رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف

مدارس کی ضرورت، ان کی اہمیت اور افادیت سے کسی کو مجالِ انکار نہیں۔ یقینامدرسہ دین کا وہ مستحکم قلعہ ہے ،جس کا حصار اسلامی تعلیمات کی بقاکے لیے سد سکندری ہے۔ ہمارے لیے اس کو فائدہ بہم پہنچانا، اس کی نگرانی ونگہ داشت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ عقل اور نقل ہر زاویے سے اگرلفظِ ’مدرسہ‘ کا جائزہ لیاجائے تو یہ بات مشترکہ طورپر ابھر کر سامنے آتی ہے کہ انسانیت کی فلاح وبہبود ، اس کی ترقی وبہتری اور اسلام کی ہمہ گیر اشاعت و تبلیغ ؛ان تمام شعبہ ہائے خیر میں مدارس کا اہم رول رہا ہے۔ مدرسہ کی بنیاد معلّم انسانیت ﷺکی درس گاہِ اوّل دارِ ارقم سے پڑتی ہے اور صفہ کے ذریعہ اس کومنظم ماحول فراہم ہوا ، اسی وجہ سے ’صفہ ‘کو اسلام کا پہلا مدرسہ بھی کہتے ہیں، لیکن جب ہم اسلام کے مدرسۂ اوّل’ ’صفہ‘‘ اور موجودہ زمانے کے مدارس کا ایک طائرانہ جائزہ لیتے ہیں،تو دونوں کی نوعیت، نظام اور طریقۂ کار میں سالوں کی مسافت کی وجہ سے گہری خلیج حائل نظرآتی ہے۔ ابتدائے اسلام میں مدرسہ کی بنیاد کا مقصد انسانیت کو قعرِ مذلت سے نکال کر، علم وحکمت کی روشنی سے روشناس کرانا تھا، صفہ کی بنیاداسی لیے پڑی تھی؛ تا کہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی تعمیروترقی کے ساتھ بلاتفریق رنگ ونسل، ذات پات اور مذہب، انسانیت کی فلاح اور خیر کاکام ہو سکے۔ اس کو اس لیے وجود بخشا گیا تاکہ انسانیت کو ایک مرکز اور سینٹر کے تحت جوڑاجائے اور لوگ اپنے اپنے معاملات اور مسائل کو براہِ راست اس خاص مرکز سے وابستہ کر سکیں۔ قربان جائیے اس ہادیِ برحق ﷺ پر کہ آپؐ نے اس کے نفع کو محدود نہیں کیا اور صرف صفہ ہی کو تعلیم کا واحد مرکزقراردیا، بلکہ وقت اور ضرورت کے اعتبار سے اس کے دائرۂ کارمیں توسیع کی اور صحابۂ کرام رضون اللہ علیہم اجمعین کی نگرانی میں جگہ جگہ اس کی شاخیں قائم کیں ۔ابتدائے اسلام میں آپؐ نے دارِ ارقمؓ کو اپنی اوّلین درسگاہ بنایا ،مگر جب ضرورت اوروقت نے تقاضا کیا تو آپؐ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو اسلام کا پہلا مبلغ بناکر یثرب(مدینہ منورہ) میں اسلام کی ایک اورشاخ کھول دی۔ اور جب خود معلمِ انسانیت ؐہی بنفسِ نفیس اس درسگاہ کے معلم بن چکے، تو صفہ کی شکل میں اس کو یہ مقام دیا کہ اب یہی مرکزی مدرسہ ہوگا اور پورے عالمِ انسانیت میں اس کے فیض کو جاری وساری رکھنے کے لیے ، آپؐ نے اور آپؐ کے بعد آپؐ کے خلفائے راشدین نے کوفہ و بصرہ میں اس کی شاخیں قائم کیں اور جوئے علم کے پیاسوں کواس سے سیراب کیا۔پھر جوں جوں اسلام پھیلتا گیا اسی قدر مدرسہ کا دائرۂ کار بھی بڑھتا اور وسیع سے وسیع تر ہوتا گیااور جب تک قائدینِ اسلام، اسلام اور دین کو مضبوطی سے پکڑے رہے، پوری انسانیت اور کائناتِ ارضی پر ان کی حکومت قائم رہی۔ مگر جب ہمارے ذمہ داران، مدارس اور اسلامی مراکز کو اپنی جاگیر اور ملکیت تصور کرنے لگے، ان کا خیر اٹھ گیا اور مسلم قوم ذلیل وخوار، رسواوبدنام اور مقہورومغلوب ہونے لگی۔