16 دسمبر ’’ یومِ شہدائے پشاور‘‘
16 دسمبر کو دہشت گردوں نے پشاور کے آرمی سکول پر حملہ کرکے معصوم اور پھول
جیسے نونہالوں کو خون میں نہلا دیا اور ظلم و بربریت اور سفاکیت کی انتہا
کر دی۔ پاکستانی قوم کی ایک سب سے بڑی خوبی اور طاقت یہ ہے کہ جب بھی مشکل
وقت یا امتحان کی گھڑی آتی ہے تو پوری قوم تمام اختلافات، تنا زعات اور
فرقہ واریت کو پسِ پشت ڈال کر ایک ہو جاتی ہے۔ 16 دسمبر کے واقعے سے پہلے
دہشت گردی یا دہشت گردوں کے خلاف پاکستان میں مختلف آراء اور خیالات کے لوگ
اور گروپ موجود تھے جن میں ایسے بھی تھے جو دہشت گردوں کے کسی نہ کسی طور
پر حمایت کرتے تھے یا کم از کم ان کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھتے تھے لیکن
16 دسمبر کے افسوسناک واقعے نے پوری قوم کو ایک کر دیا اور تمام مذاہب،
فرقے اورہر شعبے اور سوچ کے لوگوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا اور پوری
قوم یک زبان ہو کر دہشت گردی کے خاتمے اور دہشت گردوں کو عبرت ناک سزا دینے
کے لئے کمر بستہ ہو گئی۔ اس واقعے کے بعد عوام، حکومت اور ہماری بہادر
افواج نے دہشت گردی اور دہشت گردوں کو ختم کرنے کا تہیا کر لیا اور خاص کر
حکومت اور فوج کا ایک ہی صف میں کھڑا ہونا بہت دور رس نتائج مہیا کرے گا۔
ہمیں بحثیت مسلمان نہ صرف اپنے ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کرنا ہے
بلکہ پوری دنیا کو اس لعنت سے چھٹکارا دلانے کے لئے اہم کردار ادا کرنا ہے
اور نہ صرف خود عملی طور پر اقدامات کرنے ہیں بلکہ دوسری اقوام اور ممالک
کی اس سلسلے میں کی گئی کاوشوں کا بھی ساتھ دینا ہوگا۔
ہمارے بہادر اور نڈر آرمی چیف جناب جنرل راحیل شریف کی مخلصانہ اور بر وقت
اقدام سے انشا ء اللہ وہ دن دور نہیں جب ملک سے دہشت گردی کا ناسور ہمیشہ
ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا اور ہماری آنے والی نسلیں امن و امان اور ہنسی
خوشی بغیر کسی خوف اور ڈر کے اپنی زندگی بسر کرے گی ا س سلسلے میں ھکومت کو
کردار بھی قابل تحسین ہے جس نے دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے مصمم ارادہ کر
لیا ہے اور افواجِ پاکستان ، سیکورٹی اداروں اور پولیس کی مدد سے اپنے
پیارے ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کرنے کے لئے پر عزم ہے۔
دہشت گردی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں اور نہ دہشت گردوں کا اسلام سے
کوئی دور کا تعلق ہو سکتا ہے کیونکہ اسلام تو حالتِ جنگ میں بھی معصوم اور
بے گناہ لوگوں کو قتل کرنا تو درکنار ان کو نقصان پہنچانے سے بھی منع کرتا
ہے اور بچوں ، بوڑھوں، عورتوں اور معاشرتی اور تعلیمی اداروں کے تحفظ کو
یقینی بنا تا ہے پھر دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنا اور دہشت گردوں کو مسلمان
کہنا کہاں درست ہے بلکہ یہ تو اسلام کی توہین ہے میں انہیں مسلمان کہنا تو
دور کی بات انسان کہنا بھی درست نہیں سمجھتا کیو نکہ ان میں انسانیت نام کی
کوئی چیز ہے ہی نہیں۔
