ان اللہ مع الصابرین‘ بےشک اللہ
صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اہل ایمان ہم مسلمان جو اللہ اور اسکے پاک نبی
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کے پاک کلام پر ایمان کے دعوے دار ہیں اور
کلام پاک کے اس بیان کی حقیقت پر دل و جان سے ایمان بھی رکھتے ہیں لیکن یہ
کیسا ایمان ہے یہ کیسا دعویٰ ہے جو وقت پڑنے پر دکھائی نہیں دیتا کیا ہم اس
دعوے پر عملی طور پر پورا اترتے ہیں عملی زندگی میں صبر و تحمل کا مظاہرہ
کرتے ہیں ۔۔۔ نہیں ناں تو پھر ہم کیسے اہل ایمان ہیں کہ جو ایمان کا دعویٰ
تو کریں لیکن اس دعوے پر عمل نہ کریں-
آپ کے مشاہدے میں بھی یہ بات ہوگی کہ ہمارے ہاں اکثر بہت چھوٹی چھوٹی سی
بات پر لڑائی جھگڑے دنگا فساد توڑ پھوڑ اور نقصانات کی مختلف صورتیں در پیش
رہتی ہیں ایسا کیوں ہے اسی لئے کہ ہمارے مزاج سے صبر و تحمل کا مادہ ختم
ہوتا جا رہا ہے ہم کسی کی چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی برداشت کرنے کے روادار
نہیں ہم صبر کا مظاہرہ نہیں کرتے درگزر نہیں کرتے جبکہ یہ خصوصیات ہمارے
پیارے نبی پاک کی ذات کا حصہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ
دوسروں کے ناگوار طرز عمل کے باوجود بھی صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا ہے دوسروں
کی بڑی سے بڑی خطا پر بھی درگزر فرمایا ہے اور اپنی ذات مبارکہ پر ستم
ڈھانے والوں کو ناصرف معاف فرمایا بلکہ ان کے حق میں دعا بھی فرمائی ہے-
اور ہم یہ کیسے مسلمان کیسے اہل ایمان ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ پر
آپ کی سنت پر عمل کرنے کو تیار نہیں یہ کیسی محبت یہ کیسی دعوے داری ہے جو
ہمیں عمل کے لئے متحرک نہیں کر پاتی-
آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب کسی پر ناگہانی آفت آ پڑتی ہے یا اچانک کوئی دکھ یا
تکلیف ملتی ہے کوئی نقصان ہو جاتا ہے تو اس کا رد عمل کیا ہوتا ہے شکوہ
شکایت الزام تراشی واویلہ کبھی تو معمولی نقصان پر ایک دوسرے کے دست و
گریبان ہوا جاتا ہے کبھی کسی بچے سے کوئی چیز ٹوٹ جائے تو اس کے منہ پر زور
دار تھپڑ رسید کر دیا جاتا ہے خدا کے بندوں کیا چیزیں اللہ کے بندوں سے
زیادہ بہتر ہیں کہ جن کے نقصان پر اتنا واویلہ مچایا جائے-
چند لوگوں میں یہ صفت بھی پائی جاتی ہے کہ اپنے نقصان کا اپنی بربادی کا
الزام بڑے آرام سے دوسروں کے سر تھوپ دینا یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اپنی
بربادی کا الزام دوسروں پر لگا دیا جائے خود پر بےصبری اور غم و غصے کا
عالم طاری کرتے ہوئے زبان سے اس طرح کے کلمات کا جاری کیا جانا‘ آئے ہائے
یہ ہمارے ساتھ کیا ہو گیا یہ مصیبت ہم پر ہی آنی تھی پتہ نہیں کس منحوس کس
حاسد نے دشمنی نکالی ہے یہ کس بد نظر کی نظر لگ گئی ہماری خوشیوں پر، اور
تو اور اگر کسی کا نیا ‘سوٹ‘ کسی کیل وغیرہ میں آکر کٹ پھٹ جائے (بھلے ہی
یہ اپنی جلد بازی کا نتیجہ ہو) یہ کہنا کہ میرا یہ لباس دیکھ کر فلاں نے
بڑی آنکھیں پھاڑ کر تعریف کی تھی پتہ نہیں کس دل سے تعریف کی تھی کہ ۔۔۔۔
دیکھ لو ستیا ناس ہو گیا میرے اتنے پیارے نئے ‘ڈریس‘ کا۔۔۔وغیرہ وغیرہ-
یہ تو خیر معمولی باتیں ہیں جن کا بتنگڑ بڑی آسانی سے بنا کر کسی نہ کسی
نئے جھگڑے کی بنیاد رکھ لی جاتی ہے اسی طرح کچھ اسباب ایسے بھی ہوتے ہیں
کچھ خطائیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو انسان سے دانستہ یا نا دانستہ سر زد ہو
جایا کرتی ہیں اور ان کے نتیجے میں انسان کو جو تکلیف اٹھانا پڑتی ہے اس پر
بھی صبر کرنے اور اپنی کوتاہی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی غلطی درست کرنے کی
کوشش کے بجائے بےتکی بے صبری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے معلوم نہیں کہ ہم لوگ
کہاں جا رہے ہیں کیا کر رہے ہیں اگر ایسی چھوٹی موٹی معمولی باتوں کو صبر
سے برداشت کر لیا جائے تو خود ہمارے اپنے حق میں ہی بہتری کے صورت پیدا ہو
سکتی ہے-
یہ تو ذکر تھا روز مرہ کی معمولی باتوں کا جن میں سے اکثر ہماری اپنی ہی
لاپرواہی کے طفیل بھگتنا پڑتی ہیں کہ یہ دنیا دارالعمل ہے یہاں جیسا عمل
کیا جاتا ہے ویسا ہی نتیجہ سامنے آتا ہے لیکن ہم میں سے اکثر اس حقیقت کو
تسلیم ہی نہیں کرنا چاہتے کہ کسی خرابی یا نقصان کی ذمہ داری اپنے سر بھی
لے لی جائے یہ الزام تو صرف دوسروں کے سر تھوپنے کے لئے ہی ہوتا ہے اور ہم
خود تو ہر قسم کی خطا سے بری الذمہ ہیں ہم کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتے ہمیشہ
دوسرا ہی غلطی پر ہے اور جو نقصان ہے وہ سب دوسرے ہی کی خطا کا نتیجہ ہے ہر
انسان کو دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی تنقیدی نگاہ سے جانچنے کا ظرف
ہونا چاہیے اور اپنی اچھی بری ہر قسم کی عادات کا بنظر غائر جازہ لیتے ہوئے
اپنی اصلاح کی کوشش کرنا چاہیے اور یہ کوئی مشکل کام نہیں نہایت آسان ہے
اگر ہم ایسا چاہیں تو۔۔۔
خیر بات ہو رہی تھی صبر کی جس کی آج ہمیں کچھ زیادہ ہی ضرورت ہے یہ بھی سچ
ہے کہ اللہ رب العزت اپنے بندوں کو آزماتا ہے کبھی خوشی سے کبھی تکیلف سے
کبھی غربت سے کبھی تونگری سے کبھی دولت سے کبھی بیماری سے اور یہ دیکھتا ہے
کہ اللہ کے وہ کونسے بندے ہیں جو اللہ کی آزمائش پر دل و جان سے صبر و تحمل
کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ کی رضا میں راضی رہتے ہوئے پورا اترتے ہیں وہ کون
لوگ ہیں ہیں جو اپنے دعویٰ ایمان پر ہر حال میں قائم رہتے ہیں جو قضا و قدر
کے ہر فیصلے کو رضائے الٰہی سمجھتے ہوئے اس کے ہر فیصلے پر برضا و رغبت سر
تسلیم خم رکھتے ہیں-
اللہ اپنے بندوں کو آل اولاد اور مال دونوں کی کثرت سے بھی آزماتا ہے اور
تنگی سے بھی مگر جو لوگ دونوں صورتوں میں یہ ثابت کر دیں کہ وہ واقعتاً
اپنے دعویٰ ایمانی میں کامل ہیں تو پھر ان سے زیادہ خوش بخت اور کون ہو
سکتا ہے کہ پھر رب کی ہر آزمائش پر ہر طرح کے حالات میں صبر و تحمل کا
مظاہرہ کرتے ہوئے خالق کے ہر حکم کی بسر وچشم تعمیل بجا لانے والوں کے لئے
خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی لازوال رحمتوں اور عنایتوں کا سایہ ان کے
سروں پر ہمیشہ قائم دائم رہے گا اور یہ خود ذات باری تعالیٰ کا اپنے بندوں
سے وعدہ ہے کہ “ بےشک اللہ تعالٰی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے“-
یاد رکھیں جو لوگ رب کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں، دوسروں پر ظلم کرتے ہیں
زمین پر اکڑ کر چلتے ہیں انہیں ایک نہ ایک دن اپنی کم ظرفی و ناشکری کے تحت
ان تمام تر نعمتوں سے محروم ہونا پڑتا ہے کہ جو دینے پر قادر ہے وہی چھین
لینے کی بھی قدرت رکھتا ہے کیونکہ زمین وآسمان میں جو کچھ ہے وہ اسی رب کی
دسترس میں ہے جو تمہارا اور اس پوری کائنات کا یک و تنہا خالق و مالک اور
مختار کل ہے تو پھر تم کس بات پر اتراتے پھرتے ہو۔۔۔؟
کیسے بھی حالات ہوں کوئی سی بھی صورت حال ہو یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھئیے
گا کہ “ جو لوگ ناصرف رب کی عنایتوں پر شکر کرنے والے بلکہ زحمتوں، مصیبتوں
اور تکلیفوں میں بھی ہمیشہ صبر و تحمل کا دامن تھامے رکھتے ہیں اللہ تبارک
و تعالیٰ ان کے سر پر اپنی رحمتوں کا سائبان ہمیشہ قائم رکھتا ہے ان کے لئے
ہمیشہ کی خوش بختی کی خوشخبری ہے“ اللہ تعالیٰ ہمارے دل ہمیشہ ایمان کے نور
سے منور رکھے (آمین)- |