فُٹ پاتھ
(Prof. Niamat Ali Murtazai, )
فٹ پاتھ زندگی کی بہت بڑی حقیقت ہے۔
یا یہ کہ زندگی کی حقیقت ہے ہی فٹ پاتھ ۔ فٹ پاتھ کو اردو میں کنارہ یا
کنارے کا راستہ جہاں لوگ پیدل چلتے ہیں کہا جائے گا۔ مفہوم کے لحاظ سے اسے
نظر انداز جگہ یا غیر اہم جگہ بھی کہا جا سکے گا کیوں کہ راستے میں سب سے
اہم مقام مرکز کا ہوتا ہے اور شاید مرکز کو ہر جگہ ہی سب سے اہم مقام حاصل
ہوتا ہے، یا مرکز ہوتا ہی وہی ہے جسے سب سے اہم مقام حاصل ہو باقی تو ایرہ
غیرہ ہی ہوتے ہیں۔ اور جسے سب سے اہم مقام حاصل ہو اسے ہی مرکز میں بٹھایا
جاتا ہے۔ آسمان کو ہی لے لیں ہمیشہ سب سے اونچا مرکز ہی سے ہوتا ہے۔ یہ
آسمان کاپیغام ہے کہ سب سے اونچا ہونے کے لئے مرکز ی پوزیشن میں آئیں۔ دنیا
میں ہوا بھی تو ایسے ہی ہے کہ جس نے اونچائی یا بڑائی حاصل کرنی ہوتی مرکز
کا طواف کرنے لگتا۔ مرکز سے دور ہوتے ہوئے شخص کواپنی اہمیت کی کمی کا
احساس بھی بڑھنے لگتا ہے۔ اور فٹ پاتھ وہ مقام بنتا ہے جہاں سب سے ٹھکرائے
گئے بیٹھتے ہیں۔ چاہے وہ انسان ہوں یاکتابیں۔قبرستان بھی معاشرے کا فٹ پاتھ
ہے جہاں سب سے زیادہ نظر انداز ، ٹھکرائے گئے اور محروم لوگ بظاہرآرام فرما
ہوتے ہیں۔
پروفیسر امیرالدین کی زندگی کا ایک بڑا حصہ انہی فت پاتھوں کی کا طواف کرنے
میں صرف ہوا تھا۔ وہ ایک متوسط گھرانے کا چشم و چراغ تھا لیکن اس کے عزائم
بہت اونچے تھے۔ وہ دنیا میں ایک نامور شخصیت کے طور پر اپنا آپ منوانا
چاہتا تھا۔ وہ پرائمری تعلیم سے ہی اپنی کلاسوں میں بہت اچھی پوزیشنوں پر
رہا تھا۔ اس کے والدین کو اس کی ذہانت اور محنت پر ناز تھا۔ وہ ہر کلاس میں
اپنی حیثیت منوا لیتا تھا۔ وہ بنیادی طور پر کتاب دوست اور حقیقی معنوں میں
علم کا طالب تھا۔ بی اے کے بعد اس کا اردو ادب میں رجحان قدرتی طور پر
پروان چڑھ گیا ۔ وہ اردو ادب میں ایم اے کرنے کا ارادہ رکھتا تھاکیوں کہ
اسے اس میں اپنا ذہنی میلان زیادہ محسوس ہوتا تھا۔ اگرچہ علم کی کوئی بھی
بات اس کو اپنی طرف مائل کرتی تھی۔ اور وہ ہر طرح کے علوم کی بنیادی باتوں
سے دلچسپی رکھنے والا طالب علم تھا۔ وہ کئی بار علم فلکیات اور علمِ نجوم
وغیرہ کی کتابیں بھی بازار سے لا چکا تھا۔ سائنس کی بنیادی تھیوریاں بھی اس
کے علم کا حصہ تھیں ۔ فلسفہ بھی اسے اپنی راہ دکھاتا ۔ تاریخ کی کتابیں وہ
رات اپنے سرہانے رکھ کر سویا کرتا ۔ شاعری پڑھنے کا جنون تو اس قدر تھا کہ
کبھی کبھی خود اس پر اشعار کا نزول ہونے لگتا۔ اردو کے ساتھ ساتھ اس نے
