2016ء ۔۔۔امید کی کشتی۔۔؟

وقت کے میزان میں ایک اور سال کم ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی 21ویں صدی کا پندرہویں باب اختتام پذیر ہوا،اور آج سولہویں باب کا پیش لفظ لکھا جا رہا ہے ،ہندسوں کی گنتی کتنی ہی آگے بڑھ جائے مگر ماضی کا اور تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے اگرچہ بیتے لمحے واپس نہیں آتے ہیں لیکن وہ مستقبل کے لئے سامان عبرت ضرور فراہم کرتے ہیں تا کہ ہم اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے آنے والے لمحوں پر اپنی گرفت ضرور مضبوط کر سکیں ،2015ء میں کئی تلخ و شیریں یادوں کے ساتھ ساتھ ماضی کے خرابے میں محوخواب ہے ،سوال یہ ہے کہ اب اذیت ناک ماضی کی نقاب کشائی کریں یا کرب انگیز حالات کی گواہی دیں یا ان صفحات کو نکال دیں جو کٹے پٹے ہیں ،گئے دنوں کا حساب کا شمار کیسے کریں ۔۔۔۔؟سن دو ہزار پندرہ کے بارہ ماہ میں کتنی جوشیلی تقریریں ہوئی ،کتنی بر یکنگ نیوز طوفان بن کر ابھریں ،کتنے خواب چھن چھن کر کے ٹوٹے، بوسیدہ بنیاد پر نوجوانواں کے مستقبل کا شیش محل تیار کیا جاتا رہا ،لیکن نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں ا’ٹھائے بے روز گاری کی انجمن بنائے وقت کے بے رحم کے ملتجی رہے،2016ء کے 365صفحات میں بحث کرنے کے لئے بہت سے موضوعات ہیں ،سیاست،کرپشن،امن و امان،تصادم،اختیارات کی جنگ،ترقیاقی منصوبے، لورڈشیڈنگ کا جن، بے روزگاری، مہنگائی، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے مگر احساسات ہتھیلیوں کو ’’توے‘‘ کی طرح گرما کر انگارے بنا رہے ہیں ،گرم گرم الفاظ انگلیوں کی پوروں سے برساتی نالوں کی طرح امڈ امڈ کر بکھیر رہے ہیں اگرچہ غم اور صدمے کو برداشت کرتی زندگی کا قافلہ رواں دواں ہے ،لیکن 16واں پیش لفظ قلم بند کرتے ہوئے گزشتہ سال کی تصویریں آنکھوں کی اسکرین پر ابھر رہی ہیں ،سب سے بڑا چیلنج ’’دہشت گردی‘‘ کے خاتمے کے لئے جس طرح نہ صرف حکومت اور افواج پاکستان بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کو ہم آواز کیا ہے اسی طرح کا اعتماد و اتفاق 2016ء میں بھی درکار ہو گا تا کہ اس لعنت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا جائے ،ہم اپنے تمام فوجہ افسران ،جوانوں اور عام لوگوں کو جنہوں نے اس جنگ میں بے مشال قربانیاں دیں کے لئے دل سے دع گو ہیں ،یہاں پر بہادر کرنل شہید شجاع خانزادہ کے لئے بھی دعا گو ہیں اﷲ ان کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ عطا ء فرمائے ،کئی دہائیوں کے بعد پہلی بار ہوا ہے کہ کراچی میں بڑی حد تک امن ہوا ہے جس کا کریڈٹ حکومت اور رینجرز کے ساتھ ساتھ کراچی کی عوام کو بھی جاتا ہے اور یہ آپریشن بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے رینجرز اختیارات کا مسئلہ بھی اہم ہے گو کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور سائیں قائم علی شاہ کی ملاقات ہو چکی ہے اور وزیر