نیو ائیر سے پہلے محنتی ان تھک کام کرنے والی قوم کو تحفے
کے طور پر چار چھٹیاں میسر آئیں ۔ایسا موقع جب بھی آتا ہے تو میری کوشش
ہوتی ہے کہ ایک دن چھوڑ کر سفر کروں تاکہ اس قوم کے عذاب جہالت کا شکار
ہونے سے بچ سکوں ۔چھٹیوں کا اعلان ہوتے ہی پورا ملک ڈس لوکیٹ ہونا شروع ہو
جاتا ہے۔اس دفعہ ایک دوست کے اکسانے پر راضی ہو گیا کہ چلو چھٹیوں کے اعلان
کے ساتھ ہی بے ہنگم جم غفیر کے ساتھ ہی بے حس بن کر عازم سفر ہو جاتے
ہیں۔پہلا تحفہ تو دوست نے یہ بتا کر دیا کہ ٹرین کی ایک ہی سیٹ مل سکی
ہے۔دکھ کی خبر کے ساتھ یہ خبر مزید دکھی کر گئی کہ موصوف ایک پرایؤیٹ رن
ٹرین پر جا رہے ہیں جو کہ بڑی شاندار ٹریول سروس ہسٹری رکھتی ہے۔اس نے ٹرین
اونرز اور مینیجمنٹ کے وہ تعریفی پل باندھے کہ میرا بھی جی چاہنے لگا کہ اس
عظیم الشان پراجیکٹ کی سہولت سے فائدہ اٹھاؤں سیٹ ایک ہی تھی سو میں نے
مایوسی کے عالم میں لاری اڈہ کا رخ کیا۔اور ایک سو کالڈ AC کوچ کی ٹکٹ لے
کر بیٹھ گیا۔اڈے پر زیادہ ہجوم تھا مگر لاریاں بھی کافی تعداد میں تھیں ۔دل
خوش ہوا کہ چلو سیٹ مل گئی ہے سفر پر سکون گزرے گا۔سکون نامی لفظ کے بارے
میں ہم پاکستانی سوچ تو سکتے ہیں مگر اس کا ملنا اس دور میں بہت نایاب
ہے۔گاڑی اڈے سے نکلی تو وہ رش تھا کہ گاڑی تین گھنٹے رینگتی رہی۔اس پر عذاب
یہ کہ ڈرائیور اور کنڈیکٹر کی رگ ہوس سڑکوں چوراہوں پر کھڑے مسافروں کو
دیکھ کر پھڑک اٹھی ۔سیٹیں فل ہو جانے کے بعد انہوں نے سواریوں کو گاڑی کے
درمیان passage way پر کھڑا کرنا شروع کر دیا۔صورتحال گاڑی کے اندر بہت ہی
تباہ کن ہوتی جارہی تھی۔گاڑی میں کھڑے مسافر سیٹوں پر بیٹھی خواتین پر
تقریبا جھکے ہوئے تھے۔سیٹون پر بیٹھے لوگ شدید ڈسٹرب ہونے کی وجہ سے نالاں
تھے۔کھڑے مسافر خوش تھے کہ بھلے ہی کھڑے ہو کے سہی منزل مقصود پر تو پہنچ
جائیں گے۔کچھ مسفر دم گھٹنے کی شکایت بھی کر رہے تھے۔ڈرایور دلاسے دے رہا
تھا کہ راستہ کھل جائے پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔مسافر اے سی چلانے کے لئے
شور مچانے لگے ۔کنڈیکٹر نے ایک اور جھوٹ کا اضافہ کیا کہ تار اترے ہوئے ہیں
۔سیٹوں پر بیٹھے ہوئے مسافر کھڑے ہوئے مسافروں کو بے حس قرار دے رہے تھے
اور کھڑے ہوئے مسافر بیٹھے ہووں کو ظالم اور سفاک قرار دے رہے تھے۔اتنے میں
موٹر وے پولیس نے ویڈیو بنانے کے لئے گاڑی روکی ۔کھڑے مسافروں کو بڑے ادب
سے اتارا پہلے ان کی ویڈیو اتاری پھر سیٹوں پر براجمان بیزار مسافروں کی
ویڈیو بنائی ۔ان میں سے ایک مسافر نے ہمت کر کے اہلکار سے پوچھ ہی لیا کہ
یہ کیسا طریقہ کار ہے کیا اسطرح اوور لوڈنگ کرنے کی اجازت ہے ۔سوال کیا