انگریزی اور دوسری زبانوں کی بڑی بڑی ہستیوں کی تراجم شدہ کتابیں پڑھ لی
تھیں۔ وہ بار بار فٹ پاتھوں کے چکر لگاتا اور جب بھی جاتا دو، چار کتابیں
اسے ضرور پسند آ جاتیں۔ چنانچہ اس کے گھر میں کتابوں کی ایک چھوٹی سی
لائبریری نے جنم لے لیا ۔
قدرت ہر پیدا ہونے والی چیز کو فروغ عطا کرتی ہے۔ کوئی برائی پیدا ہو جائے
تو وہ بھی بڑھتی ہے اور اگر کوئی اچھائی پیدا ہو جائے تو وہ بھی نشونما
پاتی ہے۔ غیر مرئی کے ساتھ ساتھ مرئی بھی ایسی ہی خصوصیات رکھتی ہیں۔ یہ
لائبریری بھی فروغ پانے کے لئے ہی بنی تھی۔ ابھی تو آغاز ہی تھا کہ اس میں
سینکڑوں کتابیں آباد ہو گئی تھیں۔
امیرالدین ایم۔اردو پاس کر گیا اور پھر ملازمت کی طلب نے سر اٹھا لیا۔ کچھ
مدت تک ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھانے کا تجربہ ہوا۔ وہاں سے واپسی پر اسے
ایسے لگتا جیسے تھکاوٹ کا پہاڑ سر پے اٹھایا ہوا ہو ۔ اس کا سر بھی درد
کرنے لگتا۔ اور سکول کا کام پورا ہونے میں نہ آتا۔ سکول سے ملنے والی
تنخواہ سے بھی وہ مطمئن نہ تھا۔ لیکن وقت کی گاڑی پیسوں کے بغیر چلتی بھی
نہیں۔ وہیں رک جاتی ہے اور گرگرگر کرنے لگتی ہے۔ وقت کٹی کے لئے کسی متوسط
گھرانے کے نوجوان کے لئے پرائیویٹ ادارے میں کم تنخواہ پر کام کرنے سے
زیادہ کیا مشغلہ ہو سکتا ہے۔ ضرورت بھی تو پوری کرنی ہوتی ہے ورنہ رات کو
نیند بھی نہیں آتی۔ کسی کو دولت کی زیادتی نہیں سونے دیتی اور کسی کو اس کی
کمی ۔ امیرالدین پرائیویٹ سکول میں پڑھانے سے پناہ مانگنے لگا تھا۔ اس کی
اپنی سٹڈی بھی متاثر ہو گئی تھی اور جسم بھی کمزوری محسوس کرنے لگا تھا۔
اسے شدت سے انتظار تھا کہ پبلک سروس کمیشن کی طرف سے لیکچراروں کی اسامیاں
مشتہر ہوں اور وہ اپلائی کرے۔ اس کی زندگی کا بڑا مقصد پروفیسر بننا تھا۔
اسے اور بہت سے گزٹڈ افسری والے عہدوں سے دلچسپی نہ تھا ۔ اس کے مزاج میں
کوئی درویش تھا نا کہ افسر۔ وہ جاہ و حشم سے دور رہنازیادہ پسند تھا۔ اس کا
ایک ہی شوق تھا کہ بہت سی کتابیں ہوں اور وہ انہیں پڑھتا رہے۔
امیرالدین کو پروفیسر بنے بیس سال بیت چکے تھے۔ اس کی بیوی، کلثوم بیگم، اس
کے لئے نیک فال ثابت ہوئی تھی۔ وہ گھر بار کے اکثر کاموں میں اس کا ساتھ
دیتی۔ اس کے چار بچے بھی جوانی کے مراحل طے کرر ہے تھے۔ اس کی اولاد بھی
اسی کی طرح کتاب دوست اور محنتی تھی لیکن ان میں سے کسی کا بھی ذہن تدریس
کی طرف نہ تھا۔ اس کے بچے دوسرے شعبوں کا مزاج لے کر پیدا ہوئے تھے۔ لیکن
خوشی کی بات یہ تھی کہ سارے ہی امیرالدین کے نقشِ قدم چلتے ہوئے تعلیم میں
