جنگ احد ۔۔۔۔۔ ام عمارہ شیر دل
خاتون
ام عمارہ وہ خاتون ہیں جو مدینہ سے سپاہ اسلام کے ساتھ آئی تھیں تاکہ محاذ
کے پیچھے خواتین کے ساتھ رہ کر لشکر اسلام کی مدد کرنے والوں کے عنوان سے
نصرت کریں۔ ان کے زخموں کی مرم پٹی کا انتظام کریں اور مجاہدین کو پانی
پہنچائیں۔ اگرچہ جہاد عورتوں کے لئے واجب نہ تھا مگر جب ام عمارہ نے دیکھا
کہ لوگ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے پراگندہ ہوگئے اور آنحضرت
کو آگ و خون کے درمیان تنہا اور بے یار و مددگار چھوڑ دیا ان کی جان خطرہ
میں ہے۔ وجود اسلام خطرہ میں گھرا ہوا ہے تو ایک بھاگنے والے کی تلوار اچک
لی اور مردانہ انداز میں دشمن کے لشکر کی طرف بڑھیں اور ہر طرف اس طرح لڑ
رہی تھیں کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی جان محفوظ رہے۔ پیغمبر اس
شیر دل عورت کی شجاعت سے بہت خوش ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ ” نسیبہ (ام
عمارہ) دختر کعب کی منزلت آج کے دن میرے نزدیک فلاں فلاں سے زیادہ بلند ہے۔
نوٹ ۔۔۔(فلاں فلاں کی تفصیل (تاریخ مغازی اور دوسری کتب میں ملاحظ کی جا
سکتی ہے کہ یہ فلاں فلاں کون تھے)
چند ان افراد کی فداکاری کے باوجود جو کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کے لئے سپر بنے ہوئے تھے۔ آپ شدید زخمی ہوئے۔ عتبہ نے 4 پتھر پھینک کر آپ
کے چند دانت شکستہ کر دئیے۔ ابن قمہ نے آپ کے چہرہ پر شدید زخم لگایا اور
وہ زخم ایسا لگا کہ خود کی زنجیروں کی کڑیاں آپ کے گالوں میں پیوست ہوگئیں۔
پیغمبر زخموں کی بنا پر کافی کمزور ہوگئے اور آپ نے ظہر کی نماز بیٹھ کر
ادا کی۔
میدان چھوڑ دینے والوں میں سب سے پہلے شخص جنہوں نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کو پہچانا وہ کعب بن مالک تھے۔ انہوں نے چلا کر کہا کہ” پیغمبر
زندہ ہیں۔ لیکن رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ چپ رہو۔
آنحضرت کو درہ کے دہانہ تک لے جایا گیا جب آپ وہاں پہنچے تو جو مسلمان وہاں
سے بھاگ گئے تھے۔ بہت شرمندہ ہوئے۔ ابوعبیدہ جراح نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کے چہرہ میں در آنے والی زنجیر کی کڑیوں کو باہر نکالا۔ علی علیہ
السلام اپنی سپر میں پانی بھر کر لائے اور رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے اپنا سر اور چہرہ دھویا۔
لشکر کی جمع آوری
جب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم درہ کے دہانے پر پہنچ گئے تو آپ نے
مسلمانوں کو بلایا جب لشکر اسلام نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو
زندہ دیکھا تو گروہ، گروہ اور فردن فردن ان کے گرد آنے لگے رسول خدا صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے ان کو جہاد راہ خدا میں جنگ اور پہلی جگہوں پر واپسی کی
