فقیر کا انوکھا کارنامہ٬ شہرت اور دولت کی بارش

فقیر صرف پاکستانی معاشرے کا ہی حصہ نہیں بلکہ دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں تاہم سب کا کام یکساں ہوتا ہے یعنی راہ چلتے راہگیروں سے پیسوں کی مانگ کرنا- مگر ایک فرانسیسی فقیر نے بھیک مانگنے کے ساتھ ایک ایسا انوکھا کام بھی کر ڈالا جس کی وجہ سے وہ نہ صرف شہرت کی بلندیوں تک جا پہنچا بلکہ اس پر دولت کی بارش بھی ہونے لگی-
 

image


ڈوئچے ویلے کے مطابق فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں دربدر پھرنے والے ایک بھکاری نے اپنے معمولات پر کتاب لکھ کر شہرت حاصل کر لی ہے۔ خود نوشت کے انداز میں لکھے گئے اس ناول کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔

پیرس کی سڑکوں پر مانگ تانگ کر زندگی بسر کرنے والا ایک فقیر ژاں میری رُوگول (Jean-Marie Roughol) ایک کتاب تحریر کر کے حیران کن انداز میں فرانسیسی دارالحکومت کی نمایاں شخصیات میں شامل ہو گیا ہے۔ اِس کتاب کی مقبولیت کے بعد وہ پیرس کے کئی مقامی ٹیلی وژن چینلز پر انٹرویوز کے لیے مدعو کیا جا چکا ہے۔
 

image


اِس کتاب کو تحریر کرنے کے لیے وہ گھنٹوں پیرس کے مختلف پارکوں کے بینچوں پر بیٹھا کرتا تھا۔ کتاب کا نام ’’ My Life As A Panhandler ‘‘ ہے اور اِسے اردو میں ’فقیر کے طور پر میری زندگی’ کہا جا سکتا ہے۔

کتاب کی مقبولیت کے باوجود اِس فقیر کی زندگی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے اور وہ بدستور سڑکوں پر مارا مارا پھرتا دکھائی دیتا ہے لیکن اُس کی خواہش ہے کہ وہ اپنے ناول سے حاصل ہونے والی آمدن سے ایک اپارٹمنٹ خریدے تاکہ اُس میں کمپیوٹر پر اپنی مزید کتب تحریر کر سکے۔

اُس نے آج کل اپنے سر پر سانتا کلاز کا ہیٹ پہننا شروع کر دیا ہے۔ کتاب کی اشاعت سے قبل جو رقم اُسے دی گئی، اُس سے وہ ایک سمارٹ فون خریدنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ وہ سمارٹ فون کے ذریعے فیس بک پر اپنے شائقین و قارئین کے ساتھ رابطے میں رہنا چاہتا ہے۔ اُس نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ لوگ اُسے کہیں سے بھی پیغام بھیج سکتے ہیں۔ فیس بک پر اُس کی چند تصاویر موجود ہیں۔
 

image

اِس کتاب کی تحریر میں سابق وزیر داخلہ اور فرانسیسی پارلیمنٹ کے اسپیکر ژاں لوئی ڈُوبرے نے روگول کو بھرپور مدد دی تھی۔ ڈُوبرے سے اُس کی ملاقات بھی اچانک ہوئی جب وہ شاپنگ کے لیے آئے تو انہوں نے اُسے اپنی سائیکل کی حفاظت کرنے کا کہا تھا۔ ڈُوبرے آج کل فرانس کی اعلیٰ ترین دستوری عدالت کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے ہی روگول کے ابتدائی مسودے کی چھان پھٹک کے ساتھ ساتھ اُس کی اصلاح کی تھی۔

فرانس کے مشہر اداکار ژاں پال بلمنڈو نے اِس فقیر کو ایک مرتبہ دس یورو بھی دیے تھے۔ اسی طرح فرانسیسی ٹیلی وژن کی مشہور شخصیت مشیل ڈرُوکر اکثر اُس کی جانب ایک یورو کا سکہ اچھالا کرتے تھے۔ کتاب کو مقبولیت حاصل ہونے کے بعد مشیل ڈرُوکر نے بھی فقیر سے مصنف بننے والے کو اپنے ٹی وی پروگرام میں مدعو کر کے انٹرویو کیا ہے۔

اِس کتاب کی چالیس ہزار سے زائد کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں اور اِسے ’بیسٹ سیلر‘ کتابوں میں شمار کیا جانے لگا ہے۔ روگول کی عمر سینتالیس برس ہے اور اُسے احساس ہے کہ وہ دس مہینوں کے بعد اپنی کتاب کی بعد از فروخت رائلٹی وصول کرنے لگے گا۔
 

image

دربدری کے ایام کی زندگی کے روز و شب کا احاطہ کرنے والے فقیر مصنف کا کہنا ہے کہ جو بھی اُس کی کتاب پڑھ لیتا ہے، وہ اُسے راستے میں دیکھ کر اُس کے ساتھ گفتگو کرنا ضرور پسند کرتا ہے۔ روگول کے مطابق ایک شخص نے اُس کے ناول کی پندرہ کاپیاں خریدی تھیں اور سرِ راہ ملنے کے بعد وہ اُسے ایک فیشن ایبل ہوٹل میں کافی پلانے کے لیے لے کر گیا تھا۔ اسی طرح ایک اور شخص سوئٹزرلینڈ سے ملکی چاکلیٹ بطور تحفہ لے کر اُسے ملنے آیا تھا۔

یہ امر اہم ہے کہ روگول ایک پیشہ ور بھکاری ہے اور وہ ایک دن میں کھانے اور سونے کے لیے اسّی یورو کما لیتا ہے۔ وہ گزشتہ پچیس برسوں سے بھیک مانگ رہا ہے۔ وہ ایک شرابی باپ کی اولاد تھا اور اُس کی ماں نے اُسے انتہائی چھوٹی عمر میں خود سے جدا کر دیا تھا۔
YOU MAY ALSO LIKE:

A homeless man's uplifting memoirs about his 27 years begging on the streets of Paris has become a bestseller in the lead up to Christmas. Jean-Marie Roughol's 176-page book, Je tape la manche: Une vie dans la rue (My Life As A Panhandler: A Life on the Streets), has sold nearly 50,000 copies and earned him a cult status.