داخلہ چوہدری نچار علی کان کو کراچی جا کر مسئلہ حل کرنے کا ھکم دیا ہے ،یہ پکستان کی خوش قسمتی ہے کہ پاک چاہنہ اقتصادی راہداری کے 46بلین ڈالرز کے معاہدوں پر عمل شروع ہو چکا ہے جس کا مغربی روٹ کا افتتاح کر دیا گیا ہے جو پاکستان کی قسمت بدل کر رکھ دئے گا ،ایک اسپشل فورس بھی تیار کی گئی ہے جو اس منصوبے پر کام کرنے والے چینی ماہرین اور راہدری کی حفاظت کرے گی ،اور یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ تمام قوتیں اور سیاسی جماعتیں کا راہداری پر مکمل اتفاق ہے ،2016ء میں بھی نواز شریف حکومت کا بڑا مسئلہ بجلی کی لورڈ شیڈنگ کا ہو گا ،سردیوں میں ابھی مسئلہ گیس کا ہے کہ صارفین کو بجلہ کے ساتھ ساتھ گیس کی کمی کی وجہ سے شدید پریشانی کا سامنا ہے تاہم بجلی کی لورڈشیڈنگ انڈسٹری کو ختم کر دہی گئی ہے اور وزیر اعظممیاں نواز شریف با ربار اعلان کر چکے ہیں کہ 2017ء کے آخر میں مکمل قابو پا لیں گئے ،کیونکہ اس وقت کافی منصبوبے ایسے ہیں جن پر تیزی سے کام ہو رہا ہے ،کئی ماہ سے قطر کے ساتھ ایل این جی کی ڈیل ایک مذاق بنا ہوا ہے وزیر موصوف بار بار کہہ رہا ہے کہ ابھی معاہدہ ہونے والا ہے مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا ہے ،یہ بھی حکومت کے دامن پر ایک داغ ہے جیسے جلد دھونا ہو گا تا کہ گیس کی کمی پر قابو پایا جا سکے ،پاک بھارت امن مذاکرات بھی بڑا معاملہ ہو گا اور انڈیا کو اب پاکستان سے مذاکرات شروع کرنے کے علاوہ کوئی چارا نہ ہے ،۔۔۔۔؟نئے سال2016ء کے آغاز پر تکایف دہ سوالات کی یلغار عوام کے ذہنوں پر ہو رہی ہے وہ سوچی رہے ہیں کیا نئے سال میں دہشت گردی کا سایہ نہیں پڑے گا ۔۔۔؟ اغواء ،ڈاکہ زنی،کی وارداتیں ختم ہو جائیں گی ،ہمارے بچوں کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہو گا ہر طرف ایک مخمصہ ہے ،ایک الجھن ہے کہ سمجھ نہیں آ رہا کہ ملک میں سیاسی سطح پر کیا ہو رہا ہے ۔۔۔۔؟ کیا ہونے والا ہے ۔۔۔؟ بہر ھال زندگی امید کی محبوبہ ہے اور بقول نیولین بو نا پارٹ ’’لیڈر امید کے دیلر ہوتے ہیں ‘‘ اگرچہ تاریکی کے خدشات تو بہت ہیں پھر بھی امید کی کرنیں جھانک رہی ہیں اب نئے عمل کا دور اپنے جنم کا منتظر ہے ہم ایک نئے دور مین داخل ہو چکے ہیں ہمیں اپنے ھال اور مستقبل کے لئے پوری سنجیدگی سے سوچنا ہو گا ہم اپنے ارگرد کے اندھیروں کو اس طرح متا سکتے ہیں جس طرح مٹی کا دیا تاریکیوں کو ۔۔۔۔کاش 2016ء میں انسانوں کے انقلابی عمل سے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی یہ دنیا روشنیوں کا چھلکتا ہوا ساگر نظر آئے ۔۔۔۔۔لیکن 2015ء کا باب نہ بھولیں۔۔۔۔۔۔۔۔لوٹ پیچھے کی طرف اے ۔۔۔گردش ایام تو۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Dr M Abdullah Tabasum
About the Author: Dr M Abdullah Tabasum Read More Articles by Dr M Abdullah Tabasum: 63 Articles with 43928 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.