سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور (ایک سال)

یوں تو قوموں کی زندگی میں لاتعداد حادثات آتے رہتے ہیں، جن میں کچھ، قدرتی آفات کی شکل میں ہوتے ہیں، اور کچھ کو قومیں خود دعوت دیتی ہیں، کچھ حالات کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں، کچھ قومیں ان حادثات سے سبق لیتی ہیں، اور آنے والے وقتوں کے لئے اسکاسد باب کرتی ہیں، اور کچھ قومیں انہیں فراموش کردیتی ہیں، اور پھر بار بار اسی نوعیت کے حادثات سے نبردآزماء ہوتی رہتی ہیں۔ مشکلات کا شکار ہوتی رہتی ہیں۔ ایسی قومیں بے حس کہلاتی ہیں ۔ہمار تعلق بھی ایسی ہی قوم سے ہے، جو بہت جلد بڑے سے بڑے حادثے کو فراموش کردیتی ہے۔ اور مشکلات کا شکار ہوتی رہیتی ہے۔ مثلا ہم لوگ ہر سال سیلاب جیسی آفت کا شکار ہوتے رہتے ہیں، ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں، ہزاروں لوگ سیلاب کی تباہ کاری کا شکار ہوکر بے درماں اور بے آسرا ہوجاتے ہیں، اور سیکڑوں موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جکمران بلند بانگ دعوے کرتے ہیں، سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کرتے ہیں بیانات دیتے ہیں ریلیف کیمپ قائم کردیئے جاتے ہیں، سرکاری امداد کو سرکاری اہلکار ہی کھا جاتے ہیں، یا حکمرانوں کے گوداموں میں واپس چلی جاتی ہے، اخبارات اور میڈیا خبرین نشر کرتا ہے، اور خاموشی چھا جاتی ہے۔ متاثرہ خاندانوں کو سرکاری اسکولوں کی عمارتوں میں آباد کردیا جاتا ہے، اور تدریسی عملہ اورطالب علموں کو گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ متاثرہ خاندان، اپنی ضروریات کے لئے اسکول کے فرنیچرکو توڑ کر اپنے چولہے روشن کرتے ہیں، یہانتک کہ کھڑکی اور دروازے بھی چولہے جلانے اور کھانا پکانے کی نظر ہوجاتا ہے، اور باقی جو بچ جاتا ہے و ہ بازاروں میں بیچ کر اپنی ضروییات پوری کرتے ہیں۔ اور جب انہیں وہان سے منتقل کیا جاتا ہے یا واپسی ہوتی ہے، تو اسکول کی بلڈنگ کھنڈر بن چکی ہوتی ہے۔

ایسا ہی کچھ حال ہمارے ملک میں سیاسی ماحول کا ہے۔ ہم اس قدر بے حس ہوچکے ہیں، کہ ہم جانتے ہوئے بھی ان ہی لوگوں کا اپنا مسیحا سمجھتے ہیں، جو ہمارے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے تیزاب کے پھائے رکھتے ہیں، اور حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنی عیاشیوں، میں مگن ہوجاتے ہیں۔ اور پھر مڑ کر دیکھتے بھی نہیں، دراصل اپنی اور اپنے ملک کے اپنی قوم کے ہم خود مجرم ہیں، ہم دشمن ہیں اپنی اولادوں ، اپنی نسلوں کے ، ہم غلام ہیں، اپنی مجبوریوں، اپنی ادھوری خواہشوں کے ، دو وقت کی روٹی ہے، ہم غلام ہیں حکمرانوں کے، ہم بے شرم بھی ہیں ہم بے حیاء بھی ہیں، بے ضمیر بھی ہیں، اور بے غیرت بھی ہیں۔ ہم بھکاری بھی ہین۔ ہم دھوکے بار اور مکار بھی ہیں، ہم بھوکے اور ننگے لوگ ہیں، ہم دووقت کی روٹی کے لئے اپنی اولادوں کو قتل بھی کرلیتے ہیں بازار میں بیچ بھی دیتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم ایک قوم ہیں۔ اور ہم سب مجرم ہیں۔

