وہ 28 فروری 1942ء کو ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک
پسماندہ اور دور دراز گاؤں جمعہ شریف میں پیدا ہوئے۔ نور سلطان القادری
ابھی چھ سال کے تھے کہ ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا، لہٰذا ان کے والد نے
انہیں خصوصی محبت اور شفقت سے پالا۔ جس ماحول میں ان کی پرورش کی گئی وہاں
شریعت اور طریقت کی محض تبلیغ نہیں، بلکہ ان پر عمل بھی کیا جاتا تھا۔
ابتدائی تعلیم
نور سلطان القادری نے چھِجڑی (جمعہ شریف کے جنوب مشرق میں ایک چھوٹا سا
دیہات)، کلاچی اور پہاڑ پور سے سن 1958ء تک ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ 1958ء
میں میٹرک پاس کرنے کے بعد انہوں نے علامہ سید احمد سعید کاظمی کے قائم
کردہ مشہورِ زمانہ جامعہ اسلامیہ عربیہ انوار العلوم میں داخلہ کیا۔ ان کے
درس نظامی کی تعلیمات کے اساتذہ کے نام مندرجہ ذیل ہیں: -
علامہ سید احمد سعید کاظمی (1913ء-1986ء)
علامہ مفتی امید علی خان (1883ء-1964ء)
علامہ سید مسعود علی قادری (1909ء-1973ء)
علامہ مفتی عبدالکریم
علامہ محمد جعفر
علامہ عبدالحکیم
ایک طالب علم ہونے کے باوجود ان کے لکھے مضامین معروف جریدے السعید میں
شائع ہوتے رہے اور وہ فلسفیانہ اور فقہی مباحث میں بھرپور حصہ لیتے رہے۔
انہوں نے جنوری 1963ء میں علامہ سید احمد سعید کاظمی سے دورہ حدیث مکمل
کیا۔ ان سالوں کے دوران انہوں نے جامعہ مظہر العلوم شجاع آباد میں بھی کچھ
ہفتے گزارے۔ ان کے جامعہ اسلامیہ عربیہ انوار العلوم، ملتان کےہم جماعتوں
میں سے کچھ اہم نام ی درج ذیل ہیں۔
علامہ فضلِ سبحان (مہتمم، جامعہ قادریہ، مردان)
علامہ پیر محمد چشتی (مہتمم جامعہ غوثیہ معینہ، پشاور)
علامہ پیر مختار جان سرہندی (سجادہ نشین دربار سرہندی بادشاہ، ماتلی، بدین،
سندھ)
علامہ مقصود احمد چشتی (سابق خطیب، داتا دربار، لاہور)
علامہ پیر بخش تونسوی (جامعہ قادریہ، اٹک)
صاحبزادہ پیر ظہور سلطان قادری (دربار حضرت سلطان باھو، جھنگ)
علامہ تاج الدین حسنی (بارکھان، بلوچستان)
مفتی برکت علی رضوی نقشبندی (مہتمم جامعہ رضویہ انوارالاولیاء، ماموں
کانجن، فیصل آباد)
علامہ مفتی ہدایت اللہ (اب جامعہ ہدایت القرآن، ملتان)
علامہ مشتاق احمدگولڑوی (اب دربار گولڑہ شریف)
علامہ نذیر احمد مہروی
انہوں نےعلمِ وراثت کی تعلیم اس شعبے کے مستند ترین ماہر علامہ مفتی سراج
احمد خان پوری (1886ء-1972ء) سے حاصل کی جو 'سراج الفقہا' کے لقب سے ملقب
تھے۔
منطق اور فلسفہ
جامعہ اسلامیہ عربیہ انوار العلوم ملتان سے درس نظامی اور دورہ حدیث مکمل
کرنے کے بعد، علوم معقول (منطق اور فلسفہ) کی پیاس بجھانے کے لئے وہ ضلع
میانوالی کے دور افتادہ گاؤں موسی والی پہنچے اور مارچ، 1963 میں تھل،
