شاہ فیصل شہید‎

1953ء میں سعود بن عبدالعزیز بادشاہ بنے تو شاہ فیصل ولی عہد مقرر کیے گیے تھوڑے ہی عرصہ میی وہ مجلسِ وزراء کے صدر ہو گئے۔ شاہ سعود کے زمانے میں جو انتظامی، تعلیمی، مالی اور معاشی اصلاحات ہوئیں اور ترقی کے جو کام انجام دیے گئے وہ زیادہ تر شہزادہ فیصل ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھے-

1964میں شاہ فیصل نے بادشاہ بننے کے بعد حکومت کو عوامی اور جمہوری رنگ دینے کی کامیاب کوشش کی۔ شاہی خاندان کے بے جاء اخراجات کو روکا اور انکے وضائف مقررکیے اور زیادہ رقم تعلیم اور ترقیاتی کاموں پر خرچ کی جانے لگی۔ وزارتوں میں شاہی خاندان سے زیادہ عوام کے درمیان سےاچھے کردار کے حامل وزراء لیے گئے۔

گیارہ سالہ دورحکومت میں ترقی کے کام اس کثرت اور تیزی سے انجام دیے کہ سعودی عرب دنیا کے پسماندہ ترین ممالک کی فہرست سے خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو گیا۔ شہروں اور بندرگاہوں کو جدید طرز پر توسیع دی گئی، ہوائی اڈے تعمیر کیے گئے، ملک بھر میں سڑکوں کا جال بچھا دیا گیا،حرم میں توسیع کی گئی اور حاجیوں کو مختلف سہولیات فراہم کی گئیں۔ شاہی محلات کو تعلیمی و رفاہی اداروں کے سپرد کردیا گیا۔ مکہ معظمہ، جدہ اور ریاض میں نئی جامعات اور اعلیٰ تعلیم کے ادارے قائم کیے گئے، صنعتوں کو ترقی دی گئی اور 1967ء میں فولاد سازی کا پہلا کارخانہ قائم ہوا۔ زراعت کے لیے جدید آب پاشی کا نظام قایم کیا
عرب دنیا انتہا پسندانہ قوم پرستی، نسل پرستی،سوشلزم اور دوسرے غیر اسلامی نظریات کی زد میں تھی۔ عرب دنیا کے یہ سیکولر اورسوشلسٹ عناصر سعودی عرب کو اپنے نظریات کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ سعودی عرب پر رجعت پسند ہونے اور امریکہ کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا جاتا تھا حالانکہ الزام لگانے والے ملک خود روس کے ایجنٹ تھے۔ جمال عبدالناصر کے زمانے میں دوسرے عرب ممالک کی طرح سعودی عرب کے اندرونی معاملات میں بھی مداخلت کی گئی اور حکومت کا تختہ تک الٹنے کی کوشش کی گئی۔ شاہ فیصل نے نہ صرف یہ کہ ان تمام نظریات سے سعودی عرب کو بچایا بلکہ چند سالوں کے اندر کئی عرب ممالک کو اپنا نقطۂ نظر اور طرزِ عمل بدل دینے پر مجبور کردیا۔ شاہ فیصل کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے فلسطین کے مسئلے کو جسے صرف عرب مسئلہ سمجھا جاتا تھا، اسلامی دنیا کا مسئلہ بنادیا۔

شاہ فیصل نے خارجی معاملات میں بڑی دانشمندانہ اور معتدل پالیسی اختیار کی۔ انہوں نے عرب ممالک پر زور دیا کہ مسلمانوں کی بھلائی آپس میں لڑنے میں نہیں بلکہ اتحاد میں ہے۔ اس پالیسی کے تحت شاہ فیصل نے کئی ممالک کے اختلافات دور کیے۔نہر سویز کی وجہ سے برطانیہ اور فرانس نے مصر پر حملہ کیا توشاہ فیصل نے، جو اس وقت وزیر خارجہ تھے،مصر سے اختلافات کے باوجود مصری فیصلے کی تائید کی اور برطانیہ اور فرانس کی مذمت کی۔ صحرا کے مسئلے پر مراکش اور الجزائر کے درمیان مصالحت کرانے کی کوشش کی۔ یمن اور مصر کے درمیان تصفیہ کرایا۔ شام اور عراق کے درمیان دریائے فرات کے پانی پر تنازع دور کرانے میں مدد دی۔ ایران اور اس کے پڑوسی عرب ممالک کے درمیان اختلافات دور کیے۔

اتحاد اسلام شاہ فیصل کا بہت بڑا نصب العین تھا انہوں نے اپنی زندگی ہی میں اس مقصد میں بے مثال کامیابی حاصل کی۔ 1962ء میں رابطۂ عالم اسلامی کی بنیاد ڈالی گئی جو مسلمانوں کی پہلی حقیقی بین الاقوامی تنظیم ہے۔ اگرچہ یہ تنظیم شاہ سعود کے زمانے میں قائم ہوئی تھی لیکن اس کے اصل روح رواں شاہ فیصل تھے جو اس وقت وزیر خارجہ تھے۔ اس کے بعد شاہ فیصل نے اپریل 1965ء میں حج کے موقع پر رابطۂ علام اسلامی کے ایک اجتماع میں دنیا بھر کے مسلمانوں کو اسلام کی بنیاد پر متحد کرنے کا عہد کیا۔ اپنے مقصد کے حصول کے لیے اسی سال انہوں نے 8 نومبر سے اسلامی ممالک کا دورہ شروع کردیا۔ سب سے پہلے ایران گئے۔ اس کے بعد بالترتیب اردن، سوڈان، پاکستان، ترکی، مراکش، گنی، مالی اور تیونس کا دورہ کیا۔