ہم دعویدار ہیں ، کہ ہم مسلمان ہیں، ایک نبیﷺ،اور ایک اللہ کے ماننے والے، ہم اسبات کا بھی دعوا کرتے ہیں کہ ہم بہتریں امّت ہیں، ہم امن کے دعویدار بھی ہیں۔ ہمارا نبیﷺ تمام دنیا کے انسانوں سے افضل اور اکرم ہے۔ وہ اخلاق، کردار، تعلیمات کے لحاظ سے انسانیت کے بلند ترین درجہ پر فائز تھا، اس جیسا نبی نہ کوئی تھا، اور نہ اب آئیگا۔ ہم دنیا بھر کے بد ترین کاموں سے فارغ ہوکر ، سفید کپڑے پہن کر سر پر ٹوپی رکھکر، خوشبو لگاکر مسجدوں میں جاتے ہیں، جھوم جھوم کر نعتیں بھی پڑھتے ہین دورد سلام بھی پیش کرتے ہیں، حدیہ نعت بھی پیش کرتے ہیں، نذر نیاز بھی کرتے ہیں، اور سکون سے گھر آکر سو جاتے ہیں، کہ آج ہم نے اپنے نبی کریم ﷺ کو اور اپنے اللہ کو راضی کرلیا، اسوقت ہم دنیا کے سب سے نیک ، اچھے ، پارساء انسان کے روپ میں ہوتے ہیں، ہمارے چہرے نور سے چمک رہے ہوتے ہیں۔ لیکن صبح اٹھتے ہی ہم وہی انسان (وحشی انسان ) بن جاتے ہیں ، دفتروں میں جاکر جھوٹ بولتے ہیں، رشوت لیتے ہین، کاروبار میں بد دیانتی کرتے ہیں، وسروں کا حق مارتے ہیں، اور انہی کاموں میں مشغول ہوکر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ نہ ہمیں نبی ﷺ یاد رہتے ہین نہ انکے اخلاقیات، نہ انکا کردار، سب کچھ بھول جاتے ہین۔ اور پھر بھی ہم دعویدار ہے ۔ ایک بہترین نبیﷺ کے امتی ہیں۔ ہم کونسا ایسا کام کرتے ہیں جس پر ہم اپنے امتی ہونے پر فخر کریں۔

ہمارا نبی ﷺ کہتا ہے، اسلام تمہارا دین ہے، اسپر عمل کرو، اس کے قوانین کو مانو، اسلامی ضابطہ حیات کے تحت ، شریعت کے تحت ، اللہ کے بتائے ہوئے احکامات پر اور میرے بتائے ہوئے طریقون پر چل کر اپنی زندگی گزارو، ۔ ہمارا نبی ﷺ کریم کہتا ہے، اپنے میں سے بہتریں انسان کو اپنا سربراہ بناؤ ۔ اسے اپنا امیر ، صدر منتخب کرو، اسلامی طرز زندگی، اسلامی قوانین کے تحت گزارو۔

