بے پروائی اور بے وقعتی کے سبب عہد
حاضر کا انسان نہ تو اپنے قول کی پاسداری کرتا ہے اور نہ ہی اپنے افعال کی
ذمہ داری قبول کرتا ہے اور اگر ایسے افعال کی مرتکب وہ قوتیں ہوں جن کے
ہاتھ میں معاشرے کی تقدیر ہو تو معاشرے کے ہر فرد کا بھروسہ و اعتماد نازک
شیشے کی مانند چکنا چور ہوکر معاشرے میں بکھر جاتا ہے ۔بے پناہ وسائل سے
مالا مال ملک پاکستان بھی اسی قول و فعل کے تضاد کے درمیان صحرا کی تپتی
ریت میں ننگے پاوں کھڑا برسات کی بوندوں کا منتظر ہے۔بے پناہ زیر زمین
پوشیدہ ذخائر رکھنے والا ہما را پیارا ملک اُس دولتمند شخص کی مانند ہے جس
کے پاس بے پناہ دولت تو ہے لیکن وہ بستر مرگ پہ ہے اس کی دولت اس کے کسی
کام کی نہیں ،وہ خود بے دولتی ہے۔
اخباری ذرائع کے مطابق یو ایس ایڈ کی جانب سے تازہ ترین سروے کیا گیا جس
میں انکشا ف ہوا ہے کہ پاکستان کے زیریں سندھ طاس میں 10159 ٹریلین کیوبک
فٹ گیس کا بھاری ذخیرہ موجود ہے،پاکستان کی عوام اس بات سے بخوبی واقف ہیں
کہ پاکستان کی ایک ایک گز کی زمین میں قدرتی ذخائر پوشیدہ ہیں لیکن نجانے
وہ کون سی قوتیں ہیں جو پاکستان کو ان کے اپنے وسائل سے استفادہ کرنے سے
گریزاں ہیں۔ موجودہ منتخب حکومت کی جانب سے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے وعدے بھی
تسلسل سے کئے جا رہے ہیں قوم کو یقین کی سنہری زنجیر پہنائی جارہی ہے کہ
بقیہ ڈھائی سالہ دور میں ہم لوڈ شیڈنگ کا مکمل خاتمہ کر دیں گے ہمیں آپ کی
نیک نیتی پر شک نہیں ہے پر"ہم کیا کریں اس عہد حاضر کا ،جہاں قول و فعل میں
تضاد ہے"۔ یہ علم ہونے کے باوجود کہ گیس کے بے انتہا ذخائر پاکستان میں
دستیاب ہیں تو قطر سے ایل این جی کے 9جہاز کیوں منگوائے گئے؟ چند ماہ قبل
ایک پُر وقار تقریب کا انعقاد چنیوٹ کے ایک علاقے میں کیا گیا تھا جس میں
سونے،چاندی ،تانبہ اور لوہے کے ذخائر ملنے کی نوید سنائی گئی تھی اوراس سے
استفادات کی حصولی اور قوم کو خوش حالی کی جانب لے جانے کے وعدے و وید کئے
گئے تھے لیکن وہ خوش کن خبر اور اس سے استفادہ حاصل کرنے اورقوم کو خوشحالی
کی جانب گامزن کرنے کے بلند و بانگ دعوے صرف چنیوٹ کی اس تقریب تک ہی محدود
رہے۔پاکستانی عوام سے قول وفعل میں تضاد کا کھیل تسلسل کے ساتھ کئی برسوں
سے جاری و ساری ہے اور اسی بہلاوے کے کھیل میں پاکستان ترقی کے منازل طے
کرنے سے محروم ہے کئی ایسے ادارے جو ماضی میں ترقی کی راہوں کو چھو چکے تھے
حالات کی ہتھکڑیوں سے آزاد ہو کر اپنی اُڑان خود اُڑنا ہی چاہتے تھے کہ اُن
کے پر کرپشن جیسی تیز دھار قینچی سے کتر دیئے گئے۔پاکستان ا سٹیل 2008سے
قبل ترقی کی تمام حدوں کو پار کر چکا تھالیکن اب کرپشن کی کیچڑ میں اس کا
پوراوجو د دھنس چکا ہے اور آج صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے وہ مشینوں
کا قبرستان بن گیا ہے ماضی کے خوشحال اور حال کے بد حال بے یار و مدد گار
ملازمین حکومت کے قول وفعل میں تضاد کی تپتی صحرا میں بارش کی بوند کے
منتظر ہیں ۔ اسی طرح بلوچستان میں قائم سونے اور تانبے کے پروجیکٹ کو وفاق
اور صوبے کا مسئلہ بناکر ختم کر دیا گیا اور جاتے جاتے چینی ا نجینئرز سونا
اور تانبہ بوریوں میں بھر کر اپنے ہمراہ لے گئے تب پاکستانی عوام ہی تھی جو
اپنی غیرت اور حب الوطنی کے اُٹھتے ہوئے جنازے پر سینہ کوبی کر رہی تھی۔
اسی بد نصیب عوام کو پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کی خوش خبری تو ہر ماہ
سُنائی جاتی ہے لیکن کمی کے ثمرات اُن تک پہنچانے کے دعوے بھی صرف بہلاوے
تک محدود رہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں وہ دن دیکھنا کب نصیب ہو
گا جب ہم اپنے وسائل اور ذخائر سے استفادہ حاصل کر کے امیر ممالک کی صفوں
میں سینہ تان کر کھڑے ہو سکیں گے؟کب ہمیں ایسا رہنما دستیاب ہو گا جو ہمیں
خوشخبری سنانے کے بعد اپنے قول کی پاسداری بھی کر سکے گا؟ بلندو بانگ دعوے،
قول و فعل میں تضاداورخوشخبریوں کے خوبصورت بہلاوے کا کھیل اب ختم ہو جانا
چاہئے اپنے مزاج کے حصوں سے بے پروائی اور بے وقعتی کو خارج کر کے غیرتمندی
اور حب الوطنی کے ساتھ پاکستان کو اس کے اپنے ذخائر سے مالا مال کردیں تو
آپ خود دیکھیں گے کہ فرش سے عرش تک کا سفر ہم کتنی تیز رفتاری سے طے کر لیں
گے۔ |