"کتاب پر کتاب"
یونیورسٹی کے دنوں میں ایک دن اکٹھے اسائنمنٹ کرتے ہوئے ایک دوست کی نظر
میری کُھلی ہوئی کتاب پر پڑی۔ کتاب ہاتھ میں اُٹھا کر اُس نے آگے پیچھے کچھ
اوراق پلٹے اور پھر مجھے دیکھ کر ایک بات کہی جو ایک دلچسپ یادداشت بن گئی،
"بھائی، تم نے تو کتاب پر کتاب لکھی ہوئی ہے!"۔ سیکھنے کی موثر محنت کے
سلسلے میں ہمارا دوسرا گُر بھی اِسی بات سے تعلق رکھتا ہے۔ ابو نے جب
پڑھانا شروع کیا تو موضوع اور مواد میں موجود اہم الفاظ کی جڑوں تک پہنچنے
(اشتقاق) کے ساتھ ساتھ ایک اور انتہائی اہم بات کی عادت ڈالی:
"پہلا پیراگراف پڑھو اور دوبارہ پڑھو اور پھر سوچو کہ اِس میں کی گئی اہم
ترین بات کو کم سے کم الفاظ میں یا مختصر ترین طریقے سے کیسے کہا جا سکتا
ہے۔ پھر پنسل سے پیراگراف کی ایک جانب اِس مختصر عبارت/نکات کو لکھ دو۔ اگر
مختصراََ لکھنا مشکل ہو رہا ہو تو سمجھ لو کہ پیراگراف میں کی گئی بات ابھی
سمجھ نہیں آئی۔"
میں سمجھتا ہوں کہ اِس ایک عادت نے میری سٹوڈنٹ لائف جتنی آسان کی شاید ہی
کسی اور عادت نے کی ہو۔ یہ مجھے نہ صرف پہلی بار پڑھتے ہوئے سمجھنے میں مدد
دیتی، بلکہ عموماََ کتاب کے اصلی ٹیکسٹ سے کافی حد تک بے نیاز کر دیتی،
یہاں تک کہ کتاب کا اعادہ کرتے ہوئے (امتحان/اسائنمنٹ وغیرہ کے لئے) میں
اپنے لکھے ہوئے مختصر جملے پڑھتا جاتا اور اصل نکات ذہن میں تازہ ہوتے
جاتے۔ اِس گُر کو اختصار سے بیان کیا جائے تو یوں ہو گا: پڑھتے ہوئے یوں
سمجھیں کہ آپ کتاب کا حاشیہ لکھ رہے ہیں، ایسا کہ جب آپ دوسری بار اِسی
کتاب کو دیکھیں تو آنکھوں کے سامنے ایک روڈ میپ/نقشہ سا کُھلتا جائے کہ متن
میں اصل پیغام ہے کیا اور یہ کہاں کہاں کس ترتیب سے موجود ہے (میں اِسے
"کتاب ٹورزم" بھی کہتا ہوں، جیسے ٹورسٹ میپس میں اہم جگہوں اور اُن تک
پہنچنے کے راستوں کو اجاگر کیا ہوتا ہے)۔ اِس کے لئے آپ بہت سی مختلف
ٹکنیکس استعمال کر سکتے ہیں۔ چند مثالیں یہ ہیں:
۔ ہر پیراگراف کا نچوڑ کم از کم اور آسان ترین الفاظ (یا فہرست) میں
پیراگراف کے ساتھ خالی جگہ میں لکھ لیں۔
اگر لمبی چوڑی عبارت لکھنا پڑ رہی ہے، یا متن کے الفاظ ہی کاپی کئے جا رہے
ہیں تو زیادہ امکان ہے کہ نچوڑ ابھی تک سمجھ نہیں آیا۔ ساتھ اگر لگے کہ
پیراگراف میں صرف تمہید باندھی گئی ہے یا کچھ اہم بات نہیں ہے تو پیراگراف
کے ساتھ ہلکا سا اشارہ دے دیں (میں عموماََ "تعارفی" وغیرہ لکھ دیتا ہوں،
یا اگر بالکل ہی کچھ مفید نہ لگے تو چھوٹا دائرہ بنا کر اوپر سے "پھلانگتا
ہوا" تِیر کا نشان بنا دیتا ہوں تا کہ اعادے میں اِس حصے پر وقت ضائع نہ
کرنا پڑے)۔