اور ہم اس کی بات ماننے سے انکاری ہیں ، باغی ہیں۔ ہم اللہ پاک کے بتائے ہوئے آفاقی قوانین کے ۔ اور حامی ہیں یہودیوں اور عیسائیوں کی بنائی ہوئی جمہوریت کے۔ اس سودی نظام کے، جس کا مطلب ہئے ۔ اللہ اور اسکے رسولﷺ سے کھلی بغاوت ، جسکے بارے میں میرے نبی ﷺ نے فرمایا، " سود کا گناہ سترگُنا بڑا ہے کہ انسان اپنی ماں سے زناء کرے ۔ اسکا مطلب ہے کہ ہم وہ مسلمان ، وہ بہترین امّت ہیں، جو روزانہ بینکوں سے سودی کاروبار کرکے اپنی ماؤں سے زناء کے مرتکب ہورہے ہیں۔۔۔ ہم اپنے امیر، یا صدر کا انتخاب بھی اسکا کرتے ہیں جو ہماری قوم کا بدترین، عیاش ترین، کرپٹ تریں ، انساں ہوتا ہے۔ ہم ان قوانین کو اچھا کہتے ہیں، جو چور ، کے ہاتھ کاٹنے ، زانی کو سنگسار کرنے کا حکم ۔ جو قاتل کو سزاء موت دینے کا حکم دینے کی بجائے، جرمانہ، قید، کی سزاء دیتا ہے،اور تحفظ فراہم کرتاہے تاکہ وہ دوبارہ وہی کام کرسکے۔ ہم اللہ اور اسکے نبیﷺ سے بغاوت بھی کرتے ہیں حکم عدولی بھی کرتے ہیں، اور نذر نیاز، نماز، روزہ، سیرت کانفرنسیں، بھی کرتے ہیں۔ اسی لیئے میں کہتا ہوں، ہم بد ترین قوم ہیں، بدترین انسان ہیں، بدتریں مسلمان ہیں۔ ہمارے علماء اور اسکالروں نے ، دین کو اپنے لئے عیاشی کو ذریعہ بنا رکھا ہے، کوئی قبروں پر کھڑا ہوکر مُردوں کوکلمہ پڑھاتا اور جنت کا ٹکٹ دلوانے کا دعویدا نظر آتا ہے، تو کوئی ، منبر پر بیٹھکر مسلمانوں میں ، فرقہ پرستی کو فروغ دے رہا ہے۔ تو کوئی پیر بنکر لنگر، نیاز، نظرانے وصول کرتا نظر آتا ہے، کوئی ہاتھ چومنے کا اور سجدہ کروا رہا ہے، اللہ اکبر۔ اور آج ہم دعوےدار ہیں، بہتریں امّت ہونے کے، نبی کے دیوانے پروانے ہونے کے۔ جلسے اور جلوس نکانے کے۔ اللہ اکبر ، اللہ اکبر۔ کیا ہم ایک بہترین امت ہیں۔؟

یہ سوال کئی بار میں نے اپنےآپ سے کیا، میرے اندر سے جواب ملا کہ ہاں ہم ایک بہتریں امّت ، قوم بن سکتے ہیں۔ اسلئے کہ ہم لا الہٰ اِلّاََ اللہّ ؐمحمدؐدُر رسول اللہ۔ کے ماننے والے ہیں، جسکا مطلب ہے۔ " نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے، اور محمد ﷺ اللہ کے رسول اور بندے ہیں" اور اسکا مقصد ہے، " اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین، غیر اللہ سے کچھ نہ ہونے کا یقین، نبی کریم ﷺ کے طریقون ہر چل کر دونوں جہانوں میں کامیابی کا یقین۔ " یہی ہو روح ہے جو اس قوم کی رگ رگ میں بسی ہوئی ہے۔ ہم جانتے ہین کہ ہماری موت برحق ہے، ہم جانتے ہیں کہ ہمیں اپنے اچھے برے اعمالوں کی سزاء ملنی ہے۔ آج ہمارا دشمن ہماری ذات سے خوف زدہ نہیں بلکہ ہمارے اندر کے مسلمان سے خوف زدہ ہے، وہ ہمارے دین، اسلام سے خوف زدہ ہے۔ وہ ہمیں فلسفہ پڑھاتا ہے، کہ مذہب انسان کا ذاتی فعل ہے، وہ کہتا ہے نماز پڑھو شوق سے پڑھو، روزہ رکھو، ذکواۃ دو، شادیان کرو، لیکن اسلام کی بات مت کرو، کیونکہ وہ ہم سے بہت بہتر جانتا ہے، کہ اگر اسلامی قوانیں اور شریعت کو مسلمانوں نے اپنا لیا تو دنیا میں انکا کوئی ٹھکانہ ہوگا۔ اور آج وہ جس سپر پاور ہونے کے دعویدار ہیں، نیست و نابود ہوجائینگے، آج وہ جس سودی نظام سے پوری دنیا کی معیشت کو کنٹرول کئے ہوئے ہیں اسکی عمارت انکے سروں پر آگرے گی۔ وہ افغانستان میں روس جیسی سپر پاور کا حشر اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں، کہ چند مٹھی بھر مجاہدیں نے روس سے ایک طویل گوریلا جنگ لڑ کر ٹکڑے اڑا دئیے۔ انہیں اپنا حشر نظر آرہا ہے، کیا وہ نہین دیکھ رہے، کہ گزشتہ 30 سالوں سے لڑنے والے یہ مٹھی پھر مجاہدین آج بھی امریکہ اور اسکے اتحادیوں پر بے سروسامانی کے عالم میں اسقدر حاوی کیوںہیں۔ان سوالوں کے جواب انہیں معلوم ہیں، اور اسبات کی تاریخ گواہ ہے، کہ جب بھی مسلمان، اللہ پاک کی ذات پر بھروسہ کرکے ، اپنے دین اسلام کی حفاظت کے لئے اُٹھے ہین ، تو اللہ پاک کی مدد آئی ہے۔ چاہے وہ ، جنگ اُحد ہو، جنگ بدر ہو، یا روس افغان وار، اللہ پاک کی مدد آئی ہے، اور مٹھی بھر مجاہدین کو اللہ پاک نے نصرت عطاء فرمائی ہے۔ اس موقعہ پر مجھے حضرت علامہ اقبالؒ کا شعر یاد آگیا ۔۔۔۔۔۔۔ فضاء بدر پیدا کر تری نصرت کو۔۔۔۔۔۔۔۔ اُتر سکتے ہیں فریشتے قطار اندر قطار۔

