نیا سال نئی توقعات

نابینا کرکٹ کا نظم و نسق چلانے والی باڈ ی پاکستان بلائنڈ کرکٹ کونسل کہلاتی ہے ۔ پاکستان میں بریل سامان تیار کرنے والا کوئی کارخانہ یا فیکٹری موجود نہیں۔ پراپرٹی سے منسلک کاروباری شخصیات اپنی ہر کالونی میں کم ازکم 2 پلاٹ معذور افراد کے لیے مختص کرے ۔

نابینا افراد کو درپیش مسائل کے حل کے حوالے سے ممکنہ اقدامات یہ ہو سکتے ہیں
پاکستان کے چاروں صوبوں کشمیر گلگت بلتستان اور اسلام آباد میں ایسے افراد موجود ہیں جو پیدائشی بوجہ بیماری یا حادثاتی طور پر دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے یا ان کی قوت بصارت آدھی ہے یعنی ہاف بلائنڈ یہ افراد اپنی معذوری کی تصدیق یا تو سوشل ویلفئیر سے ملنے والے اسسمنٹ سر ٹیفکیٹ سے کرواتے ہیں یا اسپیشل شناختی کارڈ سے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ان کی کل تعداد تقریباََ 20لاکھ ہے جبکہ پرائیویٹ اندازوں کے مطابق یہ تعداد 2012میں 39لاکھ 20ہزار تھی ان افراد کیلئے پنجاب میں تحصیل کی سطح پر سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کی جانب سے نئے سرکاری سکول کھولے گئے جبکہ انھیں بریل سسٹم کے ذریعے پڑھایا جاتا ہے۔ پنجاب میں لاہور اور بہاولپور میں نابینا افراد کا سرکاری کالج اور بریل پریس بھی موجود ہے۔ سپیشل ایجو کیشن کی وزارت 24گھنٹے ان کی خدمت کیلئے متحرک رہتی ہے۔ انھیں PIAمیں25فیصد ، ریلوے میں50فیصد رعایت حاصل ہے جبکہ بیت المال اور زکوٰۃ فنڈ سے ان کی مدد کی جاتی ہے۔ ان میں سے میرٹ پر آنے والوں کو نوکریاں اور لیپ ٹاپس دئیے جا رہے ہیں جبکہ رائج کوٹے بھر پر پور عمل درآمد بھی ہو رہا ہے۔یہ باتیں ہر دور کے وزیر برائے خصوصی تعلیم سیکرٹری ڈائریکٹر ز یا حکومتی ترجمان ہر فورم پر کرتے ہیں اور دنیا میں خود کو فرینڈلی وِد سپیشل پرسنز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ لیکن 2015ء میں بھی ان کی ان وزارتوں کے باوجود نابینا افراد کے مسائل جوں کے توں ہیں اور ان کے حل کی جانب کسی طرح کے قدم نہیں اُٹھائے جار ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں بسنے والے بے بصر افراد کا سب سے بڑا مسئلہ ان کے والدین اور رشتہ داروں کی جانب سے انھیں ظاہرنہ کرنا چھپانا یا علاج کی غرض سے ان کے بچپن تباہ کرنا انھیں صرف قرآن کا حافظ بنانے کی کوشش کرنا ۔ انھیں اپنے گناہوں کا کفارہ یا نجات کا ذریعہ سمجھنا محبت کے بجائے ہمدردی کرنا ترس کھانا یا پھر کمتر سمجھ کر دیگر بچوں کی نسبت ان پر کم توجہ دیکر انھیں نفسیاتی مریض بنا دینا ہے۔ اس مسئلے کا تعلق حکومت سے زیادہ سوسائٹی سے ہے۔ اگر اس مسئلے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے باشعور لوگ وہ اخبارات جو دیہات تک پہنچتے ہیں دیہی امام مسجد ، ہیڈ ماسٹر ، SHOٰٓ یا پھر کیبل کے بغیر دیکھے جانے والے پاکستان کے سرکاری T.V یا جگہ جگہ سُنے جانے والے ریڈیو کے ذریعے ممکن بنایا جا سکتا ہے ۔ لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ نابینا بچہ تمام تر حواس خمسہ رکھتا ہے اور اگر آپ اسے تھوڑی سی توجہ دیں بروقت سکول بھیجیں تو یہ بیک وقت حافظ قرآن اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بن سکتا ہے اور پھر چار سے 6سال کی عمر کے بچے کو نابینا اداروں تک لاکر ان کی بہتر انداز میں پرورش کی جاسکتی ہے۔ لیکن ان کے اداروں کو یتیم خانے سمجھ کر اپنے بچے سے بری الذمہ ہو جانا ناانصافی ہے ۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو ہر سہولت فراہم کرتے ہیں مگر نابینا بچوں کی مہینوں تک خبر نہیں لیتے فیس تو در کنار جوتا کپڑا صابن جیسی بنیای چیزیں بھی اداروں کی ذمہ داری بن جاتے ہیں۔ والدین انھیں سکول تک لانے کی ذمہ داری تک پوری نہیں کرتے بلکہ اکثر بچہ اگر نئے کپڑے جوتے ادارے سے گھر لے جائے تو مائیں وہ کپڑے جوتے اپنے بینا بچوں کیلئے رکھ کر اُسے یہ کہتی ہیں کہ آپ کے سکول والوں کے پاس بہت پیسہ ہے وہ آپ کو اور لے دیں گے ۔ اس حوالے سے ان مسائل کے حل کیلئے نابینا سکول اگر Parentsٹیچر ایسوسی ایشن قائم کر کے بچوں کے ساتھ ساتھ والدین کی کونسلنگ بھی کریں تو شاید اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے وہ ادارے اور تنظیمیں جو آگہی پر کام کرتی ہیں انھیں بھی چاہیے کہ وہ منفی رویوں کو مثبت کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ دوسرا بنیادی مسئلہ سرکاری نابینا سکولز کے حوالے سے سامنے آتا ہے کہ وہاں کے چوکیدار کلرک اساتذہ پرنسپل سمیت اکثر یتی عملہ ناتجربہ کار اور بد اخلاق ہوتا ہے۔ بیشتر وقت گپ شپ میں گزرتا ہے سرکاری وسائل اپنی ذات پر استعمال کئے جاتے ہیں ۔ چوکیداروں کی روایتی تلخی اور کلر کوں کی ہٹ دھرمی سے یہ بچے تنگ آکر منفی حرکات میں ملوث ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ مسئلہ براہ راست سپیشل ایجو کیشن کے اداروں سے متعلق ہے تو پرنسپلز D.O'sسیکرٹری ڈائریکٹر اور وزیر اس کے ذمہ دار ہیں اور بہتر ایڈمنسٹریٹیو پالیسی شکایت ملنے پرفوری ایکشن اور خلوص نیت سے حل کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ان سب کی ذہنیت بھی والدین سے ملتی جلتی ہو تو بچے ایک مصیبت سے نکل کر دوسری میں گرفتار ہو جاتے ہیں ۔بہ نسبت سپیشل ایجو کیشن سکولز ملک میں موجود پرائیویٹ اداروں میں طلبہ کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ جس کی وجوہات دوستانہ ماحول نابینا افراد کیلئے نابینا اساتذہ جو بریل جانتے ہوں ہاسٹل کی سہولت گھر جیسا ماحول تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر تفریحی اور غیر نصابی سرگرمیوں کی آزادی جیسے بہت سے عناصر پرائیویٹ سکولوں کے بچوں کو وہاں سے اتنا مانوس کر دیتے ہیں کہ وہ چھٹیوں میں بھی گھر جانا نہیں چاہتے۔ لیکن ان اداروں کا المیہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کے پاس عمارتیں نہیں سٹاف اور سٹوڈنٹس کے مقابلے میں وسائل کم ہیں حکومت توجہ نہیں دیتی کاروباری حالات ایسے نہیں کہ لوگ بھر پور معاونت کر سکیں ان مسائل کا حل تب تک نہیں نکل سکے گا جب تک تمام نابینا پرائیویٹ سکول کسی ایک یونین کے تحت ا کٹھے ہو کر اپنے اور اپنے بچوں کیلئے حکومت سے کم از کم اتنی بات نہ منوا سکیں کہ وہ ان اداروں میں موجود ہر بچے کیلئے فی کس 2ہزار ماہوار تعداد کے مطابق زکوٰۃ ، بیت المال کا رپوریشن ،سوشل ویلفئیر، سپیشل ایجو کیشن یا کسی مقامی مخیر ادارے کے ذریعے دے تاکہ بطریق احسن پرائیویٹ سکولوں کے بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ بن کر باوقار پاکستانی بنیں ۔ ملک میں بنی ایجو کیشن فاؤنڈیشنز بھی ان اداروں کی مدد کرسکتی ہیں جبکہ اخبارات، ریڈیو اور T.vان کے فری اشتہارات چلا کر ان کے اور معاونین کے درمیان پُل کا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ نابینا افراد کی فلاح کیلئے کیا جانے والا تاریخی کارنامہ ہو گا۔

بریل کتب کی عدم دستیابی:-
پاکستان کی اکثریت نابینا بچوں کی کتابیں دیکھ کر یہ سمجھتی ہے کہ یہ کسی موٹے کاغذ پر کی گئی کڑھائی یا آری تلے کا کام ہے جبکہ چائنہ کٹنگ کے ماہرین نے اسے سیکھنے کے بجائے اپنے فائدے اور اس کی تباہی کا یہ طریقہ نکالا ہے کہ بریل کتب کے ہر حرف پرا نک پرنٹ میں لکھ دیا ہے تاکہ بینا لوگوں کی نابینا اداروں پر اجارہ داری رہے اوربریل سسٹم میں ر کاوٹ نہ بنے ۔ 68سال بعد کتب سیا ح ستہ ، بخاری ، مسلم ،ترمزی وغیرہ سیرت نبیؐ تفصیل القرآن تک بریل میں موجود نہیں صرف یہی نہیں بلکہ کسی یونیورسٹی میں نابینا افراد کیلئے بریل ڈیپارٹمنٹ نہیں جو اس کی B.A، M.Aیا دیگر کو رسز کی یا ہفت روزہ اپنی اشاعت کو بریل میں کر کے نابینا افراد تک نہیں پہنچا رہا۔ سوائے نیشنل بُک فاؤنڈیشن ، حاتم علوی لیب کے علاوہ کوئی ادارہ اس حوالے سے کام نہیں کر رہا سرکاری پرنٹنگ پریس تعداد میں کم ہونے کے باعث ڈیمانڈ اور سپلائی کے درمیان کا فاصلہ ہی پورا نہیں کر پاتے اور نہ ہی بینا لوگوں کو بریل سکھا نے کیلئے کوئی اکیڈمی موجود ہے اور نہ بینا لوگوں کو اس کی اہمیت سے متعلق پتہ ہے یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے حل کیلئے 2016ء میں ہم درج ذیل اقدامات تجویز کرتے ہیں ۔

اول: سرکاری بریل پرنٹنگ پریس کی تعداد میں اضافہ کر کے ہر ضلع میں ایک پریس قائم کیا جائے ۔

دوئم: بریل امباؤزرز کے تمام ماڈلز پر تمام ٹیکس کسٹم ڈیوٹی معاف کرکے انھیں پرائیویٹ سکولوں کو نیشنل بنک یا کسی اور محکمے کے تحت آسان اقساط پر دیا جائے۔ اور اس میں استعمال ہونے والے کاغذ کی قیمت کم کر کے اسے چلانے کی تربیت دی جائے ۔ تمام بڑ ے اخبارات بالخصوص وہ جو A.B.Cسرٹیفائیڈ ہوں اور میڈیا لسٹ ہوں.P.N.S Aاور C.P.N.Eکے رکن ہوں۔انھیں پابند کیا جائے کہ کم از کم اپنی اشاعت خاص کو بریل میں بھی لائیں اور ایسی ہی ہدایات بڑے ماہناموں کے ساتھ ساتھ ان پبلشرز کو بھی جاری کی جائیں جو انک پرنٹ بکس چھاپتے ہیں کہ وہ ہر کتاب کی کم از کم 20کاپی بریل میں کرکے نابینا اداروں کو عطیہ کریں کہ وہ اپنے سٹوڈنٹس کو یہ پڑھا کر اُنھیں مطالعے کا شوقین بنا سکیں اور ان کے علم میں اضافہ کر سکیں نیز تمام سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ بریل ڈیپارٹمنٹ قائم کریں اور اپنے نابینا سٹوڈنٹس کیلئے تمام کلاسزکا سلیبس اُنھیں بریل میں فراہم کرے اور یہ ڈیپارٹمنٹ اپنے کسی بھی سٹوڈنٹ کی ڈیمانڈ پر اسے کوئی بھی نصابی یا غیر نصابی کتاب چھاپ کر دے بریل سامان کی تیاری کیلئے مقامی سطح پر بینا اور نابینا افراد کو کارخانے لگانے میں مدد کی جائے اور نرخ نامہ جاری کیا جائے ۔