پوچھا قانون حرکت میں آ گیا ۔تین ہزار جرمانہ کیا گیا ۔قانون بھی راضی اور
کنڈیکٹر بھی شاداں اور شکایت کرنے والا بھی خوش ۔گاڑی روانہ ہوئی تو سب
مسافروں نے کمپلینٹ کرنے والے کو خوب کوسا کہ تمہاری حرکت کی وجہ سے گاڑی
مزید لیٹ ہو گئی۔کھڑے مسافر زیادہ برہم تھے۔وہ صاحب جب اکیلے رہ گئے تو
انہوں نے سب لوگوں کو منافق اور چور کہنا شروع کر دیا۔بات ان کی ٹھیک تھی
سو میں نے کھلم کھلا ان کی حمایت کی ۔سو دو گیارہ دیکھ کر بے حس اور بزدل
مرغے خاموش ہو گئے ۔ہم لوگ شادی بیاہ ہو یا چھٹیاں کچھ بھی پلان نہیں
کرتے۔چھٹیوں کا اعلان کرنے میں اکژ حکومت کنفیوز ہو جاتی ہے۔سرکاری ملازمین
انتظار کی سولی پر لٹکے حکومت کے اعلان کا انتظار کرتے رہتے ہیں ۔اعلان
ہوتے ہی ہر طرف افراتفری مچ جاتی ہے۔پورا ملک اڈوں اور اسٹیشنز پر جا
پہنچتا ہے۔پھر جو طوفان بد تمیزی شروع ہوتا ہے وہ چھٹیوں کے خاتمہ تک جاری
رہتا ہے۔یہ ایوینٹس ہماری قومی بد انتظامی اور ناقص پلاننگ کا بھر پور عکاس
ہوتے ہیں۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے عیدوں سے لے کر پبلک ہالی ڈیز تک
یہی کچھ دیکھتا جوان ہوا ہوں۔چند سال پہلے اسی طرح چند ہالی ڈیز اکٹھی
ہوئیں تو میرے دوست نے پنڈی سے لاہور کے لئے ٹرین کی ایڈاونس بکنگ کروا
لی۔ارادہ تھا کہ چھٹیاں لاہور میں گھوم پھر کر یونیورسٹی کی یادوں کو تازہ
کر کے گذاری جائیں۔ تب بھی ابتر صورتحال کا شکار ہوئے تھے۔گوجرانوالہ
اسٹیشن سے ایک صاحب فیملی سمیت سوار ہوئے اور ہماری سیٹوں کے پاس آ کر کھڑے
ہو گئے ۔جب چند منٹ تک ہم نے انہیں بیٹھنے کی آفر نہ کی تو انہوں نے ہمیں
سنانے کے لئے اپنی بیوی کو مخاطب کر کے پڑھے لکھے جوانوں کی بد تمیزی اور
جہالت پر لیکچر کا آغاز کر دیا۔جب لیکچر میں سوز آنا شروع ہوا تو میں نے
دوست کو اشارہ کیا ہم نے سیٹیں ان کی دختر نیک اختران کے لئے خالی کر دیں
۔وہ صاحب خوش ہو گئے ۔تھینک یو کا لفظ پھر بھی ان کے منہ سے نہ نکلا۔الٹا
انہوں نے ایسے پوز کیا کہ جیسے سیٹں دینا ہمارہ مہربانی نہیں بلکہ ان کا حق
تھا جو انہوں نے ہم سے لڑ کر لیا۔دوست مجھ سے ناراض تھا کہ ہم نے ایڈوانس
بکنگ کروائی لیکن سفر پھر بھی ذلیل ہو کر کرنا پڑ رہا ہے۔میں نے بھی ان
صاحب کی طرح ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوست کو مخاطب کر کے عوامی جہالت
پر لیکچر کا آغاز کر دیاکہ ہم نے عادت بنا لی ہے نہ عزت کا خیال نہ فیملی
کر پرواہ گھر سے نکلے اور جو بھی لاری نظر آئی ہاتھ دیا سوار ہو گئے۔اس
کھیل میں پڑھے لکھے اور جاہل سب برابر ہیں ایسے مواقع پر لیڈیز کو سیٹ نہ