بعض دفعہ میں سوچتا تو نہیں، کہ آج جومیری قوم گزشتہ 68 سالوں سےمسلسل مختلف مسائل کا شکار چلی آرہی ہے، کشمیر کا مسئلہ، سرحدی تنازعات، معاشی، سیاسی ،ثقافتی، اقتصادی، مذہبی فرقہ واریت، نااہل حکمران، زلزلے، سیلاب، بجلی اور پانی کے مسائل ۔ کہیں یہ سب امتحان تو نہیں ، جسطرح اللہ پاک نے بنی اسرائیل کو مسلسل چالیس سال تک پہاڑوں میں بھٹکائے رکھا، نااہل ، سست کاہل، نافرمان، تو مر کھپ گئے، اور ان میں سے ایسی پود پیداہوئی اور جوان ہوئی جو جفاکش اور بہادر تھی، جنہوں نے آگے چل کر ملک شام اور بیت القدس کو فتح کیا، اور انہیں بادشاہت نصیب ہوئی۔ کہیں ایسا تو نہیں ہم بحٰثیت قوم جن مشکلات اور مسائل کا شکار ہیں۔ ایسی ہی ایک آزمائش یا امتحان ہو۔۔ مجھے اس موقعہ پر بنی کریم ﷺ کی ایک حدیث یاد آرہی ہے، آپ نے فرمایا تھا، کہ مجھے مشرق کے پہاڑوں سے ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں، اور آپ نے اسبات کی بھی پیشین گوئی کی تھی، کہ غزوہ ہند ہوگا۔۔ اور وہ کفر اور اسلام کی جنگ میں آخری معرکہ کی بنیاد ہوگا۔ اور اسلامی لشکر نکلیں گے ، جو دجالی فوجوں ے نبرد آزماء ہونگے۔ اور بلاآخر حضرت امام مہدی، اور حضرت عیسیٰ علیہ سلام تشریف لائینگے، اور پھر اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے گا۔

کیا یہ سب جو ہورہا ہے، بم دھماکے، زناء، بدکاری، فحاشی، ٹارگٹ کلنگ، کرپشن، ایسا لگتا ہے، کہ ساری برائیاں ہم میں سے ابل ابل کر باہر آرہی ہیں اور جلد ہی ہم ان سے بیزار ہوجائینگے۔کیا ہم نہیں دیکھ رہے، یہ مساجد ، اور دوسرے مقدس مقامات پر حملے، فلسطین ، شام ، عراق، لیبیا، اور دیگر عرب ممالک میں مسلمانوں کے ننھے ننھے بچوں ، معصوم عورتوں، لاچار اور لاغر بوڑھون پر حملے، قتل عام، جعلی مجاہدین، داعش، اورایسی ہی دوسری تنظیمین، جن کی سرپرستی ہمارے ازلی دشمن، یہود و نصارا، مل کر کررہے ہیں، اور دوسری طرف اللہ پاک ہمیں یہ بھی دیکھا رہا ہے، اور سمجھا رہا ہے کہ تیار ہوجاؤ، ان حالات کے لئے جو حالت جنگ میں ہوتے ہیں، قومیں معاشی ، سیاسی، صنعتی، زرعی، بجلی اور پانی ، کی قلت ، کا شکار ہوتی ہیں، بھوک افلاس کا شکار ہوتی ہیں، اور جو قومیں ان مسائل سے بحرانوں سے گزر جاتی ہیں، وہ قومیں باقی رہ جاتی ہیں۔ ورنہ ختم ہوجاتی ہیں،

