اگر عقل رکھتے ہو تو سوچئے

اصل موضوع پر آنے سے قبل میں اسلام اور پاکستان کے معاشی نظام پر روشنی ڈالنا چاہوں گی۔بلاشبہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اور اسلامی معاشرے میں اسلامی مسائل کو یوں ترتیب دیا گیا ہے کہ دولت کا نظام چند ہاتھوں میں نہ رہے۔ روپیہ ،پیسہ اور وسائل ہمیشہ معاشرے میں گردش کرتے رہیں۔ یہ ہی وہ اصول و ضوابط تھے جن کی وجہ سے تاریخ ہمیں وہ سنہری دور بھی یاد کرواتی ہے جب ڈھونڈنے پر بھی زکوۃ و عطیات کا حقدار نہ ملتا تھا۔اسلامی تاریخ اس معاشرے کی سنہری مثال پیش کرتی ہے جس معاشرے میں رہنے والا ہر فرد صاحب استطاعت اور خود کفیل تھا۔ مگر یہ تب کی بات ہے جب اس معاشرے کے حکمران اس ڈر سے رات کی نیند اڑا بیٹھتے تھے کہ بکری کا بچہ بھی مرگیاتو خدا مجھ سے پوچھے گا۔ اب ذرا ان روشن مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے آج اپنے معاشرے کا جائزہ لیں۔ کیا وجہ ہے کہ امیر اور غریب کا امتیاز بڑھتا ہی جارہا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ دولت اور وسائل کا ارتکاز چند گھرانوں تک ہی محدود ہو کہ رہ گیا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ امیروں کے کتوں کے کھانوں کا بجٹ تو لاکھوں ،کڑوروں میں ہے مگر غریب اپنی لاڈلی اور جان سے پیاری اولاد دریا سپر د کر دیتا ہے؟ کیونکہ اس کے پاس اپنی اولاد کو کھانا تک کھلانے کے پیسے نہیں ہوتے۔ یہ دونوں حقائق زمین و آسمان جتنا افتاد تو رکھتے ہیں۔ مگر دوسرے حقائق بھی سو کالڈ اسلامی معاشرے کے ہی ہیں۔ خیر مجھے اس اسلامی معاشرے کے مزید حقائق آپ سب آشنا ہیں۔ کہیں نا کہیں مجھے اس کی وجہ ہمارے نظام معاشرت میں سود کا شامل ہونا ہی لگتی ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے 1990 ء کی دہائی میں جب مغربی دنیا نے یہ شوشا چھوڑا تھا عصر حاضر میں احکام شریعت قابل قبول ، قابل عمل اور قابل نفاذ نہیں ۔ اور ہماری بد قسمتی کہ تب بھی شریف برادران مسند اقتدار پر بیٹھے تھے اور اس وقت کے وزراء نے مغرب کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے تھے۔ تب ایک مرد مجاہد اٹھا تھا شاید نام آپ کو یاد ہو اس نے کہا تھا ’’دنیا کے ٹاپ اکنامسٹ کو میرے سامنے بٹھا دیں وہ مجھ سے بلا سود بنکاری اور استحکام معیشت پر دلائل طلب کریں میں اپنے دلائل سے سود پر مبنی اس نظام معیشت کو رد کرکے نیا اسلامی معاشی نظام دوں گا اور ثابت کروں گا کہ شریعت اب بھی قابل قبول ، قابل عمل اور لائق نفاذ ہے‘‘۔ چیلنج تو کھلا اور عام تھا مگر کئی نامعلوم وجوہات کی بناء پر کوئی سامنے ہی نہ آیا۔

