ہم کہ جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں۔

دعا تقدیر بدل دیتی ہے۔
ایسا ہی ہے لیکن بغور دیکھا جائے تو دعا انسان کو عملی زندگی سے دور بھی کر رہی ہے۔گزری دہائیوں اور مذہب کی غلط تشریح سے میں ایک بات یہ بھی سمجھا ہوں کہ عمومی طور پر ہمارے مسلمان اور خاص کر پاکستانی مسلمان دعا کا اصل معنی اور حقیقت یا تو بھول چکے ہیں یا پھر ہمارے مولویوں نے کچھ ایسی ذہنی
آبیاری کی ہے کہ ہم اس کے اصل معنی کو جانتے ہوئے بھی حقیقت آشنا نہیں ہونا چاہتے۔
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر اٹھتے ہیں حجاب آخر۔

زندگی کی تین دہائیاں جس میں طفلانہ دور بھی شامل رہا میں بھی دعا کا وہیمطلب سمجھتا رہا جس سے میرے جیسے عقل کل علم رکھتے ہیں۔ مگر کچھ عرصے سے ذہن بدل رہا ہے۔ روائیتی سوچ پر ضرب پڑرہی ہے۔ اب میرے ذہن میں ایک ہی تعریف ہے۔ مجھے اس کے علاوہ کسی بھی تعریف کو ہضم کرنا مشکل ہوگا۔
تاریخ جنگ بدر سے شروع ہوتی ہے۔ مذہب اسلام اپنی قلیل سی عمر کے ساتھ کفار سے نبرد آزما ہے۔

اہل حق دنیاوی لحاظ سے اپنے مال، اسباب، سب جنگ کی تیاری میں جھونک چکے۔ جب سب دنیاوی معاملات اپنے مکمل حیثیت سے تکمیل تک پہنچادیےگئے جب ساری قوت ساری توانائی اپنی بساط کے مطابق کفار کے مقابل جمع کر لی گئی اگر کوئی ایک کانٹا رکھتا ہے تو وہ بھی سامان حرب کا حصہ بن چکا۔ ایسی کوئی چیز باقی نہیں رہی جس پر کوئی اعتراض رہے۔ انفرادی قوت بہت حد تک اجتماعی نظم کی صورت میں بدر کے میدان میں جمع ہے۔ ایسے وقت میں وہ خوبصورت ہاتھ دعا کے لیے اٹھتے ہیں۔سوال مگر وہیں ہے اب
دعا کی کیا ضرورت؟ اب تو بس جنگ ہے۔ اب تو بس دوبدو کسی ایک کی فنائی ہے۔ اب دعا نہیں عمل کا وقت ہے۔ مگر نہیں۔ یہی تو اصل وقت ہے
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اترسکتے ہیں گردوں سے قطاراندرقطار اب بھی