میں بالخصوص پاکستان کے دشمن دہشت گردوں کو اور بالعموم پوری دنیا کے دہشت
گردوں کو یہ باور کرانا چا ہتا ہوں کہ اُن کے دن زیادہ نہیں ہیں، وہ زیادہ
دیر دہشت گردی، ظلم اور بربریت نہیں پھیلا سکیں گے کیونکہ ان کے اپنے ہی
کرتوتوں اور اعمال کی وجہ سے دنیا ان کی مخا لف ہوتی جارہی ہے اور آج اگر
کوئی ان کا حامی ہے بھی تو کل وہ بھی نہیں ہوں گے ۔ اس بارے میں فراز کی
ایک نظم پیش کرنا چاہوں گا کو میری اور شاید پوری دنیاکے لوگوں کی جو دہشت
گردی کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں کی نمائندگی کرتی ہے( کچھ
الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ)۔
میری طرف دیکھو
اِدھر
میری آنکھوں میں
میرے تیوروں کی گہرائیوں میں
کوئی بے یقینی، کوئی خوف نہیں
بلکہ
وہ کالی خوبصورتی ہے
جو طوفان سے پہلے
گھٹاؤں سے بوجھل آسمان میں
نظر آتی ہے
اِن میں
تہہ بہ تہہ
نفرت کی سرخ تمتماہٹ
دکھائی دے گی
میرے مضبوط ہاتھوں کو دیکھو
جن میں
تمہارے نرخرے کو پھاڑ کر
تمہاری آنتیں، تمہارے اندر کا سب کچھ
گندگی کی ڈھیر پر پھینکنے کے ارادے سے
کپکپاہٹ اور رعشہ آگیا ہے
اس کے لئے مجھے
بڑے بڑے ناخن پالنے کی ضرورت نہیں
کہ تم نے خود ہی
میرے اندر
لازوال نفرت کو
پروان چڑھایا ہے
میرے منہ کو دیکھو
اس کی لکیریں
میرے دل پر پڑی خراشوں کا
عکس ہیں
یہ میری جاوداں مزاحمت
اور تمہیں شکست دینے کا
عہد نامہ ہیں
میرے ماتھے کی ، نالیوں جیسی گہری لکیروں سے
بل کھاتا ہوا پسینہ
زمین کو اس طرح داغ داغ کر دے گا
جیسے بے بسی میں
غصے کے کڑوے آنسوؤں سے
ہمارے دل زخم زخم ہیں
مجھے ابھی تک
سکول میں پڑھتے ہوئے
معصوم اور پھول جیسے بچوں کے خون کے فوارے یاد ہیں
جن کے قدموں کی آوازوں کو
گرد سے اٹی ہوئی گلیاں
اب کبھی نہ سن پائیں گی
میری آنکھو ں کے گوشوں کی سلوٹیں
اپنی موجود ہ حالت پر ٹھہری رہیں گی
اس شرمناک منظر کو اوجھل ہونے سے بچانے کے لئے
جب تمہاری گولیوں کی بوچھاڑ سے
خوفزدہ ہوکر
دس اور بارہ برس کے معصوم بچے
ڈیسک اور بنچوں کے
پیچھے
پناہ لیتے وقت
چھلنی ہو ہو کر گر رہے تھے
اس روز میں پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا
اور میری آنکھیں
جب سے کھلی ہیں
اور ان کی سلوٹیں
جب سے اسی زاویئے پر ٹھہر گئی ہیں
تاکہ تم انہیں
اس وقت تک نہ بھٹکا سکو
جب تک میں ان شہید بچوں کا انتقام نہ لے لوں
16 دسمبر کے دن کو پورے ملک میں ’’ یومِ شہدائے پشاور‘‘ کے طور پر منایا جا
رہا ہے اور ملک بھر میں ’’ شہدائے پشاور‘‘ کی یاد میں مختلف تقاریب منعقد
ہو رہی ہیں جن میں ان معصوم اور ان کے والدین اور رشتہ داروں کو خراج تحسین
پیش کیا جا رہا ہے اور ان شہداء کے لئے بخشش اور اعلٰی درجات کے لئے خصوصی
دعاؤ ں کے ساتھ ساتھ یہ بھی عہد بھی کیا جائے گا کہ ان کا انتقام لیا جائے
گا اور ان کا خون رائیگاں نہیں جائے گا بلکہ ان کی قربانی ایک دن رنگ لائے
گی اور یہ ملک دہشت گردی کی لعنت سے پاک ہو جائے گا۔ انشاء اللہ
اور یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہے جب ہم سب ایک قوم ہو کر اس پر مل جل کر، باہمی