اگست 1966ء میں ترکی گئے اور اس طرح ترکی کا دورہ کرنے والے پہلے عرب سربراہ بن گئے۔ ۔ شاہ فیصل نے انقرہ میں صاف صاف اعلان کیا کہ ہماری طاقت کا سرچشمہ صرف اسلام ہے۔

شاہ فیصل شہید نے عالم اسلام کو یکجاءکرنےکے لیے جو دورےکیے انہیں،،رحلات الخیر" یعنی بھلائی کے سفر کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ ان دوروں میں شاہ فیصل نے یہ حقیقت سمجھانے کی کوشش کی کہ مسلمانوں کی نجات صرف اسلام سے وابستہ ہے اور ان کی بھلائی صرف اسلامی اتحاد سے وابستہ ہے۔

1967ء میں اسرائیل کے مقابلے میں عربوں کی شکست کے بعدان کا نظریہ اورA مستحکم ہو گیا۔ اگست 1967ء میں جب خرطوم میں عرب سربراہان کی کانفرنس ہوئی تو شاہ فیصل نے جمال عبدالناصر کو گلے لگا لیا اور وسیع پیمانے پر مالی امداد فراہم کی تاکہ مصر جون 1967ء کی شکست کے نتیجے میں ہونے والے مالی نقصانات کو پورا کرسکے۔ شاہ فیصل کی اعتدال پسندی اور تدبر پر مبنی پالیسی اپنا اثر دکھائے بغیر نہ رہ سکی اور مصر اور عرب ممالک میں ان کو پسند کیا جانے لگا۔ اگست 1969ء میں مسجد اقصیٰ میں آتش زنی کے واقعے کے بعد عرب اور اسلامی ممالک کو شاہ فیصل کے موقف کی صداقت کا یقین ہو گیا اور تمام اسلامی ملک ایک تنظیم کے تحت متحد ہونے کے لیے تیار ہو گئے۔ 22 تا 25 ستمبر 1969ء رباط(مراکش) میں دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلمان سربراہان کی کانفرنس ہوئی جس کا سہرایقناََملت کےاس سچے فرزندکے سر جاتا ہے
شاہ فیصل اپنے تدبر کی بدولت افریقی ممالک پر بھی اثر انداز ہوئے۔سعودی عرب نے افریقہ کے غیر مسلم ممالک میں آزادی کی تحاریک کی بھی حمایت کی اور ان کو بھی اتنے وسیع پیمانے پر امداد فراہم کی کہ افریقہ میں اسرائیل کا اثر زائل ہونے لگا اور اکتوبر 1973ء میں مصر اور اسرائیل کی جنگ کے دوران جب عرب ممالک نے سعودی عرب کی قیادت میں امریکہ اور مغربی ممالک کو تیل دینا بند کردیا تو افریقہ کے غیر مسلم ممالک نے بھی عربوں کی تائید کی۔

شاہ فیصل نے اسلامی ممالک کے مسائل حل کرنے کے لیے اقتصادیات، تعلیم اور دوسرے موضوعات پر ماہرین کی عالمی کانفرنسیں طلب کیں اور نوجوان مسلمانوں کےاجتماعات کیے۔ ان تمام کاروائیوں سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا کہ وہ ایک دوسرے کے مسائل کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور ان کو حل کرنے کے لیے مشترکہ طریق کار طے کرسکیں۔ رابطۂ عالم اسلامی کی تنظیم ان کے دور میں ایک موثر تنظیم بن گئی اور اس قابل ہو گئی کہ سعودی عرب کی مالی امداد سے دنیا میں اسلام کی تبلیغ کرسکے اور مسلمان اقلیتوں کی مدد کرسکے۔ جدہ یونیورسٹی میں مسلمان اقلیتوں سے متعلق ایک مستقل شعبہ بھی قائم کیا گیا۔

پاکستان اور سعودی عرب میں دوستی کا پہلا معاہدہ شاہ ابن سعود کے زمانے میں 1951ء میں ہوا تھا۔ شاہ فیصل کے دور میں ان تعلقات کو بہت فروغ ملا۔ سعودی عرب ان چند ممالک میں ہے جنہوں نے سرکاری سطح پر مسئلہ کشمیر میں پاکستان کے موقف کی کھل کر تائید کی۔ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں سعودی عرب نے پاکستان کی بڑے پیمانے پر مدد کی۔ اپریل 1966ء میں شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا اور اس موقع پر اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے سارے اخراجات خود اٹھانے کا اعلان کیا۔ یہ مسجد آج شاہ فیصل مسجد کے نام سے دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔ 1967ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا جس کے تحت سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کا کام پاکستان کو سونپ دیا گیا۔ اپریل 1968ء میں سعودی عرب سے تمام برطانوی ہوا بازوں اور فنی ماہرین کو رخصت کردیا گیا اور ان کی جگہ پاکستانی ماہرین کی حاصل کی گیں 1971ء میں مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی پر شاہ فیصل کو بہت رنج ہوا اور انہوں نے پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کے بعد بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا۔

پاکستان کے عوام ان کو آج بھی قدر ومحبت کی نگاہ سے دیکھتے ہی بادشاہ ہو کر بھی سادہ زندگی گذاری، وہ صرف سعودی عرب کے بادشاہ نہ تھے بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کےدلوں کے بادشاہ مشفق باپ اور وفادار دوست تھے ان کی حیثیت عالمِ اسلام کے لیے ایک مہربان چھتری کی سی تھی۔25 مارچ 1975ء کو عالم اسلام کا یہ عظیم راہبر سچا ہمدرد ایک شیطانی سازش کے زریعےشہید کردیا گیا
شاہد مشتاق
SHAHID MUSHTAQ
About the Author: SHAHID MUSHTAQ Read More Articles by SHAHID MUSHTAQ: 114 Articles with 87275 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.