فرما دیا کہ اصل میں سب کچھ عمل ہی ہے۔۔ دعا تو عملی حیثیت کا ایک آخری باب ہے۔ ہم جس دعا کو سب کچھ سمجھ کر بیٹھے ہیں وہ محض ایک جہت ہے۔ درحقیقت یہی وہ فلسفہ ہے۔ جس سے مرد مومن خود کو بیگانہ کرچکا۔ اسلام نے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک ایسا راستہ دے دیا اور دعا کو عمل کے ساتھ منطبق کر دیا۔ بتا دیا کہ دعا ایک ظاہر ی عمل ہےامت کے لیے اب اس کے سوا کوئی راستہ نہیں جسے اختیار کیا جائے اور دعا کے اثرات لیے جا سکیں۔ اگر بات معجزات کی آجائے تو وہ اللہ کے رسول کا خاصہ تھے۔
معجزات کا انتظار یا ان کے پیروی کی کوشش انسان کو عمل سے دور تو کرسکتی ہے مگر عملی زندگی میں اس کی کوئی گجنائش نہیں۔ ایک طرف ایک کروڑ انسان دعا کر رہے ہوں اور دوسری طرف ان ایک کروڑ میں سے ایک بھی عملی طور پر کوشش نہ کر رہا ہو تو مجھے افسوس سے کہنا پڑے گا چاہے یہ دعا کعبے کے لحاف سے بھی لپٹ کر کی جائےتو کچھ اثر نہ رکھے گی۔ یہ کیسے ممکن ہے میں خود باطل کے خلاف نہ کھڑا ہوں اور مسجدوں کلیساوں اورمندروں میں سجدے پر سجدے دیےجاوں اور سب کچھ ٹھیک ہو جانے کی توقع بھی رکھوں؟ اس وقت میں اپنے ملک پاکستان کو اسی موجودہ حالت میں دیکھتا ہوں۔ جہاں معاشرہ اس قدر تیزی سے تنزلی کی جانب رواں ہے مگر مسلمان ہیں کہ بس دعا پراکتفا کیے بیٹھے ہیں۔ سامنے ہوتا ظلم دیکتھے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ ظالموں کے ہاٹھ کاٹے۔ کیا ایسی دعا منہ پر نہ ماری جارہی ہوگی۔ حیف ہے اہلَ منبران کا، افسوس اور حیرت ہے مذہب کے ٹھیکیداروں پر جو صرف عمل کی تلقین تو کرتے ہیں مگر نمازوں کی اور ایسی نماز جو صرف مسجد میں ادا ہو۔ مگر اس کا اطلاق معاشرے پر نہ ہوسکے۔برائی سے روکنے میں مددگار نہ ہوسکے تو ایسی نمازوں پر فکر لازم ہے۔ کسی جگہ پڑھا رزق حلال کھایا کرو تمہاری دعائیں قبول ہونگی۔ ساری دعائیں؟ یقنا نہیں شائد وہی جن کاتعلق محض آپکی زات سے ہوسکتا ہو۔ مگر جہاں اجتماعی صورت حال آئی اور عمل کہیں قریب دکھائی نہ دیاتو سمجھ لیں وہ وعا محض الفاظ ہیں۔ تاثیر سے خالی۔ اس وقت جب ملک کی حالت زار دیکھی جائے اور آپ اپنے کسی بھی بزرگ سے گفتگو کیجیے میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں ایک بھی “سیانا“ آپ کو عملا میدان میں اترنے کا “فضول“ مشورہ نہیں دے گا۔ بس دعا کروا کر اپنی حاضری ضرور لگوانا چاہے گا۔ یہ جو سوچ پیدا ہوچکی۔ اس کی بنیاد جیسے میں نے پہلے بھی عرض کی بہت حد تک ہماری تربیت سے منسلک ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ دنیاوی ترقی کے لیے دعا نہیں عمل کی ضرورت ہے۔ اچھے سکول، بہترین تعلیم کا حصول اور دن رات پڑھائی اچھے مستقبل کی ضمانت ہیں۔ مگر اُسی موقعےپر جب ہم اجتماٰعی نظم کی بات کرتے ہیں۔ معاشرے کی ترقی اور فلاح کا بیڑا اٹھانے کی طرف آتے ہیں۔ یہی والدین، ہمارے بزرگ یہ کہہ کر ہمیں عملی ز ندگی سے خارج کردیتے ہیں کہ ہم اس زمہ داری سے آزاد ہیں۔ اللہ ہی ہے سب کو ٹھیک کرنے والہ ہم تو دعا ہی کر سکتے ہیں۔

یہ سوچ ہمیں عملی زندگی سے دور کرتی ہے۔ عذاب کیا ہے؟ یہی کہ ہم عمل کا وقت محض دعا میں گزار دیں۔ جب ہم انفرادی حیثیت میں کسی برائی سے نبرد آزما نہیں ہوتے تو لازم ہے اس برائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تکلیف پر اکٹھے روئیں۔
 
Muhammad Asif Mehmood
About the Author: Muhammad Asif Mehmood Read More Articles by Muhammad Asif Mehmood: 8 Articles with 6593 views محدود علم کے بعد اس سے بھی محدود عمل.
لکھنے کاشوق. بے مہار سوچ. کسی حد تک سچا بہت حد تک ڈپلومیٹک.
.. View More