’’پنکی‘‘ تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد

27دسمبر بینظیر بھٹوشہید کی برسی پر خصوصی تحریر

انسان دنیا میں آتاہے اس کے آنے کی ایک ترتیب ہوتی ہے مگر دنیا سے جانے کی کسی کی کوئی ترتیب نہیں ۔ پیدائش پر والدین ، عزیز واقارب اپنی اپنی خوشی کا اظہار اپنے انداز سے کرتے ہیں مگر مرنے والے کے لیے آنسو اور اس کی مغفرت کے لیے صرف دعا کی جاسکتی ہے۔ وقت کس رفتارسے گزرتا ہے کسی کو نہیں معلوم، معلوم جب ہوتا ہے جب انسان اپنے پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے کہ وہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپا،ایک شہر سے دوسرے شہر، زندگی سے موت کے پاس۔

27 دسمبر2007وہ دن ہے جب پہلی مسلمان خاتون وزیر اعظم اور ہرپیپلز پارٹی کی قائد محترمہ بینظیر بھٹو کوشہید کردیا گیاتھا ۔ لیاقت باغ میں پی پی کے جلسے میں خودکش حملہ ہواجس میں بے نظیر شہید ہوگئیں تھیں۔ان کی شہادت کی خبر پورے ملک میں دھماکے سے کم نہ تھی۔ ہرطرف ’’ پنکی ‘‘کا چرچا ہورہا تھا۔ہر آنکھ اشکبار تھی۔

بے نظیر بھٹو کو بچپن میں پیار سے ’’پنکی ‘‘کہا جاتا تھا ۔ وہ21جون1952کو پیدا ہوئیں اور ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی ۔ اس کے بعد راولپنڈی منتقل ہوگئیں اور اپنی تعلیم جاری رکھی ۔ پنکی کے نام سے پکاری جانے والی بچی نے 15سال کی عمر میں اولیول کا امتحان پاس کیا اور پھر اے لیول مکمل کرنے کے بعد کراچی آگئی ۔پاکستان میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے لیے بیرون ممالک چلی گئی۔ 5سال تک ریڈکلف کالج اور ہارورڈیونیورسٹی امریکہ میں زیرتعلیم رہی۔ اسی دوران بی اے کی ڈگری حاصل کی اور وہاں سے مزید تعلیم حاصل کرنے برطانیہ چلی گئی ۔ یہاں آکسفورڈمیں فلسفہ ، سیاست اور معاشیات کے مضامین میں خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے انہیں پڑھا ا وراس کے علاوہ آکسفورڈ سے بین الاقوامی قانون اور ڈپلومیسی کے مضامین میں بھی خاصی دلچسپی لی۔ 1976میں آکسفورڈیونین کا صدر بھی بننے کااعزاز حاحل کیا ۔ بے نظیر کی شادی 18دسمبر1987کوزرداری قبیلے کے نوجوان آصف علی سے ہوئی ۔بے نظیر کی اولاد میں تین بچے بلاول ،بختاور اورآصفہ ہیں۔ اس حقیقت سے نہ صرف اہل پاکستان ہی اچھی طرح سے واقف ہیں بلکہ ساری دنیا بھی یہ خوب جانتی ہے کہ بھٹوخاندان کا چراغ کس طرح گل ہوا۔ ذوالفقارعلی بھٹوکوپھانسی دی گئی ۔ ان کے بڑے بیٹے شاہ نواز بھٹوکو زہردے کر ہلاک کر دیا گیا۔ پھر ان کے بعدمحترمہ کے دوسرے بھائی مرتضی بھٹو کو کس طرح ہلاک کیا گیا؟

