اولاد کی تربیت ماں باپ کی ذمہ داری ہے

 اﷲ تعالی کی بے شمار نعمتوں، نوازشوں اور احسانات میں سے ایک عظیم نعمت اولاد اور بچے ہیں۔اس نعمت کی قدر ذرا ان لوگوں سے پوچھ کر دیکھئے جو اس سے محروم ہیں۔ وہ اسے حاصل کرنے کے لئے اپنا کتنا قیمتی وقت اور کتنی دولت ومحنت صرف کرچکے ہیں اور ابھی مزید خرچ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اولاد اﷲ تعالی کی امانت ہیں۔ قیامت کے دن والدین سے ان کے بارے میں باز پرس ہوگی۔آیا انھوں نے اس ذمہ داری کو محسوس کرکے اس امانت کی حفاظت کی تھی یا اسے برباد کردیا تھا۔اسلامی نقطہ نظر سے بچہ کی آموزش کا دور ماں کے پیٹ میں قرار پانے والے نطفہ سے بھی پہلے شروع ہوتا ہے، بوقت نکاح زوجین میں حسن کردار اور اسلامی قدروں کی اہمیت بچہ کی کامیاب زندگی میں غیر معمولی تاثیر ہی کی وجہ سے ہے، جدید تحقیقات نے بھی اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ ماں باپ کی اپنی تربیت ،ان کے جذبات وخواہشات، ان کے علم و ذہانت کااثر براہ راست بچوں پر پڑتا ہے، اس لیے مثالی اور باکردار اولاد کی آرزو کے حوالہ سے باپ کے اقدام، نکاح اور بیوی کے انتخاب کا مرحلہ انتہائی نازک اور بڑا اہم ہے، گھر اور خاندان ہی اولاد کے روشن یا تاریک مستقبل کا حقیقی سبب ہے ،ماں باپ کو اولاد کی تربیت میں سستی اور کوتاہی ہرگز نہیں کرنی چاہیے، اولاد کی تربیت ماں باپ کی ذمہ داری ہے۔ یہی اولاد جو ہمارے لیے زینت ہیں اگر دین اسلام پر ان کی تعلیم و تربیت نہ کی جائے اور انھیں اچھے اخلاق نہ سکھائے جائیں تو یہ رونق وجمال بننے کے بجائے دنیا وآخرت میں وبال بن جاتے ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے کہ ماؤں کو چاہیے کہ بچوں کی تربیت کی فکر حمل کے زمانے ہی سے کرتی رہیں، آج کتنے ماں باپ ایسے ہیں کہ ان کو اپنی اولاد سے شکایت ہے کہ اولاد کہنا نہیں مانتی، ماں باپ کے علاوہ سب کی بات سنتی ہے، یہ بھی تو دیکھو کہ آپ نے اسی طرح تربیت کی تھی، یا نہیں؟ پہلے زمانے میں لوگ سمجھتے تھے کہ اولاد بنے گی تو میری وجہ سے، بگڑے گی تو میری وجہ سے، اس زمانے میں لوگ سمجھتے ہیں کہ بنے گی تو خود بنے گی اور بگڑے گی تو خودبگڑے گی، جس کا نتیجہ لامحالہ یہی نکلے گا کہ اولاد تو بھگتے گی ہی، ماں باپ کو بھی بھگتنا پڑے گا، آج کل اولاد کی وجہ سے لوگ کتنے پریشان ہیں؟ اس کی وجہ صحیح تربیت نہ ہونا ہے، جب کہ اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، بہر حال آج کا سب سے بڑا المیہ اور فکر یہ ہے کہ اولاد کی صحیح تربیت کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے صالح معاشرہ وجود میں نہیں آرہا ہے اور جب صالح معاشرہ وجود میں نہیں آئے گا تو جرائم کی کثرت ہوگی۔ بچے عام طور پر لاڈ پیار میں زیادتی سے خراب ہوتے ہیں۔ وہ لاڈ پیار جو تربیت کی روح سے خالی ہو۔ تربیت کے معاملے میں نرمی اورسختی دونوں کی ضرورت ہوتی ہے بچے کو جھوٹ بولنے، چوری کرنے،گالی دینے، غیبت کرنے، امانت میں خیانت کرنے، وعدہ خلافی کرنے،شراب پینے، جوا کھیلنے، آوارہ پھرنے اور وقت ضائع کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے اور اگر ایسی کوئی بات بچے سے سرزد ہو جائے تو فورتنبیہ بھی کرنی چاہئے۔ تنبیہ نہ کرنے سے بچے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سلطانہ ڈاکو ابتداء میں ایک انڈا چوری کرکے لایا تھا اس پر تنبیہ نہ کرنے کی وجہ سے اْسے جرات ہوئی اور چوری کی عادت نے اسے شہرت یافتہ ڈاکو بنا دیا۔ جب وہ گرفتار ہوا اور اس کو پھانسی دی جارہی تھی تو اس سے پوچھا گیا کہ آخری خواہش کیا ہے تو اس نے کہا کہ آخری خواہش اپنی ماں سے ملاقات کرنا ہے۔ اس کی خواہش کے احترام میں اس کی ماں کو اس کے سامنے لایا گیا۔ اس نے ماں کے قریب جا کر بجائے کچھ کہنے کے ماں کے کان کو دانتوں سے چبا لیا۔ جب اس سے دریافت کیا گیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تو اْس نے جواب دیا کہ جس وقت میں انڈا چوری کرکے لے آیا تھا اگر میری ماں نے روکا ہوتا تو میں ڈاکو نہ بنتا اور آج تختہ دار پر نہ لٹکایا جاتا۔ والدین کو چاہئے کہ بچے کے اندر قرآن پاک پڑھنے کا شغف پیدا کریں تاکہ بچہ بڑے ہونے کے بعد قرآن پاک کو اپنی زندگی کا دستور بنائے اور اس کی روشنی میں زندگی کا سفر طے کرے۔ ایسے والدین بڑے مبارک ہیں اوراﷲ کے حضور میں ان کی بڑی پذیرائی ہو گی۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس نے قرآن پاک پڑھا اور اس پر عمل کیا اس کے والدین کو قیامت کے دن ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی سورج کی روشنی سے فائق ہو گی ،پھر تو تمہارا کیا خیال اس شخص کے بارے میں جس نے اس پر خود عمل کیا ہے۔بچے کی اچھی تربیت جہاں ان کے کام یاب مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے، وہیں یہ معاشرے اور ملک و قوم کی ترقی میں بھی اہم رول ادا کرتی ہے، بچوں کی تربیت میں والدین کا کردار اہم ترین ہوتا ہے ،بچہ کم عمری میں اپنے ارد گرد جو کچھ دیکھتا ہے اسے سیکھنے کی کوشش کرتا ہے، اس لیے والدین کو اپنے طرز عمل میں بہت محتاط رہنا چاہیے، ناپسندیدہ کاموں سے گریز کرنا چاہیے، بچوں کو جھوٹ بولنے سے منع کرنا ہو تو نصیحتوں کے ساتھ ساتھ خود بھی اس سے پرہیز کرنا چاہیے، آپ دیکھیں گے کہ بچے سچ بولنے کے عادی ہوجائیں گے۔ لہٰذا والدین کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ اسلامی تربیت دینے کی کوشش کریں تاکہ ان کے اخلاق و سلوک میں انحراف پیدا نہ ہو۔ دشمنانِ اسلام ان نونہالوں کے اخلاق و عقائد کے بگاڑنے اور انہیں اسلامی شریعت سے دور کرنے کی نت نئی قسم کی سازشیں کر رہے ہیں۔ ریڈیو ٹی وی اورفحش لٹریچر کے ذریعہ ان کے اخلاق و کردار کو برباد کرنے کی انتھک کوشش کر رہے ہیں، ایسی صورت میں ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ بچوں کو دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرکے انہیں ضائع ہونے سے بچائیں۔ ہمارے غم خوار نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ انسان ،جس کا ذمہ دار اور رکھوالا ہے، انہیں ضائع کر دے یعنی ان کی تربیت نہ کرے۔تمام والدین کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ یہ بچے بڑے ہوکر مستقبل میں ملک وملت کا نام روشن کریں، کوئی بھی والدین یہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے ناکام ہوں، یہ فرض ہے کہ بچوں کی صحیح تربیت کریں اوراس کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت نہیں، بلکہ صحیح اور منظم طریقہ سے ہم ایسی عادات کا بچوں کو خوگر بنائیں ،جس کے وہ عادی ہوجائیں، مثلاً معمولی غلطیوں کو بھی نظر انداز نہ کریں، بیجا لاڈ پیار کی وجہ سے بچپن کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو درگذر نہ کریں، کھیل کود کے لیے وقت مقرر کریں، بچپن ہی سے نماز کی عادت ڈلوائیں، صحابہ کرام کے سچے واقعات سنائیں اگر مائیں اس طرح کا نظم وضبط کا خیال رکھتے ہوئے بچوں کو اچھی اچھی عادات اور اطوار کی عادی بنائیں گی تو جلد ہی اس کا اچھا اثر بچوں میں ملاحظہ فرمائیں گی، کیوں کہ مستقبل میں یہی عادتیں کا میابی کی ضمانت ہوتی ہیں۔
Sajjad Ali Shakir
About the Author: Sajjad Ali Shakir Read More Articles by Sajjad Ali Shakir: 133 Articles with 143627 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.