کیامعصوم بسمہ کا خون رائیگاں جائے گا؟

ملک میں عام شہریوں کی جان و مال ،عزت ،سلامتی کو تحفظ فراہم کرنے کا نظام فرسودہ ،غیر موثر ہے،صرف خواص کے مفادات کے لئے ہر معاملے میںبھر پوراور ''فول پروف'' انتظامات کو یوں یقینی بنایا جاتا ہے کہ جیسے یہ ملک ہی انہی خواص کے مفادات کو مقدم بنانے کے لئے بنایا گیا تھا۔ہمیں یہ چلن چھوڑنا ہوگا،اگر ہم نے اس باقی مانندہ ملک کو حقیقی طور پر مضبوط اور مستحکم بنانا ہے۔عوام کو دوسرے ،تیسرے درجے کی مخلوق بنائے رکھنے سے ملک کو مضبوط نہیں بلکہ کمزور کیا جا رہا ہے۔بسمہ کا خون یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ ملک میں خواص کو عوام پر ترجیح دینے کا چلن ختم کیا جائے،سرکاری غیر سرکاری پروٹوکول کا سلسلہ بند کیا جائے اور ملک کے عام شہریوںکو عزت اور اہمیت دی جائے۔

ان مناظر کی تصاویر اور خبر دیکھ کر لوگ دکھ کے عالم میں ششدر رہ گئے کہ ایک غریب،مجبور باپ موت و زندگی کی کشمکش میں مبتلا اپنی دس ماہ کی لخت جگر کو ہاتھوں میں اٹھائے ہسپتال کی طرف پیدل بھاگ رہا ہے لیکن پولیس اور سیکورٹی اہلکار اسے ہسپتال کی طرف نہیں جانے دیتے کیونکہ ملک کی ایک خاص شخصیت اپنی والدہ کے یو م شہادت کے حوالے سے ہسپتال میں منعقدہ ایک تقریب میں شرکت کر رہی تھی۔وہ مجبور باپ بیمارمعصوم بچی کو ہسپتال لے جا رہا تھا کہ اسے روک دیا گیا،معصوم بچی کی تکلیف دکھائی تو اسے پیدل جانے کی اجازت ملی۔وہ معصوم پھول کو ہاتھ میں لئے دیوانوں کی طرح پیدل ہی ہسپتال کی طرف بھاگا لیکن اسے پھر روک دیا گیا،ہسپتال میں داخل نہیں ہونے دیا گیا کیو نکہ ایک ملک کی ایک اہم شخصیت کی سیکورٹی کا سوال تھا۔پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو سول ہسپتال کراچی میں' ٹروما سنیٹر ' کی افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ہسپتال کے ارد گرد ٹریفک کو روک رکھا گیا جس کی زد میں دوسرے کئی مجبور شہریوں میں طرح کراچی کے لیاری علاقے میں ایک کمرے کے گھر میں رہنے والا فیصل حسین بھی تھا جو اپنی بیمار بچی کو ہسپتال پہنچانے کو بے چین تھا ۔ڈیڑھ دو گھنٹے ٹریفک میں پھنسے رہنے کے بعد آخر کار جب اپنی بیٹی کو ہسپتال کے عملے کے سامنے لانے میں کامیاب ہوا تو اسے بتایا گیا کہ معصوم بچی موت کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔بسمہ،جس نے ابھی اپنی توتلی زبان میں بمشکل 'ابو' کہنا شروع ہی کیا تھا،اپنے اسی پیارے ابو کی بانہوں میں سسک سسک کر دم توڑ گئی۔بسمہ کا مطلب شائستگی،شگفتگی،نفاست ہے لیکن ہمارے معاشرے نے اس بچی کو اس کے نام کے معنوں کے متضاد مطلب میں سزایاب کیا ہے۔مرتے ہوئے معصوم بسمہ کی آنکھیں اپنے باپ سے سوال کر رہی تھیں،انسانی معاشرے کی سنگدلی پہ حیرت کا اظہار کر رہی تھیں۔معصوم بچی کی ہلاکت کے واقعہ کی رپورٹ کرسمس کی چھٹیوں کی وجہ سے تاخیر سے وزیر اعلی سندھ کو پیش کی گئی ہے۔وزیر اعلی سندھ اس کے علاوہ اور کیا کرسکتے ہیں کہ ہلاک ہونے والی دس ماہ کی بچی کے والد کو کوئی ملازمت دلا دیں ،کچھ مالی امداد کر دیںلیکن ہماری سرکار کبھی ملک کے سرکاری اور غیر سرکاری خواص کو سیکورٹی کے نام پر عوام کو عاجز کر دینے والے پروٹوکول کو ختم نہیں کرے گی۔جس نے یہ مناظر دیکھنے تھے اس نے دیکھ لئے اور اس کا گہرا احساس بھی قبول کیا لیکن معصوم بسمہ کی موت کا سبب بننے والے اس اندوہناک واقعے کی تفصیل اور وجوہات کا کھوج نکالنے کی کوشش کرنے والے سرکاری حکام ملک کے خواص کی مراعات و حفاظت پر شہریوں کو یونہی قربان کرتے رہنے کے اپنے غیر متزلزل عہد کا اعادہ کر رہے ہیں۔