ریگستان میں علامہ میاں سلطان اعظم کے دروازے پر دستک دی۔ علامہ سلطان اعظم
(متوفیٰ: 1966ء)، خود ایک صوفی بزرگ تھے۔ موسی والی میں اپنے 5 ماہ کے قیام
کے دوران، انہوں نے شرح تہذیب اور سلم العلوم کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے
اپنے استادِ محترم کے لیکچرز اور ملفوظات کو تفصیل سے لکھ لیا۔ پھر وہ
جولائی 1963ء میں جامعہ مظہریہ امدادیہ بندیال شریف چلے گئے۔ ان دنوں علمی
حلقوں میں علامہ عطاء محمد بندیالوی (1916ء تا 1999ء) کو استاد الاساتذہ
مانا جاتا تھا۔ معقولات پر انہیں بے مثال مہارت حاصل تھی۔ وہاں انہوں نے
علامہ عطاء محمد بندیالوی سے علم و حکمت کے موتی چننا شروع کر دئیے۔ اس
دوران انہوں نے میر قطبی، ملا حسن، ملا جلال، رسالہ قطبیہ میر زاہد غلام
یحیی، شرح قاضی اور دیگر کتابیں پڑھیں۔ بندیال شریف میں قیام کے دوران ان
کے ہم جماعتوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادری
علامہ غلام رسول سعیدی
علامہ میاں علی اکبر (بالا شریف)
اعلیٰ تعلیم
نومبر 1964ء میں علامہ نور سلطان القادری نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور
میں داخلہ لیا اور جون 1966ء میں تخصص فی الفقہ امتیاز کے ساتھ مکمل کیا۔
اس وقت کے ہم جماعتوں میں مندرجہ ذیل علماء شامل ہیں: -
علامہ فضل سبحان (مردان)
علامہ پیر محمد چشتی (پشاور)
علامہ حافظ اللہ بخش اویسی (کراچی)
علامہ حافظ محمد گل سعیدی چشتی (میانوالی)
علامہ عبد الحق ہاشمی (برطانیہ)
پروفیسر نصیر الدین شبلی (ملتان)
عملی زندگی
برصغیر میں اپنے دور کے اعلیٰ ترین اساتذہ علوم و فنون اور معروف درسگاہوں
سے اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ جون 1966ء کو اپنے آبائی گاؤں جمعہ
شریف واپس لوٹے، جہاں ان کے والد بیتابی سے ان کا انتظار کررہے تھے۔ مقامی
دمان لوگوں نے ان کا استقبال گرمجوشی سے کیا۔ انہوں نےڈیرہ اسماعیل خان اور
ملحقہ اضلاع کے دور افتادہ علاقوں کا دورہ شروع کر دیا اور تھل میں اسلام
کی حقیقی روح اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی تبلیغ
شروع کردی۔ 21 مئی 1967ء کو انہوں نے اپنے والد حضرت فقیر سلطان غلام باہو
کی زیرِ سرپرستی، دمان کے ہم خیال عمائدین کے ایک بڑے اجلاس کا اہتمام کیا
جس کا ایجنڈا، شانِ نبوت اور شانِ ولایت کی حفاظت کرنا تھا۔ تبلیغ کے ساتھ
ساتھ انہوں نے تدریس، فتاویٰ نویسی اور تحقیقی کام کی جانب توجہ دی اور "
اقوال النصیحہ فی مسائلِ ذبیحہ" کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی۔
تدریس
انہوں نے اپنے آبائی گاؤں جمعہ شریف میں ابھی علمی سرگرمیوں کا آغاز کیا ہی
تھا کہ ان کے ایک چچا، صوفی بزرگ حضرت سلطان محمد مشتاق (1929ء-1967ء) نے
