تحریر :عمران طاہر رندھاوا
سال کا 51 واں ہفتہ تھا یہ دسمبر کا مہینہ اور منگل کا دن تھا انگریزی
calenderکے مطابق آج 16دسمبر تھا ۔ماؤں نے اپنے بچوں کو اُٹھا یا انکو برش
وغیرہ کروا کر انکا منہ ہاتھ دھویا۔انکو ناشتہ تیا رکر کے دیا اور اسکول کے
لیے ریڈی کیا تاکہ بابا آفس جاتے ہوئے انکو اسکول چھوڑ دے ۔ ماں نے پیا ر
سے بچوں کو ناشتہ بنا کہ دیا ٹفن بکس دیا تا کہ لال کو جب اسکول میں بھوک
لگے تو وہ بریک میں کھانا کھا سکے اور ماتھے پر بھوسہ دے کرکہا کہ بیٹا
اپنا خیال رکھنااور گھر سے اسکول کے لیے رخصت کر دیا۔ بابا ڈراپ کر کے دفتر
چلے گئے بچے اسکول پہنچ گئے اور ہمیشہ کی طرح ماں باپ کا نام روشن کرنے کے
لیے تعلیمی پیاس بجھانے لگے ۔اسکول کے آڈیٹوریم میں آج بچوں کو ہنگامی
صورتحال سے نمٹنے کے لیے مشقیں کروای جا رہی تھی اور فرسٹ ایڈ کے بارے میں
آگاہ کیا جا رہا تھا تاکہ کسی بھی ہنگامی کنڈیشن میں وہ اپنی جاں بچا کر
خیر وعافیت سے نکل سکے ۔مگر جان بچا کر نکلتے کیا ؟ اگرکچھ دن پہلے اس
ورکشاپ سے گزر جاتے تو شاید وہ ماؤں کو یوں روتا نہ چھوڑ تے! یہ پشاور آرمی
پبلک اسکول کی داستان ہے صبح کے اس وقت 10:30ہوئے تھے جب 7 دہشتگردوں نے
آرمی پبلک اسکول پر حملہ کر دیا ۔یہ اسکول پشاور کے وارسک روڈ پر قائم ہے
اس سے کچھ ہی فاصلے پرپشاور کینٹ شروع ہو جاتا ہے ۔ یہ دہشت گرد اسکول کی
بیک سائیڈ سے قبرستا ن کے راستے اسکول میں داخل ہوئے تھے ۔ان دہشتگردوں نے
قانون نافذکرنے والے اداروں کے یونیفارم زیب تن کر رکھے تھے۔اسکول میں داخل
ہوتے ہی ان درندوں نے فائر کھو ل دیا چھوٹے بڑوں خواتین اور معصوم بچوں کو
بھی نہ بخشا جنہوں نے ابھی تک سہی طرح سے بولنا بھی نہ سیکھا تھا۔فائرنگ
ہوتے ہی بچوں نے بھاگنے شروع کر دیا اور داد دیتا ہوں میں ان اساتذہ کو
جنہوں نے اپنی جاں کی پروا کیے بغیر بچوں کو چھپانا اور نکل جانے کی ترغیب
دی ۔ ڈیسکوں کے نیچے چھپے بچوں کو نکال نکال کر بچوں کو سروں پر گولیاں مار
کر شہید کیا گیا۔ کیا وہ انسان تھے جن کو ذرہ بھی رحم نہ آیا۔ ان بچوں پر
فائرنگ کرتے ہوئے کیوں اُنکے ہاتھ نہیں کانپے جب ان بچوں کو بے دردی سے قتل
کیا جاتا رہا؟ان دہشتگردوں نے بچوں اور اساتذہ کو یرغمال بنا کر بچوں کو
فورس کیا کے وہ انکھیں کھول کے دیکھے کے کسطرح انکے ٹیچرز کو شہید کیا جا
رہا ہے ۔اُف خدایا وہ کیا قیامت خیز مناظر ہونگے جب ہر طرف خون کے لوتھرے
اور لاشیں بکھری ہوئی تھی اور ننھے پھول ننھی تتلیاں جان کی امان پانے کے
لیے چھپنے کی جگہ کی تلاش کرتی ہونگی۔ آرمی پبلک اسکول کی پرنسپل طاہرہ
قاضی کو بھی اسٹوڈنٹس کے سامنے شہید کر دیا گیا۔قیامت صغری تو اس وقت بپا
ہوئی جب والدین کو اسکول سے فون آنا شروع ہوئے اور جب پاکستانی تندوتیز
میڈیانے بریکنگ نیوز دی۔ـ پشاور آرمی پبلک اسکول پر دہشتگردوں کابزدلانہ
حملہ،متعدد ننھے منھے بچوں سمیت اسکول اسٹاف شہید،پاک آرمی نے اسکول کو
گھیرے میں لاکر آپریشن شروع کر دیا!یہ خبر سنتے ہی پورے پاکستان سمیت دنیا
بھر میں ہر آنکھ اشک بار ہوگئی ،ماں کی مامتا رل گئی ہر طرف صف ماتم بچھ
گیا والدین اپنے بچوں کو لینے اسکول پہنچے تو دہشتگردوں پر اس وقت ایس ایس
جی کمانڈو کاری ضرب بیں لگا رہے تھے ۔ دہشتگردوں کی اس بزدلانہ کاروائی میں
150جانیں قربان ہوگئی جن میں 134بچے اورسٹاف شامل تھا جبکہ 115کے قریب زخمی
ہوئے ۔کمانڈوز نے جب آپریشن شروع کیا تو اس دوران 3بزدل دہشتگردوں نے خود
کو خودکش جیکٹوں سے اُڑا لیا اور اور باقی 4دہشتگرد بھی آپریشن میں مارے
گئے نام نہاد خود کو مسلم اُمہ کا ماما کہنے والے یہ دہشتگرد جنت میں جانے
کی بجائے جنت سے کوسوں دور دوزخ میں چلے گئے ۔16دسمبر کو پیش آنے والے اس
افسوسناک سانحے میں قومی سطح پر 3دن کا یوم سوگ منایا گیا اور قومی پرچم
بھی سرنگوں رہا۔ عالمی سطح پر بچوں اور اساتذہ کی اس قربانی کو شمعیں جلا
کر خراج تحسین پیش کیا گیا۔مگر جن ماؤں کی گودؤں اُجڑ گئی وہ اب کبھی ہری
نہ ہو سکیں گی۔اُ نکے دلوں پر جو زخم لگے وہ اب کبھی نہ بھر پائیں گے ۔ اﷲ
انکو صبر جمیل عطا فرمائے (آمین) ۔ ا س حملے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول
کی اور اور جواز بنایا کہ یہ حملہ بچوں پر اس لیے کیا گیا کہ شمالی
وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب میں ہماری اہل خانہ کو نشانہ بنایا گیا ۔اب
یہاں یہ بات قابل غور آتی ہے کہ جب اپنے اہل خانہ لقمہ اجل بنے تو دردہوئی
اور جو آئے دن ،بازاروں ،درگاہوں، جنازگاہوں،امام بارگاہوں،عیدین کے
اجتماع،اورنماز پڑھتے ہونے نہتے لوگوں لو قتل کیا جاتا ہے کیا انکے اہل
خانہ نہیں ہوتے ؟ یا وہ کسی کے بچے یا وارث نہیں ہوتے ؟ وہ بیویاں جن کے
سوہاگ اجڑ گئے ، وہ مائیں جن کی اکلوتی اولاد دہشتگرد کی بھینٹ چڑھ گئی تب
فیملی یاد نہیں آئی تھی ؟؟؟؟ جب آرمی پبلک اسکول سانحہ پیش آیا تو جناب سپہ
سالار نے کہا تھا کہ آخری دہشتگرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گئی اور آپریشن
ضرب عضب میں ان دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا جاتا رہے گا۔7جنوری کو 21 ویں
آئینی ترمیم کے تحت ملک میں فوجی عدالتیں بنائی گئیں تاکہ جیلوں میں قید
انکے ساتھیوں کو بھی تختہ دار پر لٹکایا جاسکے اور کچھ روز قبل4دہشتگردوں
کو کوہاٹ میں پھانسی دی گئی جو کہ آرمی پبلک اسکول میں ملوث تھے۔آرمی اسکول
کے آڈیٹوریم کے مناظر کسی ذبح خانے سے کم نہ تھے آج بھی جب یہ مناظر سامنے
آتے ہیں تو آنکھیں نم ہونے میں دیر نہیں لگتی ۔سانحہ میں مستقبل کے معماروں
نے قربانی دے کر پوری قوم اور سیاستدانوں کو ایک صف میں کھڑا کر دیا۔
مستقبل کے ان معماروں کی یاد میں آج ملک کے ہر اسکول ہر محکمے میں اور ہر
چوک میں واک ،مشاعرے اور ٹیبلو پیش کیے جارہے ہیں اور پنجاب کی ہر ڈویژن
میں ایک اسکول کو شہداء آرمی پبلک اسکول کے نام سے منسوب کیا گیا ہے جو اس
بات کا ثبوت ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو بھولے نہیں !اور میری تمام قارئین سے
گزارش ہے کہ وہ اپنی وسائل کو برؤے کار لاتے ہوئے ان بچوں کو خراج تحسین
پیش کریں اور جو فیس یوزر ہیں وہ اپنی پروفائل شہدا آرمی پبلک کے نام سے
تبدیل کریں جیسے پیرس حملوں پر کی گئیں تھی تاکہ پوری دنیا کو بتایا جا سکے
کہ پاکستانی دہشتگرد نہیں ہیں یہ امن کے داعی ہیں اور امن چاہتے ہیں۔ آرمی
پبلک اسکول 12جنوری کو ایک نئے عزم و ولولے کے ساتھ دوبارہ کھلا اور بچوں
کا حوصلہ بڑھانے اور خوش آمدید کہنے کے لیے سپہ سالار جنرل راحیل شریف
موجود تھے سرکار ی ذرائع کے مطابق اس حملے کے ماسٹر مائنڈصدام جان تھے جن
کو عمر منصور کی طرف سے ملا فضل اﷲ کے کہنے پر ہدایات دی جا رہی تھی ۔تاہم
صدام جان 26دسمبر کو خیبر ایجنسی میں آرمی کے جوانوں کے ہاتھوں مارے گئے ۔آرمی
پبلک اسکول کے طلبا وطالبات نے لازوال قربانی پیش کرکے ملک کی بنیادیں
مضبوط بنا دی ہیں یہ ہی وجہ کہ آج شہداء کو سلام پیش کیا جارہا ہے اور دشمن
عناصر پر بچہ بچہ لعنت بھیج رہا ہے ! |