دعوت دی۔ شکست کے بعد پھر سے اسلامی فوجیں منظم ہوگئیں اور افراد نیز سامانِ
جنگ کی کمی کے باوجود، دوبارہ حملہ شروع کر دیا۔ جنگ کی آگ نے جنگ بھڑکانے
والوں کو پھر سے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اسلامی لشکر کی شجات و بہادری نے
دوبارہ دشمن کے سپاہ قلب کو خوف و وحشت میں مبتلا کر دیا۔ مشرکین کے لشکر
کے سردار ابوسفیان نے اس خطرہ کے باعث کہ کہیں مجاہدین اسلام آغازِ جنگ کی
طرح پھر نہ ان پر جھپٹ پڑیں۔ جنگ بندی کے حکم کے ساتھ جنگ کے خاتمہ کا
اعلان کر دیا۔
شہیدوں کے پاکیزہ جسم کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟
جنگ کے خاتمہ اور میدان جنگ کے خالی ہو جانے کے بعد قریش کی اوباش عورتیں
اور مشرکین کے سپاہی، شہیدوں کے پاکیزہ اجسام کی طرف بڑھے اور اپنے انتقام
کی آگ کو بجھانے کے لئے انہوں نے لرزا دینے والے مظالم کئے، شہیدوں کے طاہر
جسم کو مثلہ کر دیا، ابوسفیان کی بیوی ہندہ، ان کی عورتوں کی پیشرو تھی اور
اس نے جناب حمزہ اور تمام شہیدوں کے اعضا کاٹ کر گلوبند اور دست بند بنالیا
تھا جب ہندہ جناب حمزہ کے جسد اطہر کے پاس پہنچی تو اس نے ان کے سینہ کو
چاک کر کے ان کا جگر نکال کر دانت سے چبانا چاہا لیکن اس کو چبا نہ سکی آخر
میں اس نے جگر مبارک کو زمین پر پھینک دیا۔اس بدترین جرم کے ارتکاب کے بعد
وہ ”ہندہ جگر خوار“ کے نام سے مشہور ہوگئی۔ بجز حنظلہ جن کا باپ (ابوعامر)
سپاہ مشرکین میں تھا، تمام شہیدوں کے جسم کو مثلہ کر دیا گیا۔ (سیرة حلبی
ج۲ ص ۲۴۴)
طرفین کے نقصانات کا تخمینہ
جنگ احد میں مسلمانوں کی طرف سے 70 آدمیوں نے جام شہادت نوش فرمایا۔ اس میں
سے 4 افراد مہاجرین اور بقیہ انصار میں سے تھے۔ تقریباً 70 افراد زخمی
ہوئے۔ مشرکین نے 64افراد ہلاک ہوئے جن میں آدھے سے زائد شمشیر علی علیہ
السلام سے قتل ہوئے تھے۔ (ارشاد مفید ص۴۳)
مفہوم شہادت
منافقین مدینہ میں سے ”قرمان“ نامی ایک شخص جب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے سامنے آیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ”جہنمی ہے۔“
جب جنگ احد چھڑی تو قرمان لشکر اسلام سے روگردانی کرکے عبداللہ بن ابی اور
دیگر منافقین سے جاملا۔ جب وہ مدینہ آیا تو عورتوں نے اس کی سرزنش کی اس کو
غیرت محسوس ہوئی اور وہ اسلحہ سج کر احد کی طرف روانہ ہوا اس نے مردانہ وار
جنگ کی اور نہایت شجاعت اور دلیری کے ساتھ چند مشرکین کو قتل اور زخمی کیا۔
جنگ کے آخری لمحات میں بہت زیادہ زخمی ہو کر میدانِ جنگ میں زمین پر گر پڑا
مسلمان اس کی طرف دوڑے اور کہا۔ شہادت تمہیں مبارک ہو۔ اس نے کہا کہ میں
کیوں خوش ہوں؟ میں نے صرف اپنے قبیلہ کے شرف کے لئے جنگ کی ہے اگر میرا
قبیلہ نہ ہوتا تو میں جنگ نہ کرتا۔ زخموں کے درد کو اس سے زیادہ تحمل نہ
کرسکا۔ لہٰذا ترکش سے ایک تیر نکال کے اس نے خودکشی کرلی۔ (مغازی ج۱ ص ۲۲۳،