تنازعات، اختلافات اور مفادات کو بالکل نظر انداز کرکے، پس پشت ڈال کر اور
بھول کر حکومت اور افواج پاکستان کا بھر پور ساتھ دیں گے ہم نے ایک قوم کی
حیثیت سے دہشت گردوں اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہے سیاسی، علاقائی،
لسانی ، مذہبی اور ذاتی اختلافات اور تنازعات کو اس کام میں رکاوٹ نہ بننے
دیں ورنہ یہ کام تاخیر کی لپیٹ میں آگیا تو معصوم شہداء کا خون رائیگاں چلے
جائے گا ان کے لواحقین کو شدید رنج پہنچے گا اور آنے والی نسلیں بھی دہشت
گردی کی بھٹی میں جلتی رہیں گی جس کے لئے صرف اور صرف ہم ہی قصور وار
ہونگے۔ کیونکہ ہمارے پاس موقع ہے، قوم متحد ہے، حکومت اور فوج اس لعنت سے
چھٹکار ا حاصل کرنے کے لئے پر عزم ہے اور اگر اس وقت ہم اس سے پیچھے ہٹ گئے
اور تھوڑی سی بھی سستی یا کاہلی کا مظاہرہ کیا تو ملک کو دہشت گردی سے پا ک
کرنے اور امن و امان کو گہوارہ بنانے کا خواب چکنا چور ہوجائے گا۔ دہشت گرد
مختلف حربوں اور دھمکیوں سے اور مختلف جگہوں پر معصوم اور بے گناہ لوگوں پر
اپنی بزدلانہ اور ظالمانہ کاروائیوں سے ہمیں روکنے کی کوشش کررہے ہیں اور
کرتے رہیں گے لیکن ہمیں رکنا نہیں ہے اور نہ ان سے ڈرنا ہے بلکہ جو مصصم
اور مضبوط ارادہ ہماری بہادر افواج اور ہماری حکومت نے کیا ہے کہ ملک کو اس
لعنت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پاک کرنا ہے ہم سب کو ایک قوم ہو کر اس کا ساتھ
دینا ہے اور اسے پورا کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اس جگہ بھی
مجھے فراز کی ہی ایک نظم لکھنا بہترلگتا ہے
نہیں
ہمیں اس راستے سے نہیں لوٹنا
کہیں ایسا نہ ہو
کہ پھر
ہم اپنے ہی سایوں کے روبرر ہو جایءں
کہیں ایسا نہ ہو
کہ ہمارے کانوں کے پردے
اپنی ہی اداسی کی گونج سے پھٹ جائیں
نہیں
ہمیں ہتھیار نہیں ڈالنے
چاہے یہ سلسلہ
کتنا ہی لامتناہی کیوں نہ ہو
اور ہمارے پاؤں کو
شام کا راستہ
خستگی سے چُور کر دے
ہمیں رات سے
بڑے خوابوں کی تخلیق
کا کام لینا ہے
تاکہ آنے والے دن کو
ہم نشانِ راہ بنا سکیں
ہمارے اطراف میں
مہکتے ہوئے پھولوں کی
مزید افزائش ہونے چاہیے
درختوں میں لگے پھل
تازہ پتوں میں جذب ہو جائیں
وگرنہ بعد میں
مرے ہوئے رگ و ریشے کے سوا
کیا رہ جائے گا
ہمارے سفر کی ابتداء یہاں سے ہو
جو آفاق کی حد تک پھیل جائے
جہاں ہمارا ملاپ
اپنے بچھڑے ہوئے نو نہالوں سے ہوگا
تا کہ ہم انہیں
ایفائے عہد کی نوید سے سکیں
تا کہ وہ ، سورج
آخری پہاڑی کو سر کر سکیں
لاریب ایسے معجزوں سے
ہماری فتح یقینی ہے
میں کام کا اختتام ان دعائیہ کلمات سے کروں گا کہ اللہ پاک پشاور کے معصوم
شہداء کو اوردہشت گردی کی نشانہ بننے والے تمام شہداء کو اپنی جوارِ رحمت
میں خاص مقام عطا کرے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیلہ اور اجر عظیم عطا
کرے۔ اور ہم سب مسلمانوں خاص کو پاکستانیوں کو دہشت گردی کے خلاف متحد ہو
کر جدو جہد کرنے کی توفیق سے اور نہ صرف ہمارا پیا را وطن پاکستان اس لعنت
سے پاک کرے بلکہ پورا خطہ ارض اس لعنت سے پاک صاف کر دے۔ آمین ثمہ آمین |