یہ سامان اوپن مارکیٹ میں موجود ہو اس کی اہمیت سے متعلق جو لوگ واقف ہیں وہ دن رات اس کی ترویج کریں اور سکولوں اور کالجوں کی سطح پر بریل کی ترقی کیلئے زبانی یا تحریری لیکچر ز دئیے جائیں اور بینا لوگوں کی ایسی تربیت کی جائے کہ وہ آنکھ بند کر کے ہاتھ کی انگلی سے بریل پڑھ اور پڑھا سکیں۔

آڈیو کے مقابلے میں بریل کئی درجے بہتر اور مستند ہے اس بحث میں پڑے بغیر ہم سب مل جُل کر بریل طرزتحریر کے ذریعے نابینا بچوں کو پڑھا سکتے ہیں اور اگر کوشش کریں تو غیر نصابی کتب بھی بریل میں کرکے آپ بہت سا علم جو ان کی دسترس میں صرف اس لیے نہیں کہ وہ دیکھ نہیں سکتے ان تک پہنچاسکتے ہیں یہاں بھی بات ہے کوشش اور خلوص نیت کی۔ نابینا افراد کو درپیش مسائل میں سے ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ بنیادی تعلیم سے محروم رہ جانے کے باعث ان کی بنیاد اتنی مضبوط نہیں ہوتی کہ یہ میٹرک ایف اے کر لینے کے بعد بھی عام استعمال ہونے والے لفظوں کے مفہوم یا ہجے صحیح بتا سکیں کیونکہ انھیں امتحان دینے کیلئے ایک درجہ کم لکھاری لینا پڑتا ہے لہٰذا اس کی املاء کی غلطیاں بھی ان کے کھاتے میں ڈل جاتی ہیں بالخصوص میٹرک میں سب نابینا ریاضی میں فیل ہوتے ہیں اگر 5سال کی عمر میں انھیں سکول لایا جائے کلاسیں نہ چھڑائی جائیں ادارے اہلیت کے مطابق مڈل کا سرٹیفکیٹ جاری کریں ریاضی کو ان کیلئے اختیاری مضمون قرار دے کر رائیٹر کے ساتھ ساتھ بریل ، اورل ، آڈیو کے طریقے متعارف کروائے جائیں تعلیمی بورڈ میں نابینا افراد کیلئے سپیشل کاؤنٹر ہو جو رائیٹر کا پرمشن لیٹر جاری کرے اور متعلقہ چیکر ز اور نگران کی کونسلنگ کرے تو یہ مسئلہ بھی بہت آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کس کی نیت صاف ہے اور کون حل کرے گا؟ نابینا افراد کیلئے روزگار نہ ہونا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ملک میں ایسے پرائیویٹ اور سرکاری ٹرینگ سنٹر کھولے جا سکتے ہیں جہاں نابینا افراد کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ٹیلی فون آپریٹنگ ، کمپیوٹر ، سٹینو آپریٹنگ، ٹیچنگ، کرسی بننا ، چارپائی بننااوردیگر بہت سے کام سکھائے جاسکتے ہیں۔ خدمت کارڈ کی 1200کی بھیک کے بجائے ان کے تربیتی کورس کے دوران انھیں ماہوار گزارہ الاؤنس دیا جائے اور پھر تعلیم اور تربیت مکمل کر لینے کے بعد ایک ایسا سلیکشن بورڈ ہو جو ان کی اہلیت اور کوٹے میں موجود گنجائش کے مطابق انھیں باعزت سرکاری یا پرائیویٹ نوکری فراہم کرے اوران سے کام بھی لیا جائے پورا وقت بھی اور ترس کے بجائے ان کے ساتھ مساویانہ رویہ اختیار کیاجائے جبکہ PHD، ایم اے ، ایم فل، CSSوغیر ہ پاس کرنے والے نابینا افراد کیلئے بھی ان کی اہلیت کے مطابق روزگار کا بندوبست ہونا چاہیے۔

