تحریر: فائزہ اسلم، کراچی
کچھ عرصہ پہلے گفتگو کے دوران میری ایک سہیلی نے اپنا واقعہ سنایا ۔وہ کہتی
ہے کہ ایک دن کمرہ جماعت میں بچوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی اور کسی موضوع پر
سوال جواب کا سلسلہ جاری تھا۔ایک بچہ بہت غور سے میری باتیں سن رہا تھا کہ
وہ اچانک اٹھااور ہلکے سے میرے کان میں بولا’’مس آپ تو اﷲ ہیں ‘‘ یہ سن کر
میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ہاتھ ٹھنڈے پڑھ گئے۔ایک پل کے لئے تو مجھ سے کوئی
جواب نہیں بن پڑا۔پھر کچھ حواس بحال ہوئے تو میں نے بچے سے پیار سے پوچھا’’
بیٹا آپ کو کیسے پتا کہ میں اﷲ ہوں‘‘ ۔بڑی معصومیت سے جواب ملا’’کیونکہ آپ
سارا کام بالکل ٹھیک کرتی ہیں اور ہم سے بہت پیار کرتی ہیں‘‘ ۔میرے چہرے پر
مسکراہٹ دیکھ کروہ بھی مسکرا دیا۔ بہرحال بچے کو تو جیسے تیسے کر کے میں نے
سمجھا دیا کہ میں اﷲ نہیں ہوں۔
اس بچے کا بہت معصوم سا سوال میرے دل میں بہت سے سوال چھوڑ گیا۔شاگرد اور
استاد کا رشتہ اتنا ہی گہرا ہوتا ہے جتنا انسان اورپیار کا۔استاد اور شاگرد
میں محبت اور اخلاق وعزت کا یہ رشتہ فطری ہے اور فطرت کے ہی اصولوں پر مبنی
ہے جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔کہتے ہیں کے پرانے زمانے میں بچوں کو
پڑھانامعاشرے کا اہم فریضہ سمجھا جاتا تھاجس کے ساتھ ان کی تربیت پر بھی
بھرپور توجہ دی جاتی تھی تاکہ وہ معاشرے کے باعزت شہری بن سکیں‘ حلال کما
سکیں اور حلال کھاسکیں۔
آپ نے غور کیا ہوگا کہ ابھی ہم نے صرف پرانے زمانے کی بات کی ہے یعنی بچوں
کو پڑھانا ان کی تربیت کا فریضہ انجام دینا بس پرانے زمانے کا رواج تھا۔تو
پھر بچوں کو پڑھانے کا جو سلسلہ آج کے زمانے میں جاری ہے وہ کیا ہے؟ان دو
زمانوں کا تقابلی جائزہ لیں تواستاذہ اور بچوں سے لے کر اسکول کے معیار اور
ان کی فیس میں واضح فرق اور تبدیلی نظر آئے گی۔اگر بات کی جائے اسکولز کی
عمارتوں اور ان کے معیار کی تو پہلے اسکولز کو ’’پیلے اسکول‘‘ ’’کالے اسکول
‘‘ اور ان جیسے انگنت ناموں سے جاناجاتا تھا۔ جبکہ ماڈرن دور میں جتنی سج
دھج عمارت اسکول کا نام اتنا ہی اعلیٰ۔ اگربات کی جائے اسکول کی فیسوں کی
تو یہ ہے کہ پہلے زمانے میں بچوں کوپڑھانا والدین کے لئے بوجھ نہ تھاوہ یہ
فریضہ خوشدلی سے انجام دیتے تھے۔ پھر یہ بھی سچ ہے کہ ان دنوں میں مہنگائی
جیسے بھوت نے بسیرا نہیں کیا ہوا تھا۔لیکن اس ماڈرن دور میں جتنی مضبوط اس
بھوت کی جڑیں ہیں اتنی ہی زیادہ والدین کی کمر اسکول فیس نے توڑ دی ہے۔اب
والدین اپنے بچوں کواچھے سے اسکول میں پڑھانے کے خواہش مند ہوں تو بھی
انھیں اپنی جیب دیکھنی پڑتی ہے اور کہیں نہ کہیں ہمارے معاشرے میں معیار
جانچے جانے کا ایک پیمانہ یہ بھی بن گیا ہے کہ جتنا مہنگا سکول سوسائٹی میں
اتنا بڑا نام اور عزت ۔
استاد اسکول میں اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک اچھا استاد
اپنے اندرایک بہت بڑا انسٹیوٹ ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق بیرونے ممالک میں جب
لوگ ریٹائر ہو جاتے ہیں تو وہ ذاتی طور پر ٹیچنگ کا شعبہ اختیار کرتے
ہیں۔ایک اور سروے کے مطابق غیر ملکی لوگوں میں سب سے زیادہ باعزت شعبہ
ٹیچنگ ہے اور اس کام کے لئے وہ کمائی جانے والی رقم میں سے زیادہ تر حصہ
