زندگی اﷲ عزوجل کی طرف سے ایک قیمتی تحفہ
اور امانت ہے اور امانت میں خیانت کرنے کا حق کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔جب
انسان اپنی خواہشات تک محدود ہوتا ہے تو زندگی خوشگوار ہوتی ہے لیکن جب
خواہشات لامحدود ہوجائے تو زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ زندگی ایک کھیل ہے جس
طرح کھیل میں وقتا فوقتا مواقع ملتے ہیں اسی طرح زندگی میں بھی مختلف مواقع
انسان کے منتظر رہتے ہیں مگر صحیح وقت اور لمحے کا انتظار ضروری ہے۔کسی بھی
وقتی مصیبت کے لئے اپنے جان کو ضائع کرنا اﷲ عزوجل کے ساتھ بد دیانتی ہے۔یہ
زندگی کسی مقصد کے لئے ملی ہے اور بغیر کسی مقصد کے اس دنیا میں کوئی چیز
بھی نہیں حتی کہ انسان بھی ایک مقصد کے تحت یہاں ہے۔
انسان اپنے مستقبل کے حوالے سے ہمیشہ پریشان رہا ہے مگر اپنی پسندیدہ
مستقبل کے بارے میں اگر کسی سے کوتاہی ہوجاتی ہے تو اس کا مطلب ہرگز یہ
نہیں کہ اپنی زندگی کو وہی پر ختم کی جائے یا خودکشی جیسی گناؤنی حرکت کی
جائے۔خاص طور پر یہ وبا بچوں میں زیادہ سرائیت کر گئی ہے۔اگر وہ امتحان میں
مطلوبہ فیصد یا نمبر میں ناکام ہوجائیں توان کے دماغ میں پہلی بات جو آتی
ہے اور جو ان کے لئے زیادہ پریشانی کا باعث ہوتی ہے وہ اپنے والدین کا
سامنا کرنا ہے کیونکہ اگر والدین کو نتیجہ دکھائیں گے توہمارے لئے گھر میں
جگہ نہیں ہوگی اور بقول بچوں کے کہ والدین ہمیں ماردیں گے۔اس طرز کا ایک
واقعہ ہمارے ایک ساتھی جو نیم سرکاری ادارے میں اسلامیات اور عربی کے استاد
کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ماہانہ ٹیسٹ
میں دو بچے دوبار فیل ہوگئے تو ان بچوں سے ان ٹیسٹ پیپرز پر والدین سے
دستخط لانے کو کہا گیاتو جواب ملا کہ اس دفعہ معاف کردوکیونکہ ہمارے والدین
بہت سخت ہیں وہ ہمیں مار دیں گے۔ استاد نے رحمدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان
کے سر پر دست شفقت پھیر کر معاف کردیا اس کے بعد امتحان میں بھی نتیجہ صفر
رہااب کی بار یہ بچے خودکشی کرنے کے غرض سے گھر سے باہر نکلے لیکن پولیس
حضرات نے موقع پر وارد ہو کر دونوں کو پکڑا اور بعد ازاں ان بچوں کو والدین
کے حوالے کردیا گیا۔
یہ ہمارے لئے اک عام سی بات ہے کیونکہ اس جیسی سینکڑوں مثالیں ہمارے مابین
موجود ہیں لیکن اس طرف کسی کی توجہ ہی نہیں۔والدین بھی اپنے بچوں کی طرف سے
غافل ہیں۔ والدین کا رویہ ہر جگہ پر توجہ کا مرکز ہوتا ہے اگر مزاج میں
نرمی برتی جائے تو اس طرح کے واقعات میں کمی رونما ہوجائیگی اس کے ساتھ
ساتھ والدین کو چاہیے کہ وہ پورا سال بچے سے غافل نہ رہیں کیونکہ یہی غفلت
بعد میں تباہی کا سبب بنتی ہے۔بچوں سے دن میں ایک وقت پر ملاقات کا معمول
بنالیں تاکہ بچوں کے حوالے سے کم ازکم جائزہ تو ہو، ورنہ بسا اوقات تو
ہفتوں ہفتوں تک بچوں سے ملاقات ہی نہیں ہوپاتی۔ اس کے علاوہ بچوں کا اٹھنا
بیٹھنا بھی جانچ پڑتال میں لایا جائے ان کے دوستوں کے بارے میں معلومات کی
جاے کیونکہ یہی دوستی ان کا مستقبل روشن بھی بنا سکتی ہے اور تاریک بھی
کرسکتی ہے۔
والدین کی بے جا سختی بچے کی زندگی اور مستقبل دونوں میں رکاوٹ اور پریشانی
کا سبب بن سکتی ہے اس سے بچے میں عدم اطمینانی کی بیماری جگہ گھیر لیتی ہے
جس سے بچہ پوری زندگی عدم اطمینانی کا شکار ہوجاتا ہے۔حتٰی کہ صحیح مطالعہ
کرنے کا باوجوداس عدم اطمینانی کی وجہ سے صحیح طور پر بتا یا لکھ نہیں پاتے
اگر یہ کہا جائے کہ وہ زندگی کے ہر معاملے میں عدم اطمینانی کا شکار ہوجاتا
ہے تو بے جا نہ ہوگا اسی بنا ء پر بچے اپنے والدین سے کبھی بھی اپنے مسائل
کے حوالے سے گفتگو نہیں کرتے۔لہذا نکو چاہیے کہ وہ ہر معاملے میں بچوں کا
ساتھ دیں ان کی بات توجہ سے سنے اور ساتھ ساتھ ان کو حل کرنے کی کوشش بھی
کریں اس طریقے سے بچوں کو اعتماد میں لیا جائے تا کہ وہ کسی قسم کا بھی غلط
قدم اٹھا نہ سکیں۔
|