تو آپ کو تعجب ہوگا کہ صرف ایک صفہ کے تربیت یافتہ اورفضلانے ایونِ باطل میں کھلبلی مچادی تھی اور ساری طاغوتی طاقتوں کے پرخچے اڑادئیے تھے ،جبکہ آج صرف ہندوستان میں0 35,0مدارس ہیں،اس کے باوجود بھی ہماری حالت ناگفتہ بہ ہے۔ یہ اعدادوشمار 2003 ء کے سروے کے مطابق ہیں اورہر سال اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے نام پر پورے ملک میں سیکڑوں مدارس قائم کیے جاتے ہیں ، اس اعتبار سے موجودہ وقت میں مدارس کی تعداد کم وبیش پچاس ہزار ہوں گے، جن میں تقریبا تیس فیصد مدارس میں موقوف علیہ( مشکات شریف) اور فضیلت تک کی تعلیم ہوتی ہے، یعنی ان پچاس ہزار مدارس میں سے پندرہ ہزار مدارس میں عالیہ درجہ تک کی تعلیم ہوتی ہے، لیکن جب نتیجہ اور رزلٹ پر نگاہ ڈالیں گے تو نتیجہ صفر ہوگا۔ یہ بات میں بلا سند نہیں کہتا، آپ خود ہی تخمینہ لگا کر دیکھ لیجیے کہ ان پندرہ ہزار مدارس میں سے کم از کم دس ہزار طلبا ہر سال سندِ فراغت حاصل کرتے ہونگے ، لیکن آج خود ان مدارس اورپوری امت کے سامنے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ دس ہزار آخر کہاں گم ہوجاتے ہیں؟ سرکاری دفاترمیں تو ان کی تعداد صفرہی ہے ، مدارس اور مساجد میں خدمت کے لیے بھی کوئی نہیں ملتا۔ صرف مہاراشٹرکے کو کن کی ڈیڑھ سو مساجد بغیر امام کی خالی پڑی ہوئی ہیں ، اس کے علاوہ ہندوستان کے دوسرے شہروں اور قصبوں میں بے شمار مساجد اور مدارس کا بھی یہی حال ہے۔ ان چشم کشاانکشافات کے بعد میری طرح آپ کے ذہنوں میں بھی یہ سوال گردش کرتا ہوگا کہ آخر ہمارے فضلا جاتے کہاں ہیں؟ اَیا ٖفراغت کے بعد وہ خودکشی کر لیتے ہیں، یا ان کو سانپ نگل جاتا ہے ، یا ان کو تاریک وتنگ کوٹھریوں میں پابہ زنجیرکر دیا جاتا ہے ؟ جواب تو میرے ذہن میں بھی کوئی معقول نہیں ہے، البتہ جب ہم سڑکوں اور چھوٹے چھوٹے کارخانو ں اور فیکٹریوں پر نظر ڈالتے ہیں، تو ان کی وضع قطع کی کچھ مبہم اور کچھ معلوم تصویریں میری آنکھوں کے پردے پر چھانے لگتی ہیں اوران سے ملاقات اورگفتگو سے ایسا لگتا ہے کہ شاید یہ بھی فضلاے مدارس کی اُس صنف کے ایک ستم رسیدہ شخص ہیں ، جس نے در بدر پھرنے کے بجائے اس بے نامی کی زندگی کو ترجیح دی ہے ۔ اس حالتِ زار کو دیکھ کر آنکھیں نمناک ، دل مضطرب اور ذہن پریشان ہوجاتا ہے اورہمارا ساراوجود تھوڑی دیرکے لیے متحیراورساکت وصامت ہوجاتاہے اوریہ سوچتے ہوئے دل پرایک چوٹ سی لگتی ہے کہ جس جماعت کوانسانیت کی رہبری کے لیے منتخب کیا گیا تھا، آج وہ خود رہبر کی تلاش میں سرگرداں ہے۔معاََدل میں یہ خیال آتا ہے کہ یہ بھی تو تمہارا ہی بھائی ہے، تم تو اپنے حقیقی بھائیوں کے حال دریافت کرتے ہو ، کیا تم نے کبھی اس کے دل کے کرب کو سننے کی بھی زحمت کی ہے ؟ میں بھی کیا خوب خودغرض ہو ں ، اس طرف توجہ کیے بغیر اپنی دنیا میں گم ہوجاتا ہوں۔ تبھی ایک زناٹے دار طمانچہ اس آواز کے ساتھ کہ’’ جو شخص مسلمانوں کے مسائل ومعاملات کو اہمیت نہ دے اور ان کے لیے فکر نہ کرے وہ مسلمانوں میں سے نہیں، جو شخص صبح وشام اللہ تعالیٰ، اس کے رسول، اس کی کتاب اور اس کے امام( خلیفۂ وقت) اور عام مسلمانوں کے تئیں مخلص نہ ہو وہ مسلمانوں میں سے نہیں‘‘۔ ( الترغیب والترہیب، ج:۲؍ص ۵۷۷ ) میرے خواب وخیال کے گال پر پڑتا ہے اور میں عالم حقیقت میں غوطہ کھانے لگتا ہوں اور پھر اپنی پوری قوت کے ساتھ اس کام کو کرنے کا عزم لے کر اٹھ بیٹھتا ہوں ، اس امیدکے ساتھ کہ شاید کوئی میری رہنمائی کرنے والا مل جائے۔