نمایاں تھے۔ امیرالدین اب بھی کتابوں کی دنیا کا باشندہ تھا۔ اس نے اولاد
کی اچھی پرورش اور تربیت کی تھی لیکن مزاج تو قدرت دیتی ہے ناں۔ بندہ تو بس
باہر کی آبیاری کر سکتا ہے ، مزاج پرسی تو کی جا سکتی ہے لیکن مزاج بدلی
نہیں ۔ اس کی بڑی خواہش تھی کہ کم از کم ایک بیٹا یا بیٹی اس کے کتابی مزاج
کی وارث ہو لیکن وہ سب اس کی حد سے زیادہ کتاب دانی اور کتب گیری دیکھ دیکھ
کے جیسے لاشعوری طور پر کتاب کی ہوس سے متنفر سے ہو گئے تھے۔ یہ فکر
امیرالدین کو کھائے جا رہی تھی کہ اس کی کتابوں کا کیا بنے گا ۔ اس کی بڑی
خواہش تھی کہ وہ اپنے گھر کا ایک بڑ ا سا کمرہ اپنی کتابوں کے نام وصیت کر
دے۔ اس کی کتابیں اب سینکڑوں کا ہندسہ عبور کر کے ہزاروں کی گنتی کر رہی
تھیں۔ اس کی بیوی جو کہ پہلے کتابوں کی موجودگی اتنی مائنڈ نہیں کرتی تھی
اب بہت تنقیدی رویہ اپنائے ہوئے تھی۔ وہ انہیں اپنی نوجوان سوکن کی سی
ناپسندیدگی سے پیش آرہی تھی۔ وہ بار بار پروفیسر کو انہیں گھر نکالا دینے
کا مشورہ دیتی رہتی ۔ ـوہ تو کتابوں کو گھر میں رکھی گئی مرغیوں جتنا قدر
بھی نہیں دے رہی تھی۔ لیکن ابھی پروفیسر امیرالدین کی ریٹائر منٹ نہیں ہوئی
تھی۔ وہ ابھی تنخواہ لیتا تھا اور اپنے ـ’پلیـ ‘ سے جو چاہے خرید سکتا تھا۔
امیرالدین کی اولاد اپنے اپنے فیلڈ میں کامیابی سے منازل طے کر رہی تھی۔
اسے اپنی اولاد پے بہت زیدہ خرچ نہیں کرنا پڑا تھا۔ اس کے بچے اس حقیقت سے
اچھی طرح واقف تھے کہ ان کا باپ پروفیسر ہے جو کہ ان پر رئیسانہ اخراجات
نہیں اٹھا سکتا ۔ وہ خود بھی محنتی تھی اور ایسے طالبعلموں کو ادارے اپنی
رپیوٹ کے لئے وظیفے اور مفت تعلیم بھی دے دیتے ہیں۔ وہ سب اپنی تعلیم مکمل
کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی من پسند ’جاب‘ بھی حاصل کرتے گئے۔اور وقت کے بدلتے
ماحول میں ان کی ترجیحات بھی بدلتی گئیں۔ کسی نے اپنی شادی خود کروا لی اور
کسی کی کر دی گئی۔ وہ سب اپنے اپنے گھروں والے بن گئے تھے۔ امیرالدین اور
اس کی بیوی کو گھر میں ویرانی محسوس ہونے لگی تھی۔ اس کے دو بیٹے اعلی
تعلیم اور پھر ملازمت کے چکر میں یورپ میں مقیم ہو گئے تھے اور دونوں
بیٹیاں بھی اپنے اپنے گھروں میں اپنے شوہروں کا ساتھ خوشی سے زندگی بسر کر
رہی تھیں۔
بعض کو تنگ دستی ماردیتی ہے اور بعض کو کشائش لے بیٹھتی ہے۔ امیرالدین اس
لحاظ سے تو خوش قسمت تھا کہ اس کی ساری اولاد خوشحال تھی ۔ لیکن اس لحاظ سے
تنگ بخت تھا کہ اس کے پاس کوئی بھی نہ ٹھہرا تھا۔ وہ اور اس کی بیوی تنہائی