نابینا افراد کے مسائل میں سے ایک مسئلہ ان کی آباد کاری نہ ہونا ہے۔ ہمارا معاشرہ ابھی بھی جہالت کے گھُپ اندھیروں میں غرق ہے یہاں نابینا شخص کو گھر میں مساویانہ مقام حاصل نہیں تو بالغ ہونے پر ان کے رشتے بھی نہیں ہو پاتے ۔ نابینا لڑکیوں کو ان کے خاندان کے بینا لڑکے اور نابینا لڑکوں کو بینا لڑکیاں قبول نہیں کرتیں کوشش کی جاتی ہے کہ خاندان کا سب سے غریب ترین کم پڑھا لکھا رشتہ ان کیلئے ڈھونڈا جائے جبکہ شکل و صورت کے بارے میں یہ موقف ہو تاہے کہ یہ بیچارے کون سا دیکھ سکتے ہیں جیسا بھی ہو ۔ اسی طرح عمر کا بہت سا حصہ ضائع ہونے کی بدولت یا تو یہ غلط راستہ اختیار کرلیتے ہیں یا پھر ایسی عادات اختیار کر لیتے ہیں جو یقینا نا قابل بیان اور افسوس ناک ہوتی ہیں۔ اگر یہ لوگ نابینا ہوتے ہوئے کسی نابینا سے شادی کر نا چاہیں تو بڑے بڑے پڑھے لکھے جاہلوں جیسی باتیں کرنے لگتے ہیں کہ دونوں ایک جیسے کس طرح گزارہ کریں گے بچے کیسے پالیں گے؟ دونوں نابینا ہیں تو بچے بھی نابینا ہوں گے؟ وغیرہ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں نابینا میں سے نابینا کی پیدائش 100میں سے صفر(0) فیصد ہے۔ ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے کہ نابینا لڑکے پیشہ ور افراد کے ہاتھ چڑھ کے رشتے کے چکر میں اپنی جمع پونجی ضائع کر بیٹھے۔ خاندان میں رشتہ نہ ملنا نابینا کے لیے آمادہ نہ ہونابچیوں کی قرآن سے شادی کرنا۔ نابینا افراد کیلئے بینا کو بطور ہمسفر چننے سے محض اس لیے اجتناب کرنا کہ اگر اس کی آنکھیں نہیں تو یہ بے کار ہے یقینا ہمارے کم علم اور نادانی پر مبنی رویے ہیں ۔ اگر کسی لڑکی کو یہ آپشن دیا جائے کہ وہ ؂شرابی ، جواری ، زانی اور نابینا میں سے اپنا ساتھی منتخب کرے تو وہ نابینا کو مسترد کرکے باقی تین کا انتخاب کرے گی جبکہ لڑکوں کو آپشن دیا جائے کہ وہ پڑھی لکھی خوبصورت نابینا جاہل بد صورت پیشہ ور میں سے کسی ایک کو منتخب کریں تو وہ بھی نابینا لڑکی کو رد کریں گے ۔ یہ مسائل اس قدر گمبھیر ہیں کہ ان کی بدولت کئی افراد خودکشی بھی کر چکے ہیں اس پیچیدہ مسئلے کے حل کیلئے تنظیموں ، سول سوسائٹی ، حکومت اور والدین کو آگے آنا ہو گا۔ ملک میں کوئی ایک ادارہ تو کیا ایک شخص بھی نہیں جو بینا لڑکے لڑکیوں کی کونسلنگ کرے کہ یہ افراد صرف آنکھ نہیں رکھتے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی شادی ہی نہیں ہو سکتی جبکہ ان کیلئے رشتوں کی تلاش شادی کے اخراجات اور ایسی شادیوں کی بھر پور تشہیر کی ضرورت ہے ۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے نابینا بچوں کی پسند کا خیال رکھیں نابینا کی نابینا یا بینا کسی سے بھی ہولیکن شادی کی عمر میں شادی ہونی چاہیے لیکن شادی سے پہلے ادارے چند چیزوں پر توجہ دیکر ان کی تربیت کریں(1)میاں بیوی کے درمیان برتری کی جنگ نہ ہو۔ (2)بینا لڑکی محض اس لیے شوہر کے سامنے سجنے سنورنے سے گریز کرے کہ وہ دیکھ نہیں سکتا۔ (3)کزنوں اور دوستوں سے پوچھے کہ میں کیسی لگ رہی ہوں اسے کمتر جانے ۔