکوۃ،چندہ اور بیرونی امداد پر پلنے والی قومیں کبھی بھی سر اٹھا کر نہیں چل سکتی۔

Abdul Waheed Rabbani
About the Author: Abdul Waheed Rabbani Read More Articles by Abdul Waheed Rabbani: 34 Articles with 38952 views Media Person, From Okara. Now in Lahore... View More