اصرار کیا کہ وہ مدرسہ انوارِ باہو بھکر منتقل ہو جائیں، جمعہ شریف کے
علاقے کو چھوڑنا ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن آخرکار چچا جان کے اصرار کی وجہ
سے اپنے والد محترم اور دوسرے چچا حضرت سلطان غلام دستگیر کے مشورہ سے
1967ء میں وہ بھکر مدرسے میں منتقل ہوگئے۔ انہوں نے اپنی باقی ماندہ زندگی
کا بیشتر حصہ بھکر میں گزارا اور مدرسہ انوارِ باہو کو جامعہ میں تبدیل کر
دیا بلکہ اس کی کئی شاخیں قائم فرمائیں۔ان میں سے چند کے نام مندرجہ ذیل
ہیں: -
انورِ باہو، محلہ سردار بخش، بھکر
مدرسہ غوثیہ قادریہ، بانو بازار، بھکر
حسنیہ نوریہ دارالقرآن، ریلوے روڈ، بھکر
مدرسہ انوارِ باہو، زندانی، ڈیرہ اسماعیل خان
مدرسہ انوارِ باہو، گنڈی عمر خان، ڈیرہ اسماعیل خان
مدرسہ انوارِ باہو، جھوک عبداللہ، ڈیرہ اسماعیل خان
انہوں نے کسی معاوضے کے بغیر درس نظامی کی تعلیم دی اور جمعہ کا خطبہ پہلے
جامع مسجد سردار بخش میں پھر اس کے بعد جامع مسجد اے-سی کورٹ میں دیتے رہے۔
بعد میں اس کا نام جامع مسجد خلفاء راشدین، بھکررکھ دیا گیا۔
طریقت
اپنے جد امجد کی طرح وہ بھی طریقت (تصوف) پر یقین رکھتے تھے، وہ اپنے والد
کے ہاتھ پر سروری قادری سلسلہ میں بیعت ہوئے وہ روحانی ترقی کے لئے مختلف
وظائف اور مجاہدے پر عمل پیرا رہے۔ ان کے بارے میں کئی کرامات بھی مشہور
ہیں لیکن وہ "الاستقامة فوق من الکرامة" کے اصول کے قائل تھے۔ عشقِ رسول
صلی اللہ علیہ وسلم ان کی زندگی کا ایک جزولاینفک اوران کی تبلیغ کا خاص
موضوع تھا۔
نکاح
1969ء میں، ان کا نکاح اپنی چچا زاد سے ہوا جو فخرِ کشمیر حضرت سلطان غلام
دستگیر کی سب سے بڑی بیٹی تھیں۔ اللہ نے انہیں چھ بچوں سے نوازا۔
وفات
9 رمضان المبارک 1427 ہجری بمطابق 3 اکتوبر، 2006ء کو جب وہ روزہ کی حالت
میں اپنے کمرے میں (کاشانہ باہو، جھوک قریشیاں، ڈیرہ اسماعیل خان) درود
شریف کا ورد فرما رہے تھے۔ ان کی زوجہ اور سب سے بڑے بیٹے محمد منصور سلطان
بھی ان کے پاس تھے، درود شریف کا ورد کرتے ہوئے اچانک انہوں نے جھک کر اللہ
اکبر کہا اور ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔4 اکتوبر 2006ء کو ان کی
نماز جنازہ ادا کی گئی جس کی امامت شیخ الحدیث علامہ محمد شریف رضوی نے کی۔
یہ جنازہ ڈیرہ اسماعیل خان کی تاریخ میں شاید سب سے بڑا جنازہ تھا، پھر
انہیں جامعہ انوار باہو بھکر کے مرکزی کیمپس میں دفن کیا گیا جہاں انہوں
سالہا سال قرآن و حدیث کی تدریس فرمائی تھی۔ ہر سال اکتوبر کی 3 تاریخ کو
ان کا عرس وہاں منایا جاتا ہے۔
نوٹ: اردو ویکیپیڈیا پر بھی یہ مضمون میں نے لکھا ہے۔ عبدالرزاق قادری
https://www.facebook.com/Allama-Muhammad-Noor-Sultan-AlQadri-252540591470095/ |