یوں تو پاکستان کا ہر مسئلہ ہی سب سے بڑا مسئلہ معلوم
ہوتا ہے ، مگر آج کل کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ
پاکستان کا سب سے بڑا اور دیراینہ مسئلہ عدم برداشت ہے ۔ آج جس جانب نظر
دوڑائے ہر طرف قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے ۔ بھائی ، بھائی کو تو کہیں
شوہر بیوی کو قتل ر رہا ہے ۔ اور یہ سب واقعات محض معمولی جھگڑوں اور
اختلافات کے باعث ہو رہے ہیں ۔ مگر ان واقعات کے پاکستان کی معیشت اور ساکھ
پر بہت گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ آئے دن نیوز چینلز پر ایسے پروگرام نشر
ہوتے ہیں جن میں عدم برداشت کی وجہ سے کئی گھرانے برباد ہوجاتے ہیں ۔ اگر
ہم میں ایک دو سرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہو تو معاشرے کے کئی مسا ئل خو
د بخود ختم ہونے لگیں گے ۔ ہمارے معاشرے میں کہیں فرقوں ، عقائد پر جھگڑا
ہے تو کہیں ہم لسانیت پر قتل ہورہے ہیں ۔ کہیں قومیتوں پر ، کہیں جائیداد
تو کہیں غیرت کے نام پر خون ریزی ہورہی ہے ۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں
اکثر ایسے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں کے شوہر نے بیوی پر تیزاب پھینک دیا ۔
سنگدل باپ نے بچوں زہر دے دیا اور وغیرہ وغیرہ یہ سب واقعات اس بات کی
نشاندہی کرتے ہیں کہ ہماری قوم سے برداشت کا جذبہ ختم ہو رہا ہے ۔ جو بے حد
تشویش ناک صورت حال ہے ۔ پچھلے کچھ برسوں سے کراچی میں کئی افراد ٹارگٹ
کلنگ کی زد میں آکر ہلاک ہوئے ، اور یہ سب لسانیت اور قومیت کے نام پر قتل
کیئے گئے ۔ دوسری جانب ملک کے دیگر حصوں میں تشدد کے ایسے کئی واقعات پیش
آئے کہ جن پر ذہن دنگ رہ جائے ۔ جیسے پشاور میں ایک شخص نے غربت سے تنگ آکر
اپنی بیوی اور چار بچوں کو قتل کرنے کے بعد خودکشی کر لی ۔ پشاور میں ہی
رشتہ نہ دینے پر بھتیجے نے اپنی پھپھو اور اس کے گھرکے آٹھ افراد کو قتل کر
دیا ۔ لاہور میں خاتون نے گیارہ سالہ ملازم کو کتے کی دیکھ بھال نہ کرنے پر
اتنا پیٹا کہ وہ جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھا ۔ ڈی جی خان میں باپ نے بچی کے
اسکول سے شکایت ملنے پر موت کی سزا دے ڈالی ۔
سیالکوٹ میں بیوی نے گھریلو ناچاقی پر شوہر کو قتل کر دیا ۔ یہ تمام اور اس
جیسے مزید کئی واقعات اس جڑ پکڑتے مسئلے کی جانب نشاندہی کر رہے ہیں ۔ یہ
تمام واقعات اس قدر معمولی ہیں کہ ان پر موت کی سزا دینا نہایت کم عقلی ہے۔
یہ حالات اس جانب بھی توجہ دلا رہے ہیں کہ ہماری قوم میں ڈپریشن اور
پریشانیوں کے باعث ذہنی امراض بھی تیزی سے جنم لے رہے ہیں ۔ اس لئے نہایت
ضروری ہے کہ ایسی وارداتوں کی فوری روک تھام کی جائے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ
معمولی مذاق سے جنم لینے والے جھگڑو ں کا اختتام بھی مو ت پر ہو ۔
دین اسلام امن کا پیغام دیتا ہے ۔ اگر ہمارے مذہب میں خودسوزی حرام ہے تو
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک شخص کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ۔ بلکہ کوئی
بھی قتل و غارت گری کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا ۔ بطور مسلم ہمارا تو یہ
مذہبی فریضہ ہے کہ ہم اپنے رویو ں میں برداشت اور تحمل پیدا کریں۔ کامیاب
قومیں ایک دوسرے کی آزادی اظہار کا خیال رکھتی ہے ۔جب کہ ہمارے معاشر ے میں
عدم برداشت قومی المیہ بن چکا ہے ۔ سیاست دان اپنی پارٹی کے خلاف کچھ بھی
سنتے ہی برداشت اور اخلاق کے تمام پیمانوں کوبالائے طاق رکھ آتے ہیں تو
دوسری جانب ہمارے مذہبی اسکالرز اپنے مسلک سے الگ لوگوں کو کافر ٹھرانے میں
وقت نہیں لگاتے ۔ جس کی وجہ سے ہمارے لوگ شدید ذہنی انتشار میں مبتلا ہیں ۔
ایک دوسرے کو سننا اور دوسرے کی آزادی رائے کا خیال رکھنا در کنار اب لو گ
ایک دوسرے سے بات کرنے سے بھی کتراتے ہیں ۔ رویوں میں آئی اس تبدیلی کو نہ
تو کوئی ٹیکنالوجی ختم کر سکتی ہے اور نہ ہی کوئی یورپی ماہر ، بلکہ اس
المیے کا حل بھی ہمارے ہی پاس ہے ۔ ہمیں اپنے طورپر انفرادی سطح پر ذمہ
داری کا ثبوت دینا ہو گا اور رویوں میں موجود برہمی اور یاسیت کو پر امیدی
میں بدلنا ہو گا ، ایک روشن صبح کے لئے ! |