دینے والے جاہل نہیں ہوتے بلکی بنا پلاننگ لیڈیز کو رش اور دھکم پیل میں لے
کر گاڑیوں میں گھسنے والے جاہل ہوتے ہیں ۔"آکھاں دھی نوں سناواں نوں نو"اس
محاورے کا مطلب اس دن مجھے سمجھ میں آیا ۔ہم میگا پراجیکٹس کے دیوانے ضرور
ہیں مگر ہمارے تو بنیادی مینرز تک بگڑے ہوئے ہیں ۔چھٹیاں گزارنے کی ہمیں
تمیز تک نہیں اور میگا پرجیکٹس کے خواب بننے کی لگن میں جان ہلکان کرتے پھر
رہے ہیں ۔ترقی میں امریکا کو مات دینے کی ٹھانی ہوئی ہے سفر کرنے کی تمیز
تک نہیں۔
اس سفر کے چند دن بعد نیو ائیر آگیا۔خیر سے ہم نے نیو ائیر بھی بنانا شروع
کر دیا ہے۔طریقہ بے ہنگم ہے مگر امید پر دنیا قائم ہے۔کچھ لوگ نئے سال کو
منانے کی بجائے بکھ کا موقع قرار دیتے ہیں کہ زندگی کا ایک سال کم ہو گیاتو
خوشی کیسی۔ایک نقطہ نظر اور بھی ہے جو میرے خیال میں زیادہ فریش ہے۔نیو
ائیر وقت ہے نئی زندگی شروع کرنے کا ۔ہنسئے مسکرائے اور جا کر ان سے گلے
ملئے جنہوں نے آپ کو ناراض کر دیا یا جنہیں آپ نے ناراض کر دیا۔وہ جو آپ سے
کسی معمولی بات پر لڑ پڑے یا جن سے آپ کسی حقیر بات پر الجھ پڑے۔اپنے
والدین سے جادو کی جپھی ڈالئے اور ان سے وعدہ کریں کہ آپ انہیں کبھی مزید
ناراض نہیں کریں گے۔اس سب کے بعد اپنے آپ کو ایک پر خلوص جپھی ڈالیں اور
خود سے وعدہ کریں ہمیشہ اپنے آپ سے مخلص رہیں گے۔غریب اور نادار بچوں سے
گلے ملیں ان کو احساس دلائیں کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔خود سے غریبوں کی مدد
کرنے کا وعدہ لیں ۔اپنی زندگی سی لالچی اور خود غرض لوگوں کو نکال باہر
پھینکیں ۔یکم جنوری گذر گئی تو کیا ہواابھی مزید 354 دن رہتے ہیں ۔کیونکہ
Life is all about inspiration .Live it and feel it.
یہ میرے نہیں ایک خوشیوں سے لبریز آدمی کے الفاظ ہیں۔ہم اگر یہ اپنا نہیں
سکتے تو کم از کم شیئر تو کر سکتے ہیں ۔وقت کی رفتار بہت ظالم ہوتی ہے ۔ایک
دفعہ جب یہ اپنی چال چل جاتا ہے تو پھر پچھتاوے رہ جاتے ہیں ۔آئیں واپسی کا
سفر شروع کریں ۔ترقی کے سفر میں ہمارے کچھ بہت پیارے ہم سے بچھڑ گئے ہیں
۔ان کے بغیر منزل ادھوری رہ جائے گی۔منزل اہم نہیں ہوتی اصل ویلیو ہم سفروں
کی ہوتی ہے۔کھوئے ہوئے لوگ بھی منزلوں کی طرح ہوتے ہیں۔ان کے مل جانے سے
زندگی تر و تازہ ہو جاتی ہے انرجی بڑھ جاتی ہے۔آئیں ان دوستوں کو لینے چلیں
جو اسکول کے گیٹ پر ہمارے ساتھی بنے تھے۔جو انگلی پکڑ کر اسکول چھوڑ کر آئے
تھے ۔زندگی کی بہت ساری اچھی چیزیں اور قیمتی لوگ ہمارے منتظر ہیں۔
Although noone can go back and make a brand new start,any one can star
from now and make a brand new ending. |