محترمہ بینظیر بھٹو کا سفر سیاست کا آغاز جنرل ضیا الحق کی شہادت کے بعد شروع ہوا۔ ضیاء الحق کی شہادت کے بعد ملک میں ہو نے والے 1988کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی ایک بارنئے جذبے کے ساتھ شریک ہوئی اور ان انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی بھاری مینڈیٹ سے کامیاب ہو ئی۔ اس طرح 1988میں محترمہ بینظیر بھٹو نہ صرف ملک کی بلکہ امت مسلمہ کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں ۔ 1993کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی ایک بار پھر کامیاب ہوئی تو محترمہ بینظیر بھٹو کو ملک کا دوسری بار وزیراعظم منتخب کرلیا گیامگر اپنے ہی بنائے ہوئے صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں اپنی حکومت کا خاتمہ کرایا۔1998میں نواز شریف کے دوراقتدار میں کو جلاوطنی اختیا ر کرنی پڑی ۔ 12اکتوبر1999 کو جب جنرل پرویزمشرف نوازشریف کی حکومت پر شب خون مارکرملک پر قابض ہوگیا اورنوازشریف کو ان کے اہل خانہ سمیت راتوں رات جہاز میں بٹھا کر جلاوطن کردیا۔ پہلے تو صرف محترمہ ہی ملک سے باہر تھیں اور اب تو نوازشریف بھی ملک سے باہر تھے۔ کچھ عرصہ بعدجب پرویز مشرف پر عالمی دباؤبڑھا تو اس نے محترمہ بھٹو سے دوستی کی پینگیں بڑھانا شروع کردی۔جب بے نظیر بھٹو اپنی طویل جلاوطنی کے بعد 18اکتوبر2007کو کراچی واپس آئیں تو ان کے تاریخی استقبالیہ جلوس میں بم دھماکہ ہوا۔ اس قاتلانہ حملے میں محترمہ بینظیر بھٹو خوش قسمتی سے محفوظ رہیں۔ آپ بلاخوف وخطرملک کے کونے کونے میں اپنے انتخابی جلسے اورجلوسوں کی قیادت کرتی رہیں مگر27دسمبر2007کو جب ایک انتخابی جلسے کے دوران راولپنڈی کے لیاقت باغ میں محترمہ بینظیر بھٹو پر آخری قاتلانہ حملہ اس وقت ہواجب خطاب کے بعداپنی گاڑی میں سوار ہوکرواپس جارہی تھیں۔ اس دوران لیاقت باغ نے محترمہ کے خون سے اپنی زمین کورنگین کر لیا۔ یاد رہے اس سے پہلے بھی ا سی باغ میں ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو بھی شہید کیا گیاتھا۔

یہ کوئی شک والی بات نہیں محترمہ بینظیر بھٹو ملک کے چاروں صوبوں کی زنجیر تھیں ۔ محترمہ بینظیربھٹوکے قتل کے ساتھ ہی پاکستانی سیاست کا ایک باب جو بھٹو خاندان کے نام سے چل رہا تھا ، ختم ہوگیا۔جو اب کبھی بھی شروع نہیں ہوسکتا۔بے شک بلاول اپنے نام کے ساتھ بھٹو لگالیا ہے۔آج آٹھ سال گزرجانے کے باوجود محترمہ شہید بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث عناصر منظرِعام پر نہیں آسکے ہیں۔اس دوران محترمہ کی اپنی جماعت پیپلز پارٹی اپنی مدت معیادپوری کرکے جاچکی ہے مگر بے نظیر ہم شرمندہ ہیں تیرے قاتل زندہ ہیں کے نعرے آج بھی لگ رہے ہیں۔بھٹو خاندان کے قاتلوں کی تلاش آج بھی جاری ہے اور ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کررہی ہے کہ جب ان لوگوں کے قاتل نہیں مل سکتے تو غریب کا کیا حال ہوگا؟بے نظیر کی شہادت کے موقع پر ہماری اﷲ تعالیٰ سے یہی دعاہے کہ اﷲ بی بی کو جنت میں اور ہمارے حکمرانوں کو انصاف کرنے کی توفیق دے -
Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 283 Articles with 234549 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.