یہ سوال یقیناًحقیقت پر مبنی ہے ، لیکن اس سوال کا جواب صر ف ایک تنہا وہ بھی ایک بے علم، جاہل پوجاری کیسے دے سکتا ہے؟ اس کے لیے توہم سب کو بلاتفریقِ رنگ و نسل، ذات پات اور فکرونظر، ایک ساتھ بیٹھ کر ہی غوروفکر کرنا ہوگا، تبھی ہم اس معمہ کو حل کر پائیں گے۔مگر اس معمہ کا حل ممکن کیسے ہو ، اس کے لیے چند باتیں قابلِ غور ہیں، معلم انسانیت ﷺنے تو صفہ کو تمام اسلامی تعلیمات کا مرکز قرار دیا تھا، اس کے بالمقابل آج ہندوستان میں موجود پچاس ہزار مدارس کو کوئی مرکز اور سینٹر حاصل نہیں ہے، ہرمکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے، بلکہ ایک جماعت کے متعدد مدارس کے الگ الگ خیالات اور عزائم ہیں، ان کی سوچوں میں ہم آہنگی، یگانگت اوریکسانیت نہیں ہے۔ مدارس کے بیشتر ذمے داران اورمہتممین ان مدرسوں کو اپنی ملکیت اور خاندانی جاگیر سمجھ کرایک’ ڈکٹیٹر‘ کا کردار اداکرتے ہیں، اکثر ذمہ داران انسانیت اور طلبا کی تعمیر وترقی کے بجائے، اپنی ’ظاہری ومعنوی ترقی‘ کو اولین تریح دیتے ہیں،تعلیمی ترقی کے بجائے وہ لوگ مدرسے کی عمارت کی ترقی اور زیبائش پر اپنی محنت اور قوم کے سرمایہ کو صرف کرتے ہیں۔لہذا اگراللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل وفہم دیا ہے اور ہم اپنی ذات اور نئی نسل کے ساتھ انصاف اور پھر سے مدارس کی افادیت کو عام کرنا چاہتے ہیں تو:

بلا تفریقِ فکرونظر اپنے اپنے مدرسہ کے نظام کو کسی ایک مرکز کے تابع کریں۔طلبا کے تعلق سے دو باتوں کا خیال رکھیں: ایک تو موضوع سے متعلق ان کی دلچسپی، دوسری ان کے مستقبل کے عزائم۔ یعنی کہ ہمارا طالبِ علم جس مضمون میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے، اس کی اسی موضوع میں مکمل رہنمائی کریں؛ اس لیے کہ جو موضوع اس کا پسندیدہ ہوگا ، وہ اس کو دلچسپی سے پڑھے گا اور کچھ بعید نہیں کہ وہ اس میں یکتائے روزگار بن جائے، نیز طلبا کی چاہت معلوم کریں کہ وہ کیا بننا چاہتے ہیں، تاکہ اسی اعتبار ان کے لیے میدانِ کارتلاش کریں اور اس کے لیے سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم مدارس کی سند کو سرکاری سطح پر اہمیت دلوائیں۔ اس کے لیے تین امور ناگزیر ہیں؛ پہلا یہ کہ جس ادارہ کو ہم مرکز بنائیں ، وہ اپنے ذیلی تمام مدارس کے فضلا کو سند فراہم کرے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ خود اس مرکزی مدرسہ کی سند بھی حکومت سے منظور شدہ ہو۔اگر یہ شکل ممکن نہیں ، تو ہر مدرسہ کسی نہ کسی حکومت سے منظور شدہ اسکول اور کالج سے ملحق ہو ، تاکہ یہ ذیلی مدارس بہ آسانی اپنے طلبہ کو سند فراہم کرسکیں ، اس میں یہ بات ضرور قابلِ لحاظ رہے کہ الحاق کا مطلب یہ نہیں کہ اس مدرسہ کی سند کی بنیاد پر فلاں اسکول اور کالج میں داخلہ ہوجائے ، نہیں ! بلکہ الحاق اس طرح ہوکہ وہ اسکول ان بچوں کا ضمنی یا جو بھی شکل طے ہو امتحان لے،پھر اسکول خود ان طلبہ کو اپنے یہاں سے سند فراہم کرے، جس پر مدرسہ اور اسکول دونوں کی مہر اور ذمہ داران کے دستخط ہوں۔ اس سلسلے میں تیسری بات جو سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے، یہ ہے کہ ہم اپنے نصابِ تعلیم میں جدید علوم کے کچھ موضوعات داخل کریں ؛ اس کے لیے ہمیں اپنے نصاب کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ مروجہ نصابِ تعلیم میں سے کچھ خاص اور اہم مضامین کو اپنے نصاب میں شامل کرلیں اور طلبہ کو ان کی تعلیم دیں، جیساکہ سعودی عرب اور دیگر عرب اور یورپی ممالک کے مدارس میں رواج ہے۔ ان ممالک میں جب کوئی طالبِ علم مدرسہ سے فراغت حاصل کرتا ہے تو ساتھ میں اس کو ہائی اسکول اور کالج کی سند بھی دی جاتی ہے ، جس کی بنیاد پر وہ اپنی زندگی کے دیگر مسائل کو بہ آسانی حل کر پاتے ہیں۔ا س کا سب سے بڑافائدہ یہ ہوگا کہ ہمارے طلبہ گیارہ بارہ سال پڑھ کر کم از کم جاہل تو نہیں کہلائیں گے ، ان کی اسناد کی کم از کم اتنی اہمیت توضرور ہوگی کہ وہ اپنے پاسپورٹ اور دیگر سرکاری کاغذات پر اپنے آپ کو فخر سے تعلیم یافتہ کی فہرست میں شامل کرسکیں۔ نیز اہلِ مدارس کے لیے ایک اہم اور ضروری بات یہ بھی ہے ،کہ ہمارے ذمہ داران ہندوستان کے تمام مدارس کے طلبہ کا سالانہ ایک تعلیمی نمایش کاتقابلی پروگرام منعقد کریں،جس میں حدیث وفقہ ، اسلامی اورعصری معلومات، مقالہ نویسی، خطابت پر طلبہ اپنی اپنی تیاریوں کے ساتھ شرکت کریں، اس کا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ طلبہ میں خوداعتمادی بحال ہوگی، نیز ان کی صلاحتیں ابھر کر عوام اور دنیا تک پہنچیں گی ۔ اور جن طلبہ اور ذمہ داراوں نے پورے سال سستی وکاہلی سے کام لیا ہوگا، وہ بھی اپنے مدرسے اوربچوں کے رزلٹ سے سبق حاصل کریں گے ،آئندہ پھر کسی قسم کے اقدام سے پہلے انہیں یہ ضرور احساس ہوگا کہ ان کے سروں پر تو مرکزی مدرسہ اور عوام ہے ،جن کے سامنے انہیں جواب دہ ہونا ہے ، اس لیے اب وہ اپنا ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھائیں گے۔ اور خود احتسابی کا احساس جس قوم میں آگیا، اس کو ترقی کرنے اور کامیابی کے اَوجِ ثریا پرپہنچنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔

یہ کچھ رہنمااصول ہیں، جو یقیناًمستقبل میں مدارس اورفضلاے مدارس کے لیے مشعلِ راہ بن سکتے ہیں ۔ میرے گذشتہ مضمون’’گیارہ سال پڑھ کر بھی جاہل کہلائے‘‘ کی ہر چہارجانب سے پذیرائی ہوئی ، تاہم مجھے اپنے تعلق سے کوئی خوش فہمی نہیں ہے اورنہ ہی ذاتی مفادبرآری مقصودہے ،میں نے تو اپنے ان تمام لاکھوں بھائیوں(فضلاے مدارس) کے درد کو اپنے ذمہ دارعلما اورمدارس کے اربابِ حل و عقد تک پہنچانے کی کوشش کی ہے،اس امید کے ساتھ کہ:
کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاںآباد !

اس مضمون کے مشمولات سے کسی ادارے یامدرسے کی تحقیر یا ذمہ دارانِ مدارس کی دل آزاری ہرگزبھی مقصود نہیں، پھربھی اگرکچھ برامحسوس ہو،تومیں معذورہوں اس گزارش کے ساتھ کہ:
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ دردمرے دل میں سِوا ہوتاہے!
 

Rameez Ahmad Taquee
About the Author: Rameez Ahmad Taquee Read More Articles by Rameez Ahmad Taquee: 89 Articles with 66061 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.