یہ ہمارے مادیت و جاہ پرست اور طبقاتی تقسیم میں مبتلاخودغرض معاشرے کے وہ بھیانک چہرے ہیں جو اس معاشرے کی انحطاط پزیری کو بے نقاب کرتے ہیں۔دس ماہ کی معصوم بسمہ کی اس طرح ہلاکت کے واقعہ سے اس حقیقت کا اعادہ ہوا ہے کہ ملک میں عام شہری کس طرح خواص کے مفادات پر قربان ہوتے ہیں۔ہمارے سرکاری نظام،معاشرے کی بدولت اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والی بسمہ کی موت کے واقعہ سے کئی سوال سامنے آتے ہیں۔بسمہ کا واقعہ کئی سوال چھوڑ گیا ہے جس کے جواب کے سب منتظر ہیں۔اگر بسمہ کی جگہ بختاور بھٹوہوتی تو کیا صورتحال رہتی؟ ان لوگوں کا کیا جو اسے ایک حادثہ کہہ رہے ہیں؟کیا یہ ایک ملک کے عوام ہیں یا صرف ایک ہجوم؟کیا بلاول اور سرکاری نظام سے زیادہ ہم لوگ قصور وار نہیں ہیں جو شاہ نوازی ،شخصیت پرستی میں انسانیت کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں؟کیا بااختیار ،بااثر ،طاقتور شخصیات کا حفاظتی پروٹوکول انسانی جانوں سے زیادہ ضروری ہے؟کیا بسمہ کا والد ،ہماری سول سوسائٹی اس واقعہ کے خلاف اتنی متحرک ہے کہ شہریوں کے لئے قاتل اور عذاب کے موجب اس طرح کے سرکاری اور غیر سرکاری پروٹوکول کے سلسلے کو ختم کرانے کی کوئی تحریک ہو سکے؟ اگر بسمہ کا والد اپنی معصوم بیٹی کی ہلاکت کے اس اندوہناک واقعہ پر صلح کرلیتا ہے، ہو جاتا ہے اور سول سوسائٹی بھی خاموش ہو جاتی ہے؟تو وہ ظلم کے اس چلن کو جاری رکھنے میں کتنے ذمہ دار ہوں گے؟یہ واقعہ تو میڈیا کی بدولت منظر عام پر آ گیا لیکن ایسے کتنے ہی واقعات ہیں جو سرکاری اور غیر سرکاری پروٹوکول کی وجہ سے آئے روز عوام کو بھگتنا پڑتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ہی پنجاب میں ایک ماں نے اپنی معصوم بچیوں سمیت خودکشی کر لی۔اوریہ تو تقریبا ہر عید کی روئیدار ہے کہ اپنے بچوں کے لئے نئے کپڑے نہ خرید سکنے والے غریب و مجبور باپ نے خودکشی کر لی۔پاکستان کے ایک عام غریب اور مجبور شہری کے بچوں اور خواص کی بچوں کی زندگی کی اہمیت میں اتنا فرق کیوں؟ کیا خواص کے بچوں کی مراعات اتنی ضروری ہیں کہ ان کی تکمیل کے لئے شہریوں کو مشکلات ،ہلاکت خیزی کی بھینٹ چڑہنے دیا جائے؟یہ پاکستان شہری حقوق کو یقینی بنانے کے لئے بنایا گیا تھا،خواص کو برتر اور اعلی مخلوق قرار دینے کے لئے نہیں؟ہمارے معاشرے میں ظلم،زیادتی کے خلاف بات کرنے والے کو رواج زمانہ سمجھاتے ہوئے یہی کہا جاتا ہے کہ ''خیر اے ،ہوندا ریندا اے ''یا'' یہی اللہ کی مرضی تھی''۔مغربی ملکوں ،انسانی حرمت پر یقین رکھنے والے معاشروں میں وزیر اعظم سمیت اہم شخصیات اس ملک کے عام شہریوں کی طرح چلتے پھرتے ہیں کیونکہ ان معاشروں میں ملک کے تمام شہریوں کے لئے یکساںحفاظتی بندو بست کیا جاتا ہے ۔جبکہ ہمارے ملک میں عام شہریوں کی جان و مال ،عزت ،سلامتی کو تحفظ فراہم کرنے کا نظام فرسودہ ،غیر موثر ہے،صرف خواص کے مفادات کے لئے ہر معاملے میںبھر پوراور ''فول پروف'' انتظامات کو یوں یقینی بنایا جاتا ہے کہ جیسے یہ ملک ہی انہی خواص کے مفادات کو مقدم بنانے کے لئے بنایا گیا تھا۔ہمیں یہ چلن چھوڑنا ہوگا،اگر ہم نے اس باقی مانندہ ملک کو حقیقی طور پر مضبوط اور مستحکم بنانا ہے۔عوام کو دوسرے ،تیسرے درجے کی مخلوق بنائے رکھنے سے ملک کو مضبوط نہیں بلکہ کمزور کیا جا رہا ہے۔بسمہ کا خون یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ ملک میں خواص کو عوام پر ترجیح دینے کا چلن ختم کیا جائے،سرکاری غیر سرکاری پروٹوکول کا سلسلہ بند کیا جائے اور ملک کے عام شہریوںکو عزت اور اہمیت دی جائے۔

Fazarat Kiani
About the Author: Fazarat Kiani Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.