وہ تبسم کا عالم

مسکرانا ایک خوبصورت عمل ہے ،آنحضرت محمد صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے اس عمل کو پسند فرمایا ۔چہرے پر تبسم ،مسکرانا ،قہقہے لگانا اور ہنسنا اس عمل کی اہم اقسام ہیں جب کہ بنیادی طور پر سبھوں کو ہنسنا ہی کہا جاتا ہے اور اس ہنسنے کی چھوٹی بڑی درجنوں اقسام قسمیں ہیں ،اور یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ ہر مسکراہٹ کے پیچھے کوئی وجہ ،سبب ضرور ہوتا ہے ۔وہ سبب معمولی ہو یا بہت بڑا چہ جائیکہ بغیر سبب و کسی مقصدکے انسان کبھی ہنستا مسکراتا نہیں ہے ۔کچھ لوگ اپنی کوتائیوں پر ہنستے ہیں کچھ اپنی کامرانیوں پر ہنستے ہیں کچھ اپنے جھوٹ کے پکڑے جانے پر ہنستے ہیں کچھ دوسروں کو زیر کر کے ہنستے ہیں کچھ دوسروں کا حق چھین کر ہنستے ہیں کچھ دوسروں کی بربادیوں پر ہنستے ہیں کچھ اپنی فتح پر قہقہے لگاتے ہیں کچھ دوسروں کو زلیل کر کے ان کے حال پر ہنستے ہیں اور کچھ بے بس و لاچار لوگوں سے ان کا سب کچھ چھین کر ان کی آوفغاں پر قہقہے لگاتے ہیں اور زمانے میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنا سب کچھ دوسروں پر لٹا کر بھی کبھی اف نہیں کرتے بلکہ اپنے چہرے پر تبسم سجائے انہیں دعا دیتے ہیں ۔گویا ہنسنا ایک انسانی کیفیت کا نام ہے جو اپنے اندر سینکڑوں اقسام رکھتی ہے اور ہر ایک قسم اپنا الگ مقصد ،مدعا،وجہ و معنے بھی رکھتی ہے ۔۔۔اس لئے کسی بھی شخص کے تبسم ،مسکراہٹ و قہقہے کی وجہ کا جاننا بھی ضروری ہوتا ہے ۔۔۔

کل دوپہر سے اب تک اور ناجانے کب تک ۔۔۔پاکستان و بھارت کے میڈیا پر دو ممالک کے سربراہان کی دوطرفہ مسکراہٹ کے تبادلے کی خبر یں موضوع بحث ہیں ۔۔۔سوال یہ ہے کہ آخر کیوں ۔۔۔؟ اس بات کے اتنے چرچے کیوں ہیں ۔۔۔؟ دنیا میں اربوں لوگ روزانہ ہنستے ہیں مسکراتے ہیں لیکن نواز مودی کی مسکراہٹ میں ایسا کیا خاص ہے کہ دو دن سے سارا میڈیااس مسکراہٹ پر چیخ رہا ہے ۔۔؟کیوں ؟ان دونوں کی مسکراہٹ کے پیچھے کیا راز چھپا ہے ؟ انہوں نے اووروں کے لئے کوئی تاریخی قربانی دیدی یا کسی سے اس کا سب کچھ چھین لیا اور اپنی اس فتح پر تبسم فرما رہے تھے ؟

اگر ہم ان دو ممالک کی مختصر تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالیں تو ہمیں ان دونوں میں ایک خاص بات نظر آتی ہے کہ جب یہ آزاد ہوئے اس وقت ان کے قرب میں ان کے بلکل درمیاں ایک ایک چھوٹا سا قدیم ملک تھا ۔۔۔ہونا تو یوں چاہے تھا کہ یہ دونوں بڑے ملک اس کا سہارا بنتے اسے اپنے ساتھ کھڑا کرتے لیکن ایسا نہ ہوا ،اور اپنے ظہور پذیر ہوتے ہی ان دونوں نے اس ملک کی آزادی پر کاری ضرب لگائی اور اس پر اپنا حق جتانے لگے اس کے حصول کے لئے آمنے سامنے آگئے اور اسی ملک کو میدان جنگ بنا لیا اور یہ خطہ ان دو ممالک کی سیاست کا محور ٹھہرا ۔اس خطے کے نام سے سیاست کی بڑی چھوٹی ہزاروں دکانیں کھلیں اور ۔۔۔اسے حصول اقتدار کی سیڑھی کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا رہا ۔یہی نہیں بلکہ ریاست جموں کشمیر کے اپنے لیڈران نے بھی اقتدار کی محسور کن فضاؤں کے مزے لینے کی خاطر اس کاروبار میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔۔حتیٰ کہ اب یہ مسئلہ کشمیر اتنا سیاست زدہ ہو چکا ہے کہ اس پوری ریاست جموں کشمیر کے لوگوں کا خطہ کے سیاستدانوں پر اعتماد نہیں رہا اور وہ خامشی اختیار کرنے لگے ہیں جس کی بنیادی وجہ سیاستدانوں کا قول و عمل میں تضاد ۔۔۔۔

