وزیر اعلیٰ سندھ ۔ ڈھکن !
معاف کیجیئے گا عنوان میں کچھ کمی رہ گئی اس لہذا اسے اس طرح پڑھا اور
سمجھا جائے ’’ وزیر اعلیٰ سندھ کی تصویر والے مین ہول کے ڈھکن لگانے پر
وزیر اعلیٰ کا اظہار برہمی‘‘۔ اخباری اطلاعات کے مطابق کراچی میں گٹروں کے
ڈھکن لگوانے کیلئے سوشل میڈیا پر جاری مہم نے کارگر اثر دکھایا اور سندھ کے
بزرگ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے زچ ہوکر بالاخر ایڈمنسٹریٹر کراچی سجاد
عباسی سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے معصومانہ
استفسار کیا کہ آیا گٹر کے ڈھکن لگوانا بھی وزیر اعلیٰ کا کام ہے؟
شکر ہے کہ بالاخر وزیراعلیٰ صاحب نے متعلقہ ادارے سے رابطہ کرتے کیا اور
مزید یہ دریافت کی بھی کوشش کی کہ آخر وزیر اعلیٰ سندھ کی حیثیت سے ان کے
فرائض منصبی میں کیا کچھ شامل ہے ؟ ہمیں امید ہے کہ سندھ حکومت کے نامزد
(منتخب نہیں) ایڈمنسٹریٹر کراچی جناب سجاد عباسی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے
کراچی کی عوام الناس کی فلاح کے پیش نظر وزیر اعلیٰ صاحب کے گوش گزار یہ
حقیقت واشگاف انداز میں بیان کریں گے کہ جناب جب تک بلدیاتی منتخب نمائندوں
کو اختیارات اور وسائل فراہم نہیں کیئے جاتے اس وقت تک وزیراعلیٰ صاحب
بحیثیت کپتان گٹروں کے ڈھکن لگانے پر بھی معمور ہیں کیونکہ نامزد
ایڈمنسٹریٹر ز دراصل صوبائی حکومت کے ماتحت ہی کام کرتے ہیں اور صوبائی
حکومت کے آئینی کپتان دراصل معمر وزیر اعلیٰ ہی ہیں جس طرح وزیر اعلیٰ صاحب
نے اس وقت اس واقعہ پر نوٹس لیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر جاری مہم کہ جس میں اجہاں کہیں
گٹر کے ڈھکن غائب تھے وہاں مصور نے وزیر اعلیٰ صاحب کی تصویر پینٹ کرکے
لگانی شروع کردی تھی اب یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ گٹر کا کھلا مین ہول
کس طرح وزیر اعلیٰ صاحب کے چہرے کی رعنائیوں اور شگفتگی سے چھپ پاتا ہوگا۔
مزید یہ کہ وزیراعلیٰ صاحب نے کے ایم سی اور ڈی ایم سیز کو ہدایات دیتے
ہوئے فرمایا کہ آپ شہریوں کی پریشانی کا احساس کریں اور فوری طور پر کھلے
مین ہولز کے ڈھکن لگوائیں۔ گستاخی معاف ! وزیر اعلیٰ صاحب کی ان ہدایات سے
یہ بات واضع نہیں ہوئی کہ شہریوں کی پریشانی کیا مین ہول پر ان کی تصویر سے
مزین ڈھکن دیکھ کر ہورہی ہے ، اور ہدایات کا یہ حصہ کہ فوری طور پر کھلے
مین ہولز کے ڈھکن لگوئیں جائیں تو کیا ان کا مقصد یہ ہے کہ ان کی تصویر
والے ڈھکن ہی لگائے جائیں یا بغیر تصویر والے۔ اگر انصاف کی نظر سے (تحریک
انصاف کی نظر سے نہیں ) دیکھا جائے تو یہ بات قابل ذکر ہے کہ دراصل وزیر
اعلیٰ صاحب کی تصویر والے ڈھکن لگانے کی مہم کی وجہ سے ہی کراچی میں کھلے
مین ہول کو مستقبل قریب میں بالاخر ڈھکن نصیب ہونے والے ہیں (کہ جمہوریت ہی
بدترین انتقام ہے) ، تو چونکہ کریڈٹ وزیر اعلیٰ صاحب کو جاتا ہے کہ جنہوں
نے احکامات جاری کیئے لہذا یہ حق تو وزیراعلیٰ صاحب کا بنتا ہے کہ اگر وہ
مناسب سمجھیں تو اپنی تصویر سے مذین ڈھکنوں کو ہی مین ہولز کی زینت بننے
دیں کہ جس طرح کسی منصوبے کے افتتاح پر مہمان خصوصی کا ہی زکر خیر ہوتا ہے۔
ویسے گستاخی معاف بھولا بھالا کل کہہ گیا تھا کہ حکومت سندھ کے زیر اثر
اداروں میں بے شمار ڈھکن ہی کار حکمرانی پر تعینات ہیں ۔
بحرکیف اس بات کا کریڈٹ تو سوشل میڈیا کو دیا جانا چاہیے کہ شہر قائد میں
بے شمار مسائل میں سے چند ایک ، چاہے گٹر کے ڈھکن لگانے کا مسئلہ ہی کیوں
نہ ہو اس پر سوشل میڈیا نے پراثر نتائج مرتب کرتے ہوئے اقتدار کے اعلیٰ
گٹروں (معاف کیجیے گا اعلیٰ ایوانوں) میں بے چینی اور سراسمیگی پھیلا دی
تھی ۔ بھلا بتائیے کہاں ہمارے حکمرانوں کے لشکارے اور کہاں ان کی تصاویر
والے مین ہولز۔ اب دیکھتے ہیں کہ چند دنوں بعد کھلے مین ہولز پر ڈھکن تصویر
والے لگتے ہیں یا بغیر تصویر والے ! |