ضبط کروں میں کب تک آہ -
چل میرے خامہ بسم اللہ
محسن کائنات ﷺ ارشاد وہی فرماتے تھے جو ان کے رب کریم کی مرضی ہوتی۔جیسا کہ
قرآن پاک میں صاف صاف ارشاد ہے ۔
” وَمَا یَنطِقُ عَنِ الھَویٰ ط اِن ھُوَ اِلَّا وَحییُو حیٰ“ (سورہ ¿ نجم
آیت ۳-۴)
ترجمہ : اور وہ کوئی بات اپنی طرف سے نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر جو وحی جو
انہیں کی جاتی ہے۔
اس مفہوم کو شیخ الاسلام والمسلمین اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمة اللہ
علیہ نے فرمایا
وہ دہن جس کی ہر بات وحی خدا - چشمہ علم و حکمت پہ لاکھوں سلام
ہزارہا ہزار جان سے ہم قربان اس انداز گفتگو پر جس کو رحمت عالم ﷺ نے ارشاد
فرمایا۔لاکھوں لاکھ درودوسلام اس طرز گفتگوپر جس کو اللہ نے اپنے حبیب پاک
ﷺ کے لئے پسند فرمایا۔اے سیرت کے جاں نثارومحبوب کبریا فخر موجودات روحی
فداک محمد مصطفی ﷺکا انداز گفتگو جاننا ہو تو قرآن پاک کا مطالعہ کرو جس
ذات عالی صفات کی حمد و ثناءمیں خود کلام ربانی ناطق ہے ” وَ اِنَّکَ
لَعَلیٰ خُلقٍ عَظِیم “ ترجمہ: اور بے شک تمہاری خو بڑی شان کی ہے۔(سورہ
القلم آیت ۴)
اور جس ہستی کو مخاطب کر کے ارشاد ہوا ” اِدفَع بِالَّتِی ھِیٰ اَحسَن
“ترجمہ: برائی کو بھلائی سے ٹال (سورہ حٰم سجدہ آیت ۳-۴)دوسری جگہ یوں
مخاطب فرمایا ” وَ جَادِلھُم بِالَّتِی ھِیٰ اَحسَن “(سورہ نحل آیت ۵۲۱)۔ (ترجمہ
کنز الایمان) اور ان سے اس طریقے پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو۔
ایسی پاک اور برگزیدہ ہستی کے انداز گفتگو کو کیسے کما حقہ بیان کیا جاسکتا
ہے۔
تکلم انسان کے علم،کردار اور مرتبے کو پوری طرح بے نقاب کر دیتا ہے۔موضوعات
اور الفاظ کا انتخاب ،فقروں کی ساخت ،آواز کا اتار چڑھاو ،اسلوب اور بیان
کا زور یہ ساری چیزیں واضح کر دیتی ہیں کہ متکلم کس پائے کی شخصیت کا
علمبردار ہے۔
روحی فداہ ﷺ گفتگو میں الفاظ اتنے ٹھر ٹھر کر ادا کرتے کہ سننے والا آسانی
سے یاد کر لیتابلکہ الفاظ ساتھ ساتھ گنے جاسکتے تھے۔اُمّ مَعبد نے کیا خوب
تعریف بیان کی کہ گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی ہوئی الفاظ نہ ضرورت سے
زیادہ ،نہ کم ،نہ کوتاہ سختی ،نہ طویل گو ،مکروہ اور فحش اور غیر حیا درانہ
کلمات سے تنفر تھا۔گفتگو میں بالعموم مسکراہٹ شامل رہتی۔
عبداللہ ابن حارث کا بیان ہے کہ میں نے حضور سے زیادہ کسی کو مسکراتے نہیں
دیکھا۔بات کرتے ہوئے بار بار آسمان کی طرف دیکھتے گفتگو کے دوران میں کسی
بات پر زور دینے کے لئے ٹیک سے اُٹھ کر سیدھے ہو بیٹھتے اور خاص جملوں کو
بار بار دہراتے۔اعلیٰ حضرت مولانااحمد رضا رحمة اللہ علیہ نے محسن کائنات
کے انداز گفتگو کو کس قدر حسین اور جامع انداز میںبیان فرمایا۔
وہ زبان جس کو سب کن کی کنجی کہیں
- اسکی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام
سچ ہے عاشق رسول ﷺ نے جو فرمایا اس سے انحراف ممکن نہیں ایسی پاکیزہ و
برگزیدہ ہستی کے انداز گفتگو کو کیسے کما حقہ ¾ بیان کیا جاسکتا ہے۔
حضور کا ارشاد گرامی ہے اِنَّمَابُعِثتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الاَخلَاق
بے شک اخلاق کی خوبیاں پوری کرنے کے لئے میری بعثت ہوئی ۔
حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ” جوامع الکلم “ کا معجزہ عنایت فرمایا تھا جو
عربوں کے دعوائے فصاحت و بلاغت کا مسکت جواب تھا حضور خود ارشاد فرماتے
ہیں۔ ”اُوتِیتُ جَوَامِعُ الکَلَم“ میں جوامع الکلم دیا گیا ہوں آپ ﷺ مختصر
بات فرماتے یا کرتے تھے جس کے حروف کم ہوتے لیکن مفہوم اور معانی کثیر ہوا
کرتے تھے۔جو مضامین بڑے بڑے فصحاءاور بلغاءطول کی وجہ سے جسکی تفہیم سے
عاجز آجاتے تھے۔ |