ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک احمق لڑکے کی
محبوبہ نے اس سے کہا کہ وہ اس سے تب ہی ملاپ کرے گی جب وہ اپنی ماں کا دل
نکال کر لائے گا دنیاوی عشق میں گرفتار اس بدبخت نے اپنی ماں کو قتل کیا
اور دل نکال کر محبوبہ کے کی جانب چل دیا راستے میں اسکو ٹھوکر لگی اور وہ
لڑکا گرِ پڑا تو ماں کے کلیجہ سے آواز آئی شالا سلامت رہے میرا بچہ۔ کتنی
بدنصیب اور بدبخت ہوتی ہے وہ اولاد جو اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کے
لیے ماں کی ممتا کو بھول جاتے ہیںدنیا کی سب سے بڑی شخصیت ماں ہی تو ہوتی
ہے آپ اگر ماں کی خدمت عمر بھر بھی کرتے رہے تو تب بھی ماں کا حق ادا نہیں
کر سکتے۔
حضوراکرمﷺ نے ایک مرتبہ ماں کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر میر ی ماں
زندہ ہوتی اور میں عشاءکی نماز میں مصروف ہوتا اور میری ماں مجھے آواز دیتی
بیٹا محمدﷺ ، تو میں نماز توڑ دیتا اور ماں کی طرف لوٹتا۔
ماں وہ ہستی ہے جو اپنی خواہشات کو اولاد کی خواہشات پر قربان کر دیتی ہے
اور اپنی خوشی اولاد کی خوشی میں ہی سمجھتی ہے۔ایک آدمی آپﷺ کے پاس آیا اور
کہا کہ میں نے تین مرتبہ اپنی ماں کو کندھوں پر اٹھا کر حج کروایا ہے۔ کیا
میں نے اپنی ماں کا حق ادا کر دیا ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا آپ نے تو ابھی تک
پیدائش کے وقت کی تکلیف کا حق بھی ادا نہیں کیا۔
ماں وہ ذات ہے جو خود تو پیشاب زدہ گیلے بستر پر سوتی ہے جبکہ بچے کو نرم
اور خشک جگہ پر سلاتی ہے۔جن کی مائیں زندہ ہے ان کے گھر میں تو چلتی پھرتی
جنت ہے آپ اپنی ماﺅںسے اتنا پیار کرے کہ خدا کی خدائی بھی دنگ رہ جائے |