کے ہاتھوں زندگی سے تنگ آنے لگے تھے۔
دونوں بیٹے،فصیح الدین اور رفیع الدین، یورپ کی آزاد، مہذب اور محنتی فضاؤں
میں زندگی بسر کر ہے تھے۔ کسی کا بھی واپس آنے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ پتہ
نہیں یورپ جا کر لوگوں کو کیا ہو جاتا ہے ،واپسی کا رستہ ہی بھول جاتے ہیں
یا انہیں واپسی کے ٹکٹ نہیں ملتے۔ آخر کچھ تو ہے جو یورپ جانے والے واپس
نہیں آتے۔ وہاں کی چمک آنکھوں کو اس قدر چندھیا دیتی ہے کہ انہیں باقی ہر
جگہ اندھیرا دکھنے لگتا ہے۔ وہ تو بس انٹرنیت پر بات کرنے کے ہی مجاز تھے
اور اکثر تو ان کے پاس اس کے لئے بھی ٹائم نہ ہوتا۔ وہ اپنی مصروفیات میں
اس حد تک محو ہو گئے تھے کہ جیسے ان کا دنیا میں کسی اور سے کوئی سروکار ہی
نہ ہو۔ انسان ، مشین کی نفسیات میں ڈھلتے جا رہے تھے اور جو دو دن فرصت کے
ملتے ،ان میں وہ حیوانوں کی حدود بھی عبور کر جاتے۔ خیر باہر کی زندگی کی
اپنی اخلاقیات اور ذہنی تسکین ہے۔ ایشیا قدامت پسندی کا رونا روتے روتے
دقیانوسی رہ گیا ہے، نئے جہاں تخلیق کرنے کے لئے اخلاقیات بھی تو نئی ہو نی
چاہیئے۔سو ا س کام کا بیڑا یورپ نے اٹھایا ہے۔ اور امیرالدین کے دونوں بیٹے
بھی اسی مزاج اور نفسیات میں ڈھل چکے تھے۔ ان کی واپسی کی راہیں بہت تنگ ہو
چکی تھیں جن پر چلنا کوئی عقل مندی کی بات نہ تھی۔
امیرالدین کی دونوں بیٹیاں ،سلمیٰ اور کرن ،بھی اچھے گھروں کی بہوئیں بنی
تھیں۔ انہیں بھی اب اپنے باپ کا گھر پرانا، پرانا، اور گھٹیا گھٹیا لگنے
لگا تھا۔ وہ اس گھر میں زیادہ دن رہنے کے لئے نہیں آتی تھیں۔ بس ایک دو دن
۔ ان کے بچے یہاں سے جلدی چلے جانے کا شور کرنے لگتے۔ وہ کہتے کہ انہیں
یہاں ڈر لگتا ہے جیسے یہ کوئی چڑیلوں کا گھر ہو ۔ وہ بہت ہی نفیس گھروں میں
رہنے کے اتنے عادی ہو چکے تھے۔ انہیں اپنے گھر کے مقابلے میں یہ گھر بالکل
پسند نہ آتا۔ان کا اس گھر میں دل ہی نہ لگتا۔ ان کی ضد پر ان کو جلد ہی
واپس لے جانا پڑتا۔ امیرالدین کی بیٹیاں بھی ان کو اپنے گھروں میں آنے کی
دعوت دیتیں، اور وہ جا تے بھی۔ لیکن بیٹیوں کی گھروں میں زیادہ دن رہنا
یہاں کے ماحول میں مناسب نہیں لگتا،لوگ اچھا نہیں سمجھتے ۔ خاص طور پر آدمی
کے لئے بیٹی کے گھر میں جا کر رہنا بہت مشکل ہے۔ ویسے تو آدمی کی نفسیات
میں اپنے گھر کے علاوہ کسی بھی دوسرے گھر میں رہنا دوبھر ہوتا ہے لیکن خاص
طور پر بیٹی یا بہن کے گھر میں زیادہ وقت گزارنا زیادہ مشکل جاپتا ہے ۔
امیرالدین کی بیوی تو اصرار کرتی رہتی کہ وہ اپنی بیٹیوں کے گھروں میں