ان دو ممالک کے سربراہان کی ملاقاتیں یا مسکراہٹوں کو اس قدر کیوں کیوریج ملتی ہے اس میں کیا انوکھی بات ہے ؟ آئے روز دنیا بھر کے سربراہان ملتے ہیں گفتگو ہوتی ہے تو پھر ان دو میں کیا خاص بات ؟قارئین کرام ! اس میں خاص بات ان دو ممالک کے تعلقات رہے ہیں جن میں اہم ترین مسئلہ کشمیر اور ریاستی عوام کی خوش فہمیاں ہیں جو ان مسکراہٹوں کے پس منظر میں پیدا ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ ہی دم توڑ جاتی ہیں ۔سالہا سال سے مسکراہٹوں کے تبادلے اور خوشگوار ماحول کی نوید سنتے آئے ہیں ،اور ان کی مسکراہٹوں اور قہقہوں کا سلسلہ آج سے نہیں بلکہ اس وقت سے جاری ہے ۔۔۔ جب پہلی بارلیاقت علیخان نے ریاست میں قبائیلی یلغار کروائی تب انہوں نے ایک خوفناک قہقہ لگایا تھا اور جب کراچی معائدہ ہوا تب بھی تین لوگ مسکرائے تھے اور چوتھے نے قہقہے لگائے تھے جب بھارتی فورسز سرینگر اتری تھیں تب بھی دہلی وزیر اعظم ہاوس میں ایک شخص نے زور زور سے قہقہے لگائے تھے اور پنڈت جواہر لعل نہرولعل چوک سرینگر میں کھڑے ہو کر ہمیں حق خودارادیت دینے کا وعدہ کرتے ہوئے بھی مسکرایا تھا ۔۵ جنوری کو ہمارے حق خود ارادیت کو الحاق تک محدود کروا کر ظفراﷲ خان بھی مسکرایا تھا ہمارے پانیوں کا بھارت سے سودا کر کے زیڈ اے بھٹو بھی خوب ہنسا تھا اور ایوب خان سے جبرالٹر اور پھر ساتھ ملکر کر تاشقند کروانے والا بھی ہمارے حال پر کھل کر ہنسے تھے اور شملہ میں بین الاقوامی مسئلہ کشمیر سے مکمل کنارہ کشی کر کے بھی دو ممالک کے وزرہ اعظم کے درمیاں مسکراہٹوں کے تبادلے ہوئے تھے ۔اور اس طرح ہم نے ساون کی بارشوں جیسے تعلقات اور مسکراہٹوں کے تبادلوں کے پیچھے تین نسلیں برباد کر ڈالیں اور گزشتہ اڑسٹھ برسوں سے ان کے اس’’ بارڈر بارڈر‘‘ کھیل نے ہمارے چھ لاکھ سے زائد ہموطنوں کا خون کر دیا اوروہ تمام شہداء ایک خاص مقصد کے لئے شہید ہوئے اور اس عظیم مقصد کے منتقی انجام تک پہنچے بنا اس کے اصل زمہ داران کا یو ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے تبسم فرمانے کا مطلب ایسے ہی ہے جیسے چھ لاکھ بے گناہ انسانوں کو قتل کر کے ان کی نعشوں پر کھڑے ہو کر کوئی انسانیت سے محبت کا درس دے رہا ہو۔۔۔اس لئے قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ آج بھی ہم ان کی مسکراہٹوں کے پیچھے چھپے محرکات کو دیکھے و جانے بنا ان کی ایک مسکراہٹ پر سال بھر کے لئے خوش ہو جاتے ہیں’’ ستوو‘‘پی کر سو جاتے ہیں ۔ہمیں اس غلامانہ نیند سے بیدار ہونا ہوگا اور اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ ہنسی قہقہے مسکراہٹیں اور تبسم ۔۔۔جو بھی ہو اپنا ایک پس منظر رکھتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک عمل کے پیچھے کوئی منفی یا مسبت محرکات ضرور کارفرما ہوتے ہیں جنہیں سمجھنا بیحد ضروری ہے ورنہ۔۔۔ ۔۔۔آپ کو آپ کی بربادیوں کی خبریں اب ریڈیو پر نہیں بلکہ فیس بک سے ملا کریں گی۔

Niaz Ahmed
About the Author: Niaz Ahmed Read More Articles by Niaz Ahmed: 98 Articles with 75419 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.