آج پوری دنیا کی نظر پاکستان پر جمی ہوئی ہیں، چاہے وہ اسلامی ممالک ہو، یا ہمارے ازلی دشمن ممالک، انہیں معلوم ہے، غزوہ ہند کی ابتداء پاکستان سے ہوگی، پاکستان ایک ملک ہی نہیں ایک نظریہ کا نام بھی ہے۔
پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، جس کو یہ حق حاصل ہے، کہ وہ اپنی بقاء اور سالمیت کے لئے انہں استعمال کرنے کا حق بھی رکھتا ہے۔

پاکستان واحد ملک ہے جسکی افواج، نڈر بہادر، اور موت کو اپنی دلہن کی طرح عزیز رکھتی ہے، کیونکہ وہ ایک نظریہ کی حفاظت پر معمور ہے، جنکی موت کا مقصد شہادت، جسکے افسرآگے، اور سپاہی پیچھے لڑتے ہیں۔
پاکستان واحد ملک ہے ، جسکی عوام ہر قدم پر ہر وقت اپنی فوج کے ساتھ کھڑی ہوسکتی ہے ،
پاکستان واحد ملک ہے، جو اللہ پاک کے فضل و کرم سے ہر قسم کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔
پاکستان واحد ملک ہے، جس میں ایسی جہادی تنظیمیں موجود ہیں، جنہوں نے افغانستان اور کشمیر جہاد میں حصہ لیکراپنی صلاحیتون کو نکھارا ہے۔ اور شاندار کامیابیون کو اپنے سینے پر سجایا ہے۔
پاکستان واحد ملک ہے جسکے شمالی علاقاجات میں ایسی قوم بستی ہے۔ جنہوں نے اپنے افغان بھائیوں کے لئے بے پناہ قبانیان دی ہیں، اور جو بہترین جنگجو قبائل پر مشتمل ہیں، اور اسلامی اقدار کے حامل ہیں،

ہم سب جانتے ہیں، کہ ہم بنیاد پرست ہیں، اور اسکی اثاث دین اسلام ہے۔ پچھلی دہائی میں ہماری اس بنیاد پرستی کو سیاسی طور پر اور ثقافتی طور پر، بذریعہ الیکٹرانک میڈیا پر حرف تنقید بنایا گیا، ہمارے ملک کے چند ٹی وی چینلز ، اور پرنٹ میڈیا کے چند بے ضمیر صحافیوں نے ہماری بنیاد پرستی کو گالی بنادیا، اور لیبرل پاکستانی ہونے کے لئے بہت زور لگایا ۔ لیکن شاید وہ نہین جانتے تھے۔ جن قوموں کی بنیادیں کمزور ہوتی ہیں، وہ شرم،حیاء عزت، وقار ، کچھ نہیں رہتا، وہ اپنا قومی تشخص کھو بیٹھتی ہیں، انکی اولادین مخلوط اور بے راہ روی کا شکارہوجاتی ہیں، جسکا ہم مظاہرہ، اپنے پڑوسی ملک، ہندوستان ، اور دیگر مغربی ممالک میں دیکھ رہے ہیں، اس بات میں شک نہیں ، کہ گزشتہ دو دہائیوں سے ہمارا معاشرہ بھی اسی تنزلی کا شکار ہے، لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہو ں ، کہ یہ ازلی نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارا خمیر ہی بنیاد پرستی پر اٹھا ہے۔ گو ہماری موجودہ نسلوں میں یہ جراثیم سرآیت کرچکے ہیں، لیکن انکا تناسب ابھی بہت کم ہے۔ اور آنے والی نسلیں ان سے ابھی تک بچی ہوئی ہیں۔