ایسی سرگرمیوں میں خرچ کرتے ہیں جو انکے شاگردوں کے لئے مفید ہوتی ہیں۔یہ
کام وہ لونگ ٹرم گولز کی بنیاد پر کرتے ہیں یعنی بچے اور نوجوان نسل ہی ملک
وقوم کا سرمایہ ہیں اور معیاری تعلیم کے ذریعے ہی وہ انکے ذریعے اپنا
مستقبل محفوظ بنا سکتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستانی معاشرے میں ٹیچنگ جیسا
باعزت شعبہ سب سے پرلے درجے پر مانا جاتا ہے۔اکثر بہت ہی عام سا جملہ ہر
جگہ سننے میں آتا ہے کہ جو کچھ نہیں کرسکتا وہ ٹیچنگ کرلیتا ہے اور شاید
یہی وجہ ہے کہ اب استاذہ کا وہ مقام اور مرتبہ بھی نہیں رہاجو پہلے زمانے
میں ہوا کرتا تھا۔ اگر ہم اپنے اصلاف کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ہمیں جگہ
جگہ ایک استاد اور ایک شاگرد نظر آئے گا۔ ان کا رتبہ اور عزت بھی شامل
احوال ہوگاان کی محنت اور عظمت کے چرچے ہمیں غرور میں مبتلا کردیں گے۔ مگر
آج کے زمانے میں ایسے استاد چراغ لے کر ڈھونڈیں تو کم ہی مل پائیں گے۔
یہ ایک شعبہ تھا آج یہ ایک پیشہ بن گیا ہے۔جس کا مقصد ماہانہ آمدنی کا حصول
ہے۔آج کا استاد ماڈرن ہے اسے ٹیکنالوجی کا علم ہے۔اسے فیشن کا شوق ہے لیکن
کیا اسے اس بات کا شعور نہیں کہ اسے شاگرد سے کس لہجے میں بات کرنی
چاہیے؟کتنے ہی واقعات اخبارات کی زینت بنتے ہیں کہ فلاں بچہ استاد کے
تشددکرنے پر زخمی ہے یا ہلاک ہوگیا یا بچہ استاد کے ڈر سے سکول چھوڑ کربھاگ
گیا۔آج ہماری اپنی تعلیم کا معیار ہی اتنا گر گیا ہے کہ مقصد بس پیسے سے
شروع ہوکر پیسے پر ہی ختم ہو تا ہے ۔جہاں پرائیوٹ اسکول نے جگہ جگہ ڈیرا
جمایا ہوا ہے وہیں المیہ یہ ہے کہ گورمنٹ سکولز میں استاذہ گھر بیٹھے
تنخواہیں بٹورتے ہیں۔گلی کے ہر کونے میں چار کمروں پر مشتمل ان سکولز میں
پڑھائی کے نام پر کیا پڑھایا جاتا ہے اس کی فکر شاید ہی کسی کو ہو۔جن کا
مقصد صرف والدین کی جیبوں سے پیسے لینا ہووہ بچوں کی تعلیمی معیار کاخیال
کیسے رکھ سکتے ہیں۔مزید ظلم یہ کہ کم تنخواہوں پر غیر معیاری استاذہ ان
بچوں کو پڑھانے کے ذمہ دار بنا دیے جاتے ہیں جنھیں خود سیکھنے کی ضرورت
ہوتی ہے۔
ایسے حالات میں کہ جب معاشرے میں مہنگائی اور نفسا نفسی کا بھرت سر چڑھ کر
بول رہا ہووہاں پر تعلیم وتربیت جیسی غیر معمولی باتوں کو نظر انداز کیا
جانا بہت سے مسائل پیداکرسکتاہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام بہت کمزور
اور غیر معیاری ہے۔ایک طرف تو والدین اس بات پر خوش ہیں کہ ہمارا بچہ
انگریزی کی چار باتیں بول رہا ہے اور اے بی سی ڈی لکھ رہا ہے مگر ایسی
تعلیم جس میں تربیت شا مل نہ ہووہ آخر کیسا پھل دے گی؟اس کا ثبوت آج ہمارا
معاشرہ ہے جہاں بچوں کو سمارٹ فونز تو چلانے آتے ہیں مگر محنت کرنا نہیں
آتی جو ترقی کیلئے شورٹ کٹس ڈھونڈتے ہیں۔ماں باپ کو مام اور ڈیڈ کہہ
کرپکارتے ہیں۔ان حالات میں ذمہ داری مجھ سے لے کر آپ سب کی ہے کہ اس نظام
تعلیم کو بہتر بنانے کی کوشش کریں اور طے کریں کہ ہمیں اپنے بچوں کے معیار
کو کس سطح تک پہنچانا ہے۔اتنی مہنگی تعلیم دینے کے بعد بھی ہمارے بچوں کی
تعلیم وتربیت پرمثبت اثر نہیں پڑے گا تو یہ بات ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ
ہم اپنی نسل کو کن ہاتھوں میں سونپ رہے ہیں۔اﷲ ہمیں اور ہماری نسلوں کو
بامقصدعلم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین |