وقت کی قدر!

 گزشتہ دنوں سال کا آخری سورج غروب ہوگیا، اس منظر کو ٹی وی چینلز نے خوب نمایاں کرکے دکھایا، بات اسلام آباد سے شروع ہوئی اور کراچی اور کوئٹہ تک پہنچ گئی۔ یہ معلوم نہیں ہوسکاکہ ایک ہی سورج جب ایک مرتبہ غروب ہوچکا تھا تو اس کو دوبارہ غروب کروانے میں کیا حکمت تھی، تاہم بہت سے شہروں میں ان کا اپنا اپنا سورج غروب ہوا تھا، شاید اس لئے سب کی اہمیت الگ تصور کی گئی۔ ٹی وی چینلز کی کاروائیوں سے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے ان کی یہی کوشش ہو کہ سورج کو کچھ دیر روک لیا جائے، مگر یہ کسی کے بس کا روگ نہ تھا۔تاہم نمائندوں نے سورج کے غروب ہوتے وقت سال بھر کی کارکردگی اور اگلے برس کی توقعات بیان کر کے خود کو مصروف کرلیا تھا۔ اگرچہ سال بھر میں یہ واقعہ 365مرتبہ رونما ہوا، مگر اکتیس دسمبر کے غروب آفتاب کی اہمیت اس لئے بہت زیادہ تھی کہ یہ سال کا آخری سورج تھا، اگلے برس بھی سورج کے طلوع و غروب کا عمل جاری رہے گا، یہ وہ کاروائی ہے جس کے لئے نہ کسی کی ڈیوٹی ہے، نہ وقت کی پابندی کا مسئلہ ہے اور نہ ہی انتظامات مکمل کرنے پڑتے ہیں۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا متعین نظام ہے، جو اس کے ایک ’’کُن‘‘ کہنے سے ہو جاتا ہے اور ہورہا ہے۔ سورج، چاند اور ستاروں کی گردش ہمارے لئے غور کی چیزیں ہیں، انہی گردشوں سے شام وسحر کا تعین ہوتا ہے، انہی سے ماہ وسال کا حساب لگایا جاتا ہے اور انہی سے موسموں کی تبدیلی کی کہانی جنم لیتی ہے۔

کہنے کو تو سال پلک جھپکنے میں گزر جاتا ہے، مگر دیکھا جائے تواس میں مہینوں، دنوں، گھنٹوں وغیرہ کی مقرر تعداد موجود ہے، بس اس کا استعمال ایک اہم مسئلہ ہے، جو بحیثیت مجموعی ہماری پوری قوم کا مشترکہ ہے۔ وقت کی ایک بہت ہی بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ کبھی رکتا نہیں، جو اس کے ساتھ چلنے کی کوشش کرے گا، کامرانی آگے بڑھ کر اس کے ساتھ ہولے گی اور جو لوگ وقت کی قدر نہیں کرتے، وہ پیچھے رہ جاتے ہیں، دنیا آگے گزر جاتی ہے اور رکنے والے قدموں نے نیچے کچلے جاتے ہیں۔ جو فرد دوڑنے کے کسی مقابلے میں شریک ہی نہیں ہوگا، اسے کامیابی کہاں سے ملے گی؟یہ فطری بات ہے کہ کسی بھی مقررہ مدت کے پورے ہونے پر جذبات بھی مخصوص قسم کے ہوتے ہیں، گزرے وقت کی اچھی اور بری یادیں، گزرے وقت کی مصروفیات سے مرتب ہونے والے اثرات ، آنے والے وقت کی منصوبہ بندی ، دعاؤں اور نیک تمناؤں پر بات چیت کی جاتی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ماضی کو بھول کر آگے سفر جاری رکھا جائے، ماضی خراب تھا تو رونے دھونے کی بجائے محنت اور منصوبہ بندی کی جائے، ماضی بہت اچھا تھا تو اس کی اچھائی کو برقرار رکھا جائے، اگر خدانخواستہ تابناک ماضی چھِن گیا ہے تو اسے یاد کرکر کے بھی اپنا خون نہ جلایا جائے، بلکہ آگے کی فکر کی جائے۔ ماضی کو یاد رکھنا بہت ضروری ہے، تاہم ماضی کو صرف یاد رکھنے اور سبق حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جانا چاہیے، اگر ماضی کی صورت میں کوئی تجربہ ہمارے سامنے نہیں ہوگا تو ہم غلطیاں دوبارہ دہرا سکتے ہیں، کہتے ہیں تاریخ خود کو دہراتی ہے، اس صورت میں تو ماضی سے سبق سیکھنا اور بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم وہ غلطیاں دوبارہ نہ کریں جو ماضی میں ہم سے سرزد ہوگئی تھیں۔ اسی طرح جو اچھے کام تاریخ میں درج ہیں، ان کا جاری رہنا بھی نہایت ضروری ہے۔

اب فارغ بیٹھے رہنے کا زمانہ نہیں رہا، دیہات میں اب بھی بہت سے لوگ کچھ وقت فارغ ہی رہتے ہیں، ان کا مسئلہ تو یہ ہے کہ ان کا فرض کھیتوں میں کام کرنا ہے، فرصت کے اوقات میں وہ لوگ فارغ بیٹھ سکتے ہیں، مگر یہ روایت شہروں میں بھی عام ہے۔ شاموں کو لمبی محفلوں کا کلچر ہے، گھنٹوں بیٹھے بے مقصد گپ شپ کی جاتی ہے، اس مصروفیت کو وقت پاس کرنے کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ ہم وقت پاس نہیں کرتے، بلکہ وقت ہمیں ضائع کر رہا ہوتا ہے۔ صدمے والی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے وہ نوجوان جو مختلف عمر میں مختلف کلاسوں اور اداروں میں پڑھ رہے ہوتے ہیں وہ بھی گھنٹوں کسی گلی، یا کسی گراؤنڈ کے کونے میں بیٹھ کر وقت ضائع کرتے ہیں، وہ کن معاملات پر گفتگو کرتے ہیں، اس بارے میں زیادہ گہرائی تک جانے کی ضرورت نہیں، لیکن اتنا ضرور ہے کہ وہ خود ضائع ہورہے ہوتے ہیں۔ آئیے! نئے سال کی ابتدا میں ہی ہم سب تہیہ کریں کہ ہم وقت کے ضیاع کے نام پر اپنے آپ کو ضائع نہیں کریں گے، اپنے لئے، اپنے معاشرے اور ملک کی بہتری کے لئے کام کریں گے۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472460 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.