میں یہ بھی دیکھتا ہوں، میری قوم کا آج کا نوجوان ایک آزاد ذہن ضرور رکھتا ہے، لیکن حساس دل بھی رکھتا ہے۔ او ر اپنی ذہنی صلاھیتوں کو بروئے کار لاکر بحیثیت مسلمان پیش آنے والے حالات اور واقعات کا جائزہ لیکر اپنی بنیاد پرستی کی طرف لوٹ رہا ہے۔ خاص طور پر وہ جو مغربی ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔ میں بذات خود ایسے بہت سے خاندانوں کو جانتا ہوں، جو برس ہا برس سے امریکہ ، کینڈا، برطانیہ اور فرانس میں رہائش پذیر ہے، سروں پر ٹوپی سجائے مسجدوں کا رخ کرتے نظر آرہے ہیں، ہماری بچیان حجاب اور اسکارف پہن کر اپنی شناخت کروا رہی ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ دعوت تبلیغ کا کام بھی کر رہے ہیں،

میں یہ بھی یقیں سے کہہ سکتا ہوں، پاکستان میں گزشتہ سال 6 ستمبر کو ہونے والے حادثہ " جسے ہم سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور" کے نام سے جانتے ہیں، کہ جس نے پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھدیا تھا، اور ایک بکھری ہوئی قوم کو یکجا کردیا، وہ تھے 135 معصوم بچون کے چہرے، وہ ننھے شہید جنہوں کے اپنے خون سے ایک تحریر لکھی، " کہ جاگو میری قوم جاگو، آج دشمن تمہارے ننھے بچون کو مارنے آپہنچا ہے، کل یہ تمہارے گھروں میں گھس کر تمہاری بہنون ، بیٹیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بھی بنا سکتا ہے ، اور خون میں نہلا بھی سکتاہے، " اللہ پاک ایسے وقت میں ہمیں ایک ایسا سپہ سلار عطاء فرمایا، کے جسکے بڑوں نے اپنے شہادت سے شجاعت کی تاریخ لکھی تھی۔ جو اس بزدلانہ کاروائی پر شیر کی طرح بھپر گیا، جسکی ایک دھاڑ نے دہشتگروں، اور انکے سہولت کاروں کو ہلاکر رکھ دیا، جو شام سے پہلے پہلے افغانستان جاپہنچاٰء اور انہیں وارن کیا کہ یا تو ہمیں اندر آنے دو، یاپھر اپنی سرحدوں کو سیل کردو، اور دہشتگردوں کو اور انکے سہولت کاروں کو ہمارے حوالے نہیں کیا تو، پاک افواج سرحد عبور کرکے خود کاروائی کرے گی۔ اور وہ تھا صرف اور صرف جرنل راحیل شریف۔ جس کی ایک گرج نے ایک طرف ہندوستان کو اور دوسری طرف امریکہ کو ہلا کر رکھدیا، اور انہیں مصالحت اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔ اللہ اکبر۔
اور دوسری طرف ہمارے ملک کی سیاسی قیادت تھی، عیاش، ظالم، خود غرض، لالچی، اور کرپٹ، جنہیں اپنی زندگیاں بہت عزیز ہیں، نے صرف مذمتی بیان پر معاملات پر ٹالنا چاہا، لیکن شاید پاک افواج کے اعلان ِ "ضرب غصب " کے بعد شاید اسکی مخالفت کرنے کی ہمت نہ ہوئی، یہان بھی قومی وقار کا خیال نہ کیا گیا، سوائے چند مذمتی بیانوں کے، اور مجبورا ، فوجی جوتے کے نوک کو دیکھتے ہوئے، "ضرب،غصب" اور دہشتگردی کے خلاف آپریشن کی اجازت دی گئی، اور پوری قوم نے دیکھا، کہ پاک فوج اور اسکے ذیلی ادارے ، اور خفیہ ایجنسیوں نے دہشت گردی کے بخئیے نہ صرف اندرونی ، بلکہ بیرونی طور پر ادھیڑ کر رکھدئیے، اور کراچی سے خیبر تک ملک میں امن امان قایم کردیا، آپریشن کے دوران ملکی غدار ، سہولت کار، اور انکے سیاسی پشت پناہ بھی سامنے آنے شروع ہوگئے۔ جن میں پاکستان کی اعلیٰ قیادت بھی شامل ہیں،