(4)اگر لڑکا ہے تو وہ اپنی نابینا بیوی کو مقدس پراڈکٹ سمجھ کر صرف اسے کمرے تک قید رکھے یا اگر نابینا لڑکا اپنی اہلیہ سے بدگمان یا شک کرتا رہے تو کیا اس کا شک غلط ہے یا بیوی اُس کے حق میں خیانت کر رہی ہے اور اگر دونوں نابینا ہیں تو ایسے میں ان مسائل کا تو سامنا نہیں کرنا پڑتا تاہم مالی پریشانیاں اور کسی بینا رہنما کی ضرورت پڑتی ہے۔ایسے کپلز میں کشیدگی کم ہوتی ہے اور ہم آہنگی زیادہ اس لیے ان کی تربیت اور دوسرے کپل کی تربیت دو علیحدہ علیحدہ طریقوں سے کی جائے۔ کاش! ہمارا معاشرہ اتنا کشادہ ذہن ہو جائے کہ یہ نابینا افراد کو اچھوت یا دَلت کی طرح سمجھنے کے بجائے ان کے وہ حقوق جو اسلام انھیں دیتا ہے ان سے نہ چھینے ۔ ہم بہت سے کام حکومت کی مدد کے بغیر بھی کر سکتے ہیں مسائل کا انبار کسی ایک مضمون میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ اس بار بیان کردہ مسائل ہی کو کافی جانتے ہوئے اگر اس کا مختصر خلاصہ بیان کرنا ہو تو اتنا کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں نابینا افراد کیلئے ابتک ہونے والا کام صفر کا ہندسہ عبور نہیں کر سکا ۔ سب سے زیادہ ضرورت تعلیم اورآگہی کی ہے اور لوگوں کے ذہنوں کے بند دروازے جب تک نہیں کُھلتے، یہ پڑھے لکھے نابینا کو بھی اندھا، حافظ، بے چارہ کہہ کر ان سے نفرت کرتے رہیں گے انھیں حقیر سمجھتے رہیں گے۔

اگر کوئی نابیناخریدار بن کر بھی کسی دکان میں داخل ہو گا تو دکاندار اسے کہے گا کہ معاف کرو اور ڈرائیور اس لیے ویگن نہیں روکے گا کہ یہ نابینا ہے کرایہ نہیں دے گا۔ اور اس کی سفید چھڑی دیکھ کر اسے سڑک پار کرانے کے بجائے چھ سو روپے کی شراب پینے والا بھی اسے پانچ سور وپے دیکر خود کو جنت کا حقدار سمجھے گا۔ اور ہماری آنکھوں والی خواتین انھیں کمتر جان کر ان کے بجائے شرابیوں اور ڈاکوؤں سے نکاح کرنا پسند کرتی رہیں گی اور یہ سکول داخل ہونے کی بجائے مفت کی روٹیاں توڑ کر اپنی زندگی تباہ کرتے رہیں گے ۔

قارئین محترم ! میرا 30سال کا تجربہ اور معاشرے کی بے حسی اس مضمون کا اس جملے پر اختتام کرنے پر مجبور کر رہی ہے کہ یا تو اﷲ تعالیٰ اس معاشرے کو شعور اور نابینا افراد کو خوداری، حق مانگنے کی ہمت ، فرض ادا کرنے کی طاقت اور صحیح سمت دکھانے والا رہنما عطا کردے یا پھر جو پیدا ہوچکے سو ان کا نصیب مگر اگر کوئی بچہ اس دنیا میں نابینا پن کی حالت میں جنم لینے والا ہے تو اﷲ اسے وہیں ختم کر دے جہاں وہ ہے۔ کیونکہ دستور عرب تھا کہ بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی مار دیا جاتا تھامگر دستورجدید یہ ہے کہ کمزوروں ناداروں اور معذوروں کو زندہ رکھ کر پل پل مارا جاتا ہے۔ باقی نہ تو یہ فلاحی ریاست ہے نہ یہاں جمہوریت ہے نہ آمریت نہ ہمارے حکمران ایسے ہیں کہ ان سے اچھائی کی توقع رکھی جائے ۔ اگر ہم سب کے شناختی کارڈ پر ہماری اصلیت لکھی ہو تو ہم20کروڑ کے CNICپہ لکھا ہو گا آدھا تیتر آدھا بٹیر۔

Qazi Naveed Mumtaz
About the Author: Qazi Naveed Mumtaz Read More Articles by Qazi Naveed Mumtaz: 28 Articles with 24012 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.