زیادہ دن رہ لیا کریں، لیکن امیرالدین بس ایک دو دن میں ہی اکتا جاتا اور
پھر اس کے اکیلے پن کی وجہ سے اس کی بیوی کو بھی نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے
ساتھ ہی واپسی کی راہ لینے پڑتی۔
امیرالدین کی ریٹائر منٹ ہوئے پندرہ سال گزر چکے تھے۔ اس کی شریکِ حیات کو
ملکِ عدم کی راہی بنے بھی پانچ سال بیت چکے تھے۔ وہ اب تنہائی کی شدید قید
با مشقت کا اسیر تھا۔ اس نے حمیداں اور اکرم کو تھوڑی سی تنخواہ پر جز وقتی
ملازمت پر رکھ لیا تھا کہ اس کا کچھ وقت پاس ہو اور گھر کی صفائی وغیرہ
جیسے ضروری کام بھی ہو جائیں۔ حمیداں اس کی چائے اور کھانا وغیرہ تیار کر
کے چلی جاتی اور اکرم اسے باہر کے ایک دو چکر لگوا لاتا۔ حمیداں اور اکرم
انتہائی غریب میاں بیوی تھے۔ دونوں فطرتاً نیک اور عاجزی پسند تھے یا ان کی
غربت نے انہیں یہ رویہ دیا تھا۔ اب بھی وہ اکثر فٹ پاتھ پر جا کے بیٹھتااور
کتابیں بیچنے اور خریدنے والوں کو دیکھا کرتا۔ کتابیں بیچنے والے پہلے ہی
اس کے واقف تھے۔ وہ اسے ادب و احترام سے بٹھاتے اور وہ وہاں چند گھنٹے گزار
آتا۔ اب اسے کتابیں خریدنے سے نہیں بلکہ صرف کتاب دیکھنے سے دل چسپی تھی۔
وہ اچھی لگنے والی کتاب کو کافی دیر دیکھتا رہتا ۔ اور آنکھوں کے پپوٹے
سکیڑ سکیڑ کر انہں پڑھنے کی کوشش بھی کرتا ۔اس کی دل چسپی بھی اس کے ساتھ
ساتھ بوڑھی ہو گئی تھی۔ وہ اب کتابیں خریدنے سے باز آ چکا تھا جس کا مشورہ
کافی سال پہلے اس کی زوجہ محترمہ مرحومہ دیا کرتی تھی۔ انسان بھی کتنا عجیب
ہے زندہ بندوں کی بات ماننے سے بغاوت کرتا ہے اور جب وہ لوگ دنیا سے چلے
جاتے ہیں تو پھر ان کا پیرو کار بن بیٹھتا ہے۔ اب تو اسے کبھی کبھی یہ خیال
بھی آتا کہ کیوں نہ اپنے جیتے جی اپنی کتابوں کا ذخیرہ بھی کسی کتاب
کباڑیئے کے ہاتھ فرخت کر دے لیکن کئی بار سوچ سوچ کے بھی اسے یہ کام کر
دینے کی ہمت نہ پڑتی۔ یہ کام آسان بھی نہیں ہوتا کہ اپنے ہاتھ سے بنائے
ہوئے بت توڑ دیئے جائیں۔وہ اس خیال کو کسی اور وقت پر ٹال دیتا ۔ اس کی رات
تنہائی کی انتہا کر دیتی۔ اب تو راتیں بھی سال سال لمبی ہو گئی تھیں۔ صبح
کے انتظار میں کتنے سال بیت جاتے تب جا کے اس کے کانوں میں مساجد سے آنے
والی اذانوں کی آوازیں سنائی دیتیں۔وہ اب اکیلا مسجد بھی نہیں جا سکتا تھا۔
پہلے تو وہ پانچوں نمازیں ہی مسجد میں ادا کیا کرتا لیکن اب تو اشاروں سے
نمازیں پڑھنے کی نوبت آگئی تھی۔
اس کے بیٹے اسے یورپ لے جانے کی دعوت دیتے رہتے تھے اور بیٹیاں اپنے پاس لے