- متن کے مختلف حصوں کے آپس میں تعلق کو اجاگر کرتے جائیں۔
مثلاََ اگر تین پیراگرافس (یا ایک پیراگراف کی تین مختلف عبارتوں) میں کسی
چیز کے تین فوائد بتائے گئے ہیں تو حاشیے میں اِن تین فوائد کو نمبر دے کر
مختصر اشاروں میں لکھیں اور ہر اِک نمبر سے ایک تِیر کا نشان متعلقہ
پیراگراف تک لے جائیں۔ ساتھ کسی چیز کے مثبت یا منفی پہلو پر بات کو "+"
اور "-" سائن سے ظاہر کرتے جائیں (دوبارہ اِس صفحے کو جب دیکھیں گے تو ایسے
سائن، اور نمبر وار فوائد و نقصانات فوراََ اُچھل کر نگاہوں کے سامنے آ
جائیں گے)۔ ایسے ہی اور سائن بھی آپ ایجاد کر سکتے ہیں۔
- ہیڈنگز کو مزید واضح کرتے جائیں۔
کتابوں میں عموماََ ہیڈنگز بہت مختصر ہوتی ہیں، اِن کے آگے اور پیچھے کچھ
الفاظ لگا کر دوبارہ پڑھنے کے لئے آسانی پیدا کی جا سکتی ہے۔ مثلاََ اگر
ہیڈنگ "قدیم تہذیبیں" ہیں تو اُس کے ساتھ "دو ہزار تا چار ہزار قبل مسیح"
لکھ سکتے ہیں۔ اِسی طرح ہیڈنگ سے چند تیر کے نشان نکال کر تہذیبوں کے نام
بھی ہیڈنگ کے سامنے ہی لکھ سکتے ہیں (یاد رکھیں ہم ایک "نقشہ" سا بنا رہے
ہیں)۔ ایک اہم نوٹ یہ کہ ہیڈنگز کو واضح کرنے کا کام عموماََ اُس کے ذیلی
مواد کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔
- اگر مواد میں میتھس کے فارمولے ہیں تو یہ دیکھیں کہ وہ اپلائے کہاں ہونگے
اور اُن کے مختلف اجزاء کیا ہیں (اور کیسے پچھلے فارمولوں سے نکلے ہیں)۔
پھر اِن کے بارے میں اشارے شامل کرتے جائیں۔
مندرجہ بالا فہرست کسی طرح بھی ختمی یا آفاقی نہیں ہے۔ ہر طالب علم اپنے
طور پر ایک ترتیب ڈولوپ کر سکتا ہے۔ اصل مقصد یہی ہے کہ پڑھتے ہوئے بات کی
تہہ تک پہنچا جائے اور ایسے اشارات اور حاشیے چھوڑے جائیں کہ دوبارہ کتاب
کے صفحات دیکھتے ہی سمجھ آ جائے کہ اصل نکات کیا ہیں اور کن حصوں میں کس
ترتیب سے دئے گئے ہیں (تا کہ ضرورت پڑنے پر اندر جائزہ لیا جا سکے)۔
ہوم ورک:
مندرجہ ذیل پیراگراف کتاب میں ہو تو حاشیے میں کیا لکھیں گے؟
"علمِ عروض ایک ایسے علم کا نام ہے جس کے ذریعے کسی شعر کے وزن کی صحت
دریافت کی جاتی ہے یعنی یہ جانچا جاتا ہے کہ آیا کلام موزوں ہے یا ناموزوں
یعنی وزن میں ہے یا نہیں۔ یہ علم ایک طرح سے منظوم کلام کی کسوٹی ہے اور اس
علم کے، دیگر تمام علوم کی طرح، کچھ قواعد و ضوابط ہیں جن کی پاسداری کرنا
کلامِ موزوں کہنے کیلیے لازم ہے۔ اس علم کے ذریعے کسی بھی کلام کی بحر بھی
متعین کی جاتی ہے۔ اس علم کے بانی یا سب سے پہلے جنہوں نے اشعار پر اس علم
کے قوانین کا اطلاق کیا وہ ابو عبدالرحمٰن خلیل بن احمد بصری ہیں جن کا
زمانہ دوسری صدی ہجری تھا۔" |