۲۲۴)
نفسیاتی سرد جنگ
لوگوں کے افکار و عقائد میں نفوذ کرنے کے لیے مساعد حالات کی ضرورت ہوتی ہے
اور افکار کے نفوذ اور تخریب کاری کے لیے شکست اور مصیبتوں میں مبتلا ہونے
والے زمانہ جیسا مناسب اور کوئی زمانہ نہیں ہے موقع کی تلاش میں رہنے والے
دشمن نے اس اصل پر تکیہ کرتے ہوئے شکست کے آخری لمحات کو اپنے عقائد کی نشر
و اشاعت کے لئے غنیمت سمجھا اور اسلام مخالف نعروں کے ذریعہ سادہ لوح افراد
کو دھوکہ دینے اور انہیں متاثر کرنے کی کوشش کی۔ اس لیے کہ یہ ایسا موقع ہے
جب غلط پروپیگنڈہ نہایت آسانی کے ساتھ شکست خوردہ قوم کے دلوں میں اثر
کرسکتا ہے۔
ابوسفیان اور عکرمہ بن ابی جہل نے ”اعل ھبل“ ھبل سرفراز رہے کا نعرہ بلند
کیا۔ یعنی ہمارے بتوں نے ہم کو کامیاب کیا۔
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ تم کہو ”اللہ
اعلیٰ واجل“ خدا برتر اور بزرگ ہے۔ مشرکین کے نعرے بدل گئے ابوسفیان نے
چلانا شروع کیا ”نحن لنا العزی ولاعزی لکم“ ہمارے پاس عزیٰ نامی بت ہے لیکن
تمہارے پاس نہیں ہے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم بھی
بلند آواز سے کہو ”اللہ مولانا و لامولیٰ لکم“ اللہ ہمارا مولا ہے اور
تمہارا کوئی مولا نہیں ہے۔
مشرکین کا نعرہ دوبارہ بدل گیا ابوسفیان نے نعرہ بلند کیا کہ” یہ دن روز
بدر کا بدل ہے“ مسلمانوں نے پیغمبر کے حکم سے کہا کہ یہ دونوں دن آپس میں
برابر نہیں ہیں۔ ہمارے مقتولین بہشت میں اور تمہارے مقتولین جہنم میں ہیں۔
ابوسفیان نے کہا کہ” ہمارا اور تمہارا آئندہ سال مقام بدر میں ٹکراﺅ ہوگا
وعدہ رہا۔ (بحارالانوارج۲۰ ص۲۴)
کہاں جا رہے ہو؟
جنگ کی آگ بجھ گئی، دونوں لشکر ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔ مشرکین کے لشکر نے
کوچ کا ارادہ کیا پیغمبر سوچنے لگے، دیکھیں یہ لوگ کہاں جاتے ہیں؟ آیا یہ
لوگ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مدینہ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں یا مکہ کا
راستہ اختیار کرتے ہیں؟ موضوع واضح ہونے کے لیے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ” اے علی تم جا کر دشمن کی خبر لؤ¿
اگر تم نے دیکھا کہ یہ لوگ گھوڑوں پر سوار ہوتے ہیں اور اونٹوں کو کھینچتے
ہوئے لے جاتے ہیں تو سمجھنا کہ مدینہ پر حملہ کا قصد ہے۔ اس صورت میں خدا
کی قسم ہم ان سے لڑیں گے اور اگر وہ اونٹوں پر سوار ہوں اور گھوڑوں کو
کھینچتے ہوئے لے جا رہے ہوں تو سمجھنا کہ مکہ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
حضرت علی دور سے دشمن کی تاک میں تھے اور دیکھ رہے تھے کہ وہ اونٹوں پر
سوار ہوگئے اور اپنے دیار کی طرف پلٹ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
(بحارالانوار ج۲۰ ص۹۷)
۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی۔ |