جانے کی۔ لیکن پروفیسر امیرالدین اچھی طرح جانتا تھا کہ کسی کے پاس بھی اس
کے لئے وقت نہیں ہے۔ وقت نے ہر کسی کو اس قدر’ بِزِ ی‘ کر دیا ہے کہ اب تو
فون پر بات کرنے کا بھی وقت نہیں ملتا۔ یہ بات اس کے ذہن میں تھی کہ یورپ
کی مصروف نئی نسل اپنی پرانی نسل کو اولڈ ہاؤزز میں جمع کروا کے اپنے فرائض
سے بری الذمہ ہو جاتی ہے۔ وہ کسی اولڈ ہائس میں جا کر مرنے کی بجائے اپنے
ہی گھر میں مرنے کو ترجیح دیتا ۔وہ اپنی بیٹیوں کے گھروں میں جا کر اپنا
انجام’ کنگ لیئر‘ جیسا نہیں کروانا چاہتا تھا۔ وہ اپنے اسی چڑیلوں کے گھر
میں ہی اپنا آخری سانس بکھیرنا چاہتا تھا۔
اب وہ مشرق و مغرب کے درمیان کسی تنگ سی انسانی خلیج کا باشندہ تھا۔ جہاں
زیادہ لوگ نہیں آتے۔ اس کے کئی ایک دوست بھی دنیا سے جا چکے تھے۔ کچھ سعادت
مند شاگرد جو اچھے وقتوں میں اس کی شاگردی میں آئے تھے کبھی کبھار اسے ملنے
چلے آتے۔ لیکن جملہ احباب کے پاس ایک ہی جملہ تھا کہ بس ’سر وقت نہیں ملتا
، دل تو بہت چاہتا ہے آپ کے پاس آنے کو ۔‘ لیکن امیرالدین نے بھی کوئی دھوپ
میں بال سفید نہیں کئے تھے وہ انسانی نفسیات سے خوب واقف تھا کہ محروم
لوگوں کے لئے کسی کے پاس وقت نہیں ہوتا ۔ زندگی آخر انسان کو فٹ پاتھ کی
نذر کر دیتی ہے ۔ کتاب اور انسان کا مقدر ایک ہی ہے۔ کتابیں گونگی، بہری ،
لولی، لنگڑی دانائی ہوتی ہیں اور خود سے کچھ نہیں کر سکتیں۔ یہی حال انسان
کا بڑھاپے میں ہو جاتا ہے۔ وہ مجبورِ محض بن کر اپنی سانسیں پوری کرتا ہے۔
کتابوں کو فٹ پاتھوں پر یوں بکھیر دیا جاتا ہے جیسے قبرستان میں لاشیں مٹی
کی چادر تلے بکھری ہوتی ہیں۔
کتابوں کے ساتھ فٹ پاتھ پر بیٹھے بیٹھے ریٹائرڈ پروفیسر امیرالدین کو ایسے
لگتا جیسے وہ خود بھی ایک پرانی سی، بوسیدہ کتا ب ہو ۔ جسے پڑھنے والا اب
کوئی نہیں تھا۔ فٹ پاتھ پر پڑی کتابیں بھی پاس سے گزرنے والے حسین چہروں کو
دیکھتی رہ جاتیں۔ کبھی یہ کتابیں ان حسینوں کے ہاتھوں میں فخر محسوس کیا
کرتی تھیں لیکن اب یہ نوجوان، امیرالدین کی طرح ان کو بھی نظر انداز کر چکے
تھے۔ ہر نوجوان کے ہاتھ میں موبائل ، لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ وغیرہ ہی نظر آتا ہے ۔
کسی کو کتاب سے کوئی علاقہ ہی نہیں لگتا۔زمانے کو کیا ہو گیا ہے۔ کتاب کی
اتنی ناقدری۔ کتاب جس نے انسان کو حیوان سے انسان بنایا ہے فٹ پاتھ ہی کہ
زینت کیوں ۔ بڑھاپا بھی ایسی ہی سوچ کا طلب گار ہے۔ لیکن نیا پرانے کو کب
دیکھتا ہے۔ پرانا تو ہوتا ہی فٹ پاتھ کے لئے ہے۔ یہ کوئی آج کا چلن تھوڑا