خیر 17اکتوبر 1994ء میں اسی انسان(نام آپ معلوم کرلیجئے گا) نے موچی دروازہ لاہور میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے سود کے متبادل نظام کا عملی خاکہ پیش کر دیا۔ اور پھر اس پر اپنی پر مغز کتاب بھی دی۔ مگر بے سود۔ اس کے پیچھے بھی اک نامعلوم وجہ تھی جس کی وجہ سے اسے اب تک نافذ نہیں کیا گیا۔ مگر شاید اب اس کی ضرورت نہیں رہی۔ ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر سود کی پہلے سے موجود وسیع و عریض انڈسٹری کو مزید وسعت دینے کے لئے علماء کرام سے سود کے معاملے میں گنجائش پیدا کرنے کا کہ چکے ہیں۔ اس مد میں کام جاری ہے امید ہے گنجائش نکل آئے گی۔ یہ ضرور کہوں گی’’شریک جرم ہی ہوگا جو اب خاموش رہا‘‘۔

معاشرے میں نگاہ دورائی جائے تو بہت سی اچھی اور مفید چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جن کی وجہ سے معاشرے سسکتے بلکتے ہی سہی قائم و دائم ہیں۔ اس معاشرے کے صاحب ثروت، صاحب استطاعت انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر ویلفئیر کی صورت میں غریب اور نادار لوگوں کی مدد کرتے رہتے ہیں۔ اور بحمد تعالیٰ اب یہ عادت رحجان پکڑ رہی ہے۔ پاکستا ن میں مختلف ویلفئیر مثلاََ ایدھی ، چھیپاویلفیئر، منہاج ویلفیئر سوسائٹی وغیرہ بلاشبہ لوگوں کے تعاون سے لاکھوں مستحق غرباء و نادار لوگوں کے لیے مسیحا کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ میں جس مسئلے کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتی ہوں وہ مسئلہ عزت نفس کا ہے۔ اخبار کی سرخیاں بنتی ہیں فلاں ویلفیئر سوسائٹی کے زیر اہتمام 80 جوڑوں کی اجتمائی شادی سر انجام پائی۔ اور تفصیلات میں ان جوڑوں کی تصاویر اور مہمان گرامی کی لمبی لسٹ موجود ہوتی ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں۔ وہاں چرب زبانی، طعنے اور احسان جتانا ہم اپنے بڑوں سے سیکھتے ہیں۔تو کہاں ممکن ہے کہ ان غریبوں کی سوسائٹی جہاں یہ رہائش پذیر ہوں وہ انہیں یہ احسان ختم کرنے دیں کہ یہ غریب ہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ لوگ ان کے قلبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچاتے ہوں؟ چلیں یہ لوگوں کا انفرادی اور اجتماعی رویہ ان ہی کی ذمہ داری ٹھہرا۔ اس قول کی اہمیت کہاں گئی جہاں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں(مفہوم) اگر تم کسی کی مدد کرو تو اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات بھی نہ کرو کہیں وہ غریب تمہارا احسان مانتے ہوئے آنکھیں جھکانے پر مجبور نہ ہو۔

کدھر گئی اس حدیث کی اہمیت کون سمجھائے گاجس میں حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ ایک ہاتھ سے دو اور دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔اسلام نوجوان نسل میں جو غیرت و حمیت اور خوداری پیدا کرنا چاہتا ہے کہیں نہ کہیں یہ سب چیزیں اس غیرت و حمیت اور خوداری کو ختم کرنے کا سبب ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک مفید معاشرے کے لیے مفید چیزیں ہیں۔ لیکن اجتماعی طور پر جو منفی اثرات جنم لے رہے ہیں اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ میں علماء کرام سے تو ہرگز اس معاملے پر غور کرنے اور گنجائش پیدا کرنے کا نہیں کہوں گی مگر عوام الناس سے ضرور کہوں گی کہ سوچیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہم اس راستے پر چلتے پر چلتے ہوئے کس منزل تک پہنچیں گے سوچئے گا ضرور۔
Iqra Yousaf Jami
About the Author: Iqra Yousaf Jami Read More Articles by Iqra Yousaf Jami: 23 Articles with 23531 views former central president of a well known Students movement, Student Leader, Educationist Public & rational speaker, Reader and writer. student
curr
.. View More