اٹھ! گرا دے فصیلیں ہر اک ظلم کی
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
محترم قارئین آپ کے سامنے تھوڑی سے منظر
کشی کرکے اپنا مدعا نذر خدمت کرونگا مجھے وہ سب منظر یاد ہیں جب ہر طرف
لاشے بکھرے ہوئے تھے مرد و زن بچے بوڑھے گاجر مولی کی مانند کاٹ دیئے گئے
تھے عمر کا لحاظ کئے بغیر عصمتیں تار تارکردی گئیں تھیں حد نگاہ وحشت و
بربریت کا عالم تھا اپنے پیاروں سے بچھڑنے کا دکھ سینوں کو فگاں کئے دے رہا
تھا آنکھوں میں اپنوں کا بہتا خون دیکھ کی تاب نہ تھی نام پکارنے کی سکت تک
مفقود تھی لیکن اسی وقت میں ایک بات انہیں حوصلہ د ے رہی تھی ان کی ہمت
بندھائے ہوئے تھی کہ کچھ ساعتوں کے بعد ان قربانیوں کے بعد ہم اپنے آزاد
ملک کی آزاد فضاؤں میں آزادی سے سانس لیں گے اپنی زندگیاں اپنی مرضی و منشا
کے مطابق صرف کریں گے تعلیم صحت اور دیگر بنیادی سہولیات سے مستفید ہونگے
ایسا ہوا بھی خواہشات پروان چڑھیں امیدیں بار آورثابت ہوئیں خواب پایہ
تکمیل کو پہنچے کھیتوں میں ہل چلے ملوں میں پہیے گھومے اور ایسے گھومے کہ
جن کی رفتار نے دنیا کو چکرا دیا دنیا کی آنکھیں چکا چوند ہوگئیں ملک سے
محبت کرنے والوں نے قوم کو خوشحالی دینے والے نے وطن کو تحفظ و تقویت دینے
والوں نے اپنی محبت و چاہیت کا وہ حق ادا کیا کہ رہتی دنیا تک انہیں سنہرے
اقوال میں لکھا جاتا رہے گا ان کے اخلاص کے قصے بار ہا بار گنگناتے جاتے
رہیں گے ہر طرف خوشحالی کا راج تھا امن ہی امن تھا مگر رفتہ رفتہ لالچ بڑھ
گیا ہوس نے دل و دماغ کو جکڑ لیاجھوٹی شان و شوکت نفرت حائل ہوتی گئی اور
ملک اس نہج پر آگیا کہ بے ساختہ یہ شعر ذہن پر دستک دینے لگتا ہے
کیا اس لئے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
بن جائے نشیمن تو کو ئی آگ لگادے
جی ہاں ہمارا نشیمن اب غیر محفوظ ہوچکا ہے محافظ ڈاکوؤں کے روپ میں دکھائی
دیتے ہیں حکمران اپنے اللے تللوں میں مشغول ہیں نااہل اور بے کار لوگ ہم پر
مسلط کردیئے گئے ہیں کہیں تعلیم کا قحط ہے تو کہیں تربیت کا فقدان۔ مسیحائی
کے علمبردار وں نے مسیحائی کا علم سرنگوں کردیا صحت کی صورت حال ابتر ہوچکی
ہے پروجیکٹس پرپروجیکٹس تعمیر کئے جارہے ہیں لیکن ان کا حاصل کہیں سجھائی
نہیں دے رہا ہے معیشت کا دیوالیہ نکل چکا ہے ہر شہری لاکھوں روپے کے لاحاصل
قرضوں تلے دبا ہوا ہے ملک میں بیروزگاری کا عفریت غربا کو نگل رہا ہے امیر
امیر تر ہوتا جارہا ہے غریب غربت کی چکی میں پس رہا ہے سیاستدان سیاست
سیاست کھیل رہے ہیں عالم علم کو فروخت کررہے ہیں ڈاکٹر مسیحائی کو سرعام
نیلام کررہے ہیں عجب گورکھ دھندہ ہے امیدیں دم توڑتی جارہی ہیں خواہشات کے
گلے گھونٹے جارہے ہیں خواب چکنا چور ہیں غریب طبقہ احساس کمتری و احساس
محرومی کا شکار ہے ایلیٹ کلاس احساس تفاخر سے پھیلتی اور پھولتی جارہی ہے
انہیں وطن سے سروکار ہے نہ قوم سے پیار ہے ہر طرف نفسی نفسی کی تکرار ہے
ابوالہوس اور بے حس لوگوں کی مار دھاڑہے دانشوروں کا کیا یہی معیار ہے جبکہ
اہل اخلاص کی بس یہی پکار ہے کہ
غمگساری، الفتیں، احساس، ہمدردی، وفا
ہم وہ پتھر ہیں جو ان جذبوں سے خالی ہوگئے
ہمارے آباو اجداد نے جن قربانیوں مصائب و آلام اور مسائل و مشکلات کو گلے
لگاکہ ہمیں علیحدہ تشخص دیا اور ایک وطن ہمارے حوالے کیا کہ ہم اسے بام
عروج تک پہنچائیں گے لیکن افسوس صد افسوس ہماری نااہلی اور بوجوہ ایسا نہ
ہوسکا دہشت گردی کاجن پوری قوم کو جھلسائے دے رہا ہے اس کی گرم جھلسادینے
والی سانسیں ہمارے ملک اور قوم کا حلیہ بگاڑ چکی ہیں اب تو ہر طرف ایک یہ
پکار ہے کہ
اذن دے اب اے خدا برسے یہاں ابر کرم
گردشوں کی دھول میں چہرے اٹے ہیں آج بھی
لیکن دھول ہے کہ دبیز ہوتی جارہی ہے ابر کرم کے برسنے کا چانسز ندارد ہیں
قوم کو غربت و بدحالی کے سمندر، نفرتوں کی سیاسی ،غفلتوں کی چادروں اور
گمراہی کے ایسے راستوں پر دھکیل دیا گیا ہے جہاں سے واپسی کا سفر ناممکنات
میں سے دکھائی دیتا ہے عوام بے بس حکمران بے حس نوجوان بے کار نونہال
بیماراور بیوروکریٹس ہوشیار ہوچکے ہیں ایسے میں صرف اور صرف ایک ہی نعرے
اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے
غفلتوں میں گھری قوم اٹھ تو سہی
اٹھ کہ تیرا مقدر بدلنے کو ہے
اٹھ گرادے فصیلیں ہر اک ظلم کی
دیکھ اس پار سورج نکلنے کو ہے
|
|