کب تک چلے گا کنارے کنارے؟؟؟

مسلم اکثریت والے علاقے میں ہر دو کلو میٹر پر مدرسہ کے نام پر ایک دوکان کھڑی نظر آتی ہے اورچوں کہ ان مدارس میں سے بیشترکوان کے ذمہ داران اپنے مفاد میں استعمال کررہے ہیں،اس وجہ سے ان کا خیر بھی بڑی تیزی سے اٹھتا جارہاہے۔ یہ انسانی فطرت بھی ہے کہ جب وہ کسی چیز کو اپنی جاگیر اور ملکیت سمجھنے لگتا ہے، تو اس میں کسی کی وکالت اور رہبری کو قطعا برداشت نہیں کرتا ، جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ آج پوری دنیا میں لاکھوں کی تعداد میں مدارس موجود ہیں، لیکن جب ان کا کوئی رہبر اور مرکز نہیں ہے،جس کے باوصف یہ مدارس بے مہار اس دنیاوی سفر میں اپنے وجود کے ان گنت نقوش مٹانے پر مجبور ہیں۔ حالانکہ مدارس کی افادیت،بقا اور سالمیت کا راز صرف اسی میں مضمر ہے، کہ ہم ان تمام بکھرے ہوئے موتیوں کو ایک لڑی میں پِرودیں، مکمل طور پر طلباء کی تعمیر وترقی اور امت کی فلاح اور بہتری اسی وقت ممکن ہوسکتی ہے کہ ہم ہندوستان میں موجود تمام مدارس کو ایک سینٹر کے تحت داخل کردیں، اگرہمارے اربابِ مدارس صحیح معنی میں دین کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، تو اپنے لیے صفہ کو آئیڈیل بنائیں ، عزتِ نفس کو پیش پیش رکھنے کے بجائے عزتِ انسانیت اور احترامِ مسلمانی کو اپنا اوّلین فریضہ گردانیں۔ پوری دنیا ان مدارس کے فیوض وبرکات سے اسی وقت مستفید ہوسکتی ہے ، جب ہم اختلاف وانتشار کو ایک جگہ رکھ کر اپنے اپنے مدارس کی باگ ڈور کسی ایک مرکزی مدرسہ کے تحت شامل کردیں۔مرکز اور سینٹر کی مثال ایک ٹرانسفارمر کی طرح ہے، کہ جس طرح ایک ٹرانسفارمر مین اِلیکٹرک پاور سے بجلی حاصل کرکے اپنے صارفین تک تیز روشنی فراہم کرتا ہے ، ان کے اندھیارے کو دور کرکے ان کی زندگی میں روشنی بکھیرتا ہے ، اگر کہیں ٹرانسفرمر موجودنہیں ہے، تو مرکزی الیکٹرک سسٹم سے دوری کی وجہ سے لوگ اس بجلی سے خاظر خواہ فائدہ نہیں اٹھاسکتے؛ بعینہ یہی شکل مدار س کی ہے کہ مدرسہ کا فیض اس وقت تک مکمل طور پر لوگوں تک نہیں پہنچ سکتا، جب تک مدرسہ کو ایک سینٹر اور مرکز کے تحت