صحن غربت میں قضا دیر سے مت آیا کر
خرچ تدفین کا لگ جاتا ہے بیماری پر
بھوک اور تہذیب ۔۔میں نے جب جب اس عنوان پر غورکیا ،مجھے یہ محسوس ہوا کہ
ہمارے مہذب معاشرے میں بسنے والے اہل ِ دانش نے نجانے کیوں بدتہذیبی کو
بھوک اوربھوک کو پیٹ سے جوڑدیا ہے۔ جبکہ حقیقت تو کچھ اور ہی ہے۔ آئیے میں
آپ کو بتاتا ہوں کہ جس نام نہاد مہذب معاشرے میں ہم جی رہے ہیں ، وہاں بھوک
صرف پیٹ ہی کی نہیں ہوتی، ہاں جناب بھوک صرف پیٹ ہی کی نہیں ہوتی ، بھوک
اقتدار کی بھی ہوتی ہے کہ جسکے حصول کیلئے کسطرح ہمارے نام نہاد مہذب سیا
سی رہنما انگریز کے بنائےڈیوائیڈ اینڈ رول کے اصول کے تحت قوم کوکبھی مذہب
و مسلک، ،تو کبھی فقہ وفرقہ ، کبھی ذات پات تو کبھی زبان و بیان کی تقسیم
میں ڈال کرکبھی جنگ و جدال تو کبھی قتل و قتال کے ذریعے دن دہاڑے تہذیب کا
جنازہ نکال رہے ہوتے ہیں۔
بھوک صرف پیٹ ہی کی نہیں ہوتی، بھوک طاقت کی بھی ہوتی ہے کہ جسکے مظاہرے
کیلئے زمیندار و جاگیردار ، وڈیرے اور لٹیرے کھبی اپنے مزارعوں کو قید و
بند کی صعوبتوں سے نواز رہے ہوتے ہیں تو کھبی شاہزیب جیسے نوجوانوں کو موت
کی آغوش میں سُلا کر اپنا رعب و دبدبہ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، انکے
اس عمل سے انسان کی موت تو ہوتی ہےپر شاید تہذیب زندہ رہتی ہے۔
بھوک صرف پیٹ ہی کی نہیں ہوتی، بھوک تو شہرت کی بھی ہوتی ہے ، کہ جسکے حصول
کیلئے مذہبی اقدار کو پامال کرکے جھوٹ اور مکرو فریب کا سہارا لیکر ، شرم و
حیا کو خدا حافظ کہکر اسے حاصل کرنے کی تگ و دو کی جاتی ہے۔مگرپھربھی ہماری
تہذیب پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
بھوک صرف پیٹ ہی کی نہیں ہوتی، بھوک پیسے کی بھی ہوتی ہے ، کہ جسکے حصول
کیلئے رشوت و سفارش ، بدعنوانی و بے ایمانی کا بازار گرم کرکے تمام حدود
وقیودکو پھلانگ کر حقدار سے اسکا حق چھین لیا جاتا ہے پر تہذیب پر کوئی آنچ
نہیں آتی۔
بھوک صرف پیٹ ہی کی نہیں ہوتی، بھوک حوس کی بھی ہوتی ہے ، کہ جسکی وجہ سے
حوا کی بیٹی ، آدم کے بیٹوں کے ہاتھو ں شمع انجمن بننے کے بجائے چراغِ خانہ
بننے پر مجبور ہوجاتی ہے مگرلگتا یہ ہے کہ انکا یہ عمل بھی تہذیب پر کوئی
برا اثر نہیں ڈالتا۔
میں تو دنیا کو کچھ اس نظر سے دیکھتا ہوں ، کہ میرے نزدیک افلاس اور پیٹ کی
بھوک بدتہذیبی نہیں بلکہ تہذیب سکھاتی ہے، اور میرے اس دعوے کی تائید ایک
شاعر نے اپنے اس شعر سے کی ہے کہ،
افلاس نے بچوں کو بھی تہذیب سکھادی
سہمے ہوئے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے
ان سب کے باوجود اگر ہم پیٹ کی بھوک ہی کو بدتہذیبی کی وجہ قرار دیتے ہیں
تو میں یہاں یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہوں کہ کیا بھوک و افلاس کے ذمہ
دار بھی وہ تہذیب یافتہ امراء نہیں کہ جنھوں نےارتکازِ دولت کے ذریعے معاشی
نا ہمواری جیسے مسائل کو جنم دیکر لوگوں سے انکے منہ کے نوالے چھین لیے
ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا میں دس لاکھ سے زائد افراد بھوک و افلاس کا شکار
ہیں ، یعنی دنیا کا ہر چھٹا شخص فاقہ زدہ ہے۔ سال 2009 میں شایع ہونے والی
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں 3 کروڑ بچے بھوک کے مارے ہوئے ہیں۔ ہر 4 سیکنڈ
میں ایک شخص لقمہ نا ملنے کیوجہ سے لقمہء اجل بن جاتا ہے۔ 25ہزار افراد جن
میں 18 ہزار بچے بھی شامل ہیں روزانہ بھوک کی وجہ سے کسی کی جان لے نہیں
رہے بلکہ اپنی جان دے رہے ہیں۔ یہ تعداد سالانہ 90 لاکھ تک جا پہنچتی ہے،
جو کہ ملیریا ، کینسر، ایڈز اور دیگر موذی امراض سے مرنے والوں کی تعداد سے
کہیں زیادہ ہے۔
اس سب کے باوجود ہمارے مہذب معاشرے کا یہ حال ہے کہ بقول شاعر،
تصویرِ شاہکار وہ لاکھوں میں بک گئی
جس میں بغیر روٹی کے بچہ اداس ہے |