ہے۔ انسانی نفسیات اور مزاج ہیں ہی ایسے۔یہ نئی نسل کا قصور نہیں ، ہوتا
آیا ہے۔
امیرالدین کو شدت سے دنیا سے کوچ کر جانے کی خواہش تھی لیکن پتہ نہیں
عزرائیل اتنا مصروف کیوں ہے کہ پروفیسر صاحب کا حال پوچھنے آتا ہی نہیں،
کتنی بار بلایا ہے۔اب پروفیسرپر رونے والی آنکھیں نظر نہیں آ رہی تھیں۔وہ
بہت پر سکون تھا لیکن کتابیں اب بھی وہ کتاب کباڑیئے کے سپرد نہیں کرنا
چاہتا تھا۔پتہ نہیں کیوں۔ اب تو وہ کتابِ زندگی بھی پڑھ چکا تھا۔ اب اسے
کون سی کتاب پڑھنے کی ضرورت تھی۔ ساری کتابیں تو انسان اسی ایک کتاب کی
تفہیم کے لئے پڑھتا ہے۔ کتابوں پر گرد کی دبیز تہوں کا راج تھا۔ وہ کتابوں
کو اپنے اندر دفن کر لینا چاہتی تھیں۔ مٹی کی فطرت ہی ایسی ہے ہر چیز کو
کھا جانا چاہتی ہے۔ انسان کو بھی۔ اس سے بچنے کے لئے انسان کو الفاظ کی
پناہ لینی پڑتی ہے۔ جو اپنے گرد الفاظ کا ملمع کر لے وہ دفن ہونے سے بچ
سکتا ہے ورنہ مٹی کسی کو نہیں بخشتی۔امیر الدین بھی ایسا کر چکا تھا۔ وہ
کئی ایک کتابیں لکھ چکا تھا۔ اس کی علمی، ادبی حلقوں میں قدر تو تھی لیکن
اس کی عوام کی سطح پر کوئی شناسائی نہ تھی۔ وہ اپنے کام سے مطمئن تھا۔ لیکن
یہ اطمینان اس کی خواہش سے کم تھا۔ وہ ملکی یا عالمی سطح کا نامور انسان
نہیں بن سکا تھا۔ اور اب زندگی کی مہلت بھی ختم ہو رہی تھی۔
امیرالدین کی چھوٹی بیٹی اپنے شوہر کے ساتھ کار میں آئی اور اکرم اور
حمیداں کے گھر سے اپنے والد کے گھر کی چابیاں لیں اور دروازے کھولے۔
امیرالدین کو دنیا سے رخصت ہوئے ایک ماہ ہو گیا تھا۔ ’ ہمیں یہ کتابیں اور
گھر کا سارا فرنیچر اور باقی سامان فروخت کر دینا چاہیئے‘ کرن کے شوہر نے
کہا ۔ ’نہیں، کتابیں رہنے دیں‘ کرن نے جواب دیا ۔ ’انہیں کون پڑھے گا ۔ ان
کا کیا فائدہ، آج کل ہر اچھی کتاب نیٹ پر آ چکی ہے۔ انہیں ہم کہاں لے کے
جائیں گے۔ مکان بھی تو فروخت کرنا ہے ؟‘ اس کے شوہر نے اسے چپ کرادیا ۔
’چلو ٹھیک ہے۔ کسی کباریئے کو لے آؤ۔‘ کرن اپنی بات کا دفاع نہ کر سکی۔
فٹ پاتھ پر پروفیسر امیرالدین کے گھر سے آنے والی کتابوں کی سیل لگی تھی۔
کئی ایک متوسط گھرانوں کے نوجوان ان کتابوں کو اٹھا اٹھا کر اندر باہر ،
اوپر نیچے سے دیکھ رہے تھے۔ پاس ہی وہ کرسی پڑی تھی جہاں امیرالدین بیٹھا
کرتا تھا۔’ یہ کتابیں پروفیسر امیرالدین کے گھر سے آئیں ہیں۔ بہت اچھی حالت
میں ہیں ۔ بڑی نایاب ہیں۔‘ کتابیں بیچنے والا ان طالب علموں کو بتا رہا
تھا۔’ وہی امیر الدین جس کا پچھلے ماہ انتقال ہوا تھا؟‘ ایک نوجوان نے
پوچھا ۔ ’ہا ں وہی‘ کتاب فروش نے کہا۔ |
|