جب ہمارے ملک کے کرپٹ سیاست دانوں کی دم پر فوجی جوتا پڑا تو سب بلبلا اٹھے، اور آج یہ خود غرض سیاست دان، ان 135 ننھے شہیدوں کے خون کو بھول کر اپنی جانیں بچانے کی فکر میں ہیں، کیونکہ یہ جانتے ہیں، ہم ہی وہ سہولت کار ہیں، جو دہشت گردوں کو اسلحہ اور بری بڑی رقمیں پہنچاتے ہیں۔ اسبات کی بھی کوشش کی گئی کہ سندھ میں جاری آپریشن کو رول بیک کیا جائے، اور اسمیں سے سیاست دانوں، انکے اہلکاروں اور ملوث افسران کو اور کرپٹ اداروں کو الگ کردیا جائے، اور رینجرز کے اختیارات کو محدود کردیا جائے۔
میں سوچتا ہوں، کہ جب ہماری پاکستانی عوام ، اور ان سیاسی لیڈران کی سوچ میں اسقدر طزاد ہے، تو پھر میری قوم ایسے لٹیرے اورکرپٹ سیاستدانوں کو ووٹ کیوں دیتی ہے، جو انکی آواز بننے کی بجائے اپنی ذات کے لئے بل پاس کرواتے ہیں، اور قوم کی آرزؤن کا خون کرتے ہیں، کیا لیڈر ایسے ہوتے ہیں۔ (بات نکلے گی تو دور تک جائے گی، میں اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں، )

آج ایک سال ہوگیا ، میرے شہید بچوں کی قبروں کے پھول بھی سوکھ چکے، حادثہ تھا گزر گیا، میرے بچون کا اسکول کی دیواروں پر جما خون اپنی رنگت بدل چکا، لیکن اسکی مہک آج بھی سوچتا ہوں آتی ہوگی، اور کبھی کبھی ایک سوال یہ بھی دل میں آتا ہے، کہ کیا بدلا ہے ، تو میں کہتا ہوں۔ ملک میں امن قائم ہورہا ہے، نام نہاد جمہوری اداروں ، اور بے غیرت سیاستدانوں کی وجہ سے نہیں ، کیونکہ یہ سب کہیں نہ کہیں میری قوم کے بچون کے قاتل ہیں، ہر ایک کے ہاتھوں میں خون لگا ہے، کسی نہ کسی کا۔ کسی کے ہاتھ، سانحہ صفورہ گوٹھ، کسی کا سانحہ قصور، کسی کا سانحہ اورنگی ٹاؤن، اور کسی کا اس 10 سالہ بچی بسمہ کا جو ایک سیاسی لیڈر کے پروٹوکول کی وجہ سے بند سڑک کے کنارے پر دم توڑ گئی۔ابتو اللہ پاک ہمیں اصل چہرے اورکردار کھول کھول کر دیکھا رہا ہے۔ ہاں امن قائم ہورہا ہے، صرف اور صرف ایک با کردار بے باق، سپہ سالار کی وجہ سے، امن قائم ہورہا ہے۔

مجھےلگتا ہے، کہ اگر ہم ہر میدان میں اپنی پاک افواج کا ساتھ دین، جسطرح ، وہ حادثات کے موقعہ پر سیلاب کے موقعہ پر ہماری مدد کرتی ہیں، اسی طرح اخلاقی طور پر ہمیں اپنی فوج کی کوششوں کو سراہانہ چائیے، اور ہرپلیٹ فارم پر انکی مدد کرنی چائیے، اگر ہماری صفوں میں کہیں بھی گندگی ہے، اسے صاف کرنے کے لئے ہمیں بھی آگے آنا چائیے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کیسے۔۔ اسکا جواب ہے ، ہمیں اپنی بنیاد کی طرف لوٹنا ہوگا، ہمیں بنیاد پرست بننا کہلاناپسند ہے۔ آج 68 سال ہوگئے اس کالی جمہوریت، اور جمہوری اداروں کی کارکردگی دیکھتے ہوئے، عیاش افسرشاہی، جمہوری لیڈروں کی بے غیرتیان دیکھتے ہوئے، یاد رکھیں ہمارے دکھوں کا مداوا صرف اورصرف اسلامی قوانین میں ہے، اسلام ایک نظریہ حیات کا نام ہے، ایک ایسے فلاہی معاشی، سیاسی، اخلاقی، ثقافتی، تجارتی، علمی، پالیسی کا نام ہے۔ جسکے امیں ہمارے نبی کریم ﷺ اور خلافائے راشدین ہیں، آئیں ایک کوشش کرتے ہیں، جمہوریت کا پھل پوری قوم نے چکھ لیا ہے، ایک دفعہ اپنے آباؤ اجداد کے دین ، اور شریعت کو نافذ کرکے بھی دیکھ لیں ، اللہ پاک کی حاکمیت کو تسلیم کرلیں، اور اسکے اثرات کو دیکھ لیں۔ اور فیصلہ کرین کہ ہمارے حق میں کا اچھا ہے، دین اسلام یا جمہوریت ۔۔

میرے ان شہدون کےنام، پیغام۔۔ ہم احسان مند ہیں تمہاری شہادتوں نے پوری قوم کو ایک فیصلے پر لاکھڑا کیا ہے۔ میری فوج کے جیالے، اور رینجرز کے شیر دشمنوں کی انکی بلوں سے نکال نکال کر تمہارے خون کا قرض اتار رہے ہیں، ابھی ہم اپنے اندر کے دشمنوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر انکے منتقی انجام تک پہچارہے ہیں، اسکے بعد ہم ان بیرونی دشمنوں سے نمٹیں گے، جنہوں نے ہمارے دل میں سوراخ کیا ہے۔ ضرب غصب ، اعلان جنگ ہے، اسلام کے دشمنوں کے خلاف، تیاری ہے غزوہ ہند کی، مجھے نظر آرہا ہے، پوری اسلامی دنیا میں اسلامی لشکر کی تیاری ہورہی ہے، انشاء اللہ پاکستان کی عوام ، فوج ، اور مجاہدین اس لشکر کے ہراول دستے ہونگے۔
بقول حضرت علامہ اقبال ؒ ۔۔۔۔۔۔ فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی ۔۔۔۔۔۔۔ اک بندہء صحرائی یا مردِ کوہستانی
آئیں ایک مرتبہ صداقت شجاعت اور امانت کا سبق یاد کرلین،،، کیونکہ اب دنیا کی امامت ہمیں ہی تو کرنی ہے۔

میرے ننھے شہیدو تم ہمارے دلوں میں ، ہمارے خوابوں میں، ہماری رگوں میں انتقام بنکر دوڑ رہے ہو، ہم تمہیں کبھی نہیں بھول سکتے، تم زندہ ہو پا ک سرزمیں کے ہر پھول میں ، فضاؤن میں ، ہواؤن میں
کوہساروں میں ، پہاڑوں میں، ندیوں میں آبشاروں میں،
اللہ پاک تمہاری شہادت قبول کرے ، اپنے اللہ پاک سے کہو کہ ہمیں ذلتوں کی زندگی سے نکال کر
حکم دے کہ ہم غزوہ ہند کا آغاز کرین۔ اللہ پاک سے کہنا ہم تیرے حکم کو مانیں گے، ہم ہندوستان فتح
کرینگے، بچون کو امان دینگے، عورتوں کو بے حرمت نہیں کرینگے، کسی ماں کی گود نہیں اجاڑینگے، کسی بیمار
کسی بوڑھے پر ہاتھ نہیں اٹھائینگے۔ اسکولوں میں دھماکے نہیں کرینگے، مندروںکو آگ نہیں لگائینگے۔

کیونکہ
ہم نے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے
فاروق سعید قریشی
About the Author: فاروق سعید قریشی Read More Articles by فاروق سعید قریشی: 20 Articles with 21602 views میں 1951 میں پیدا ہوا، میرے والد ڈاکٹر تھے، 1965 میں میٹرک کیا، اور جنگ کے دوران سول ڈیفنش وارڈن کی ٹریننگ کی، 1970/71 میں سندھ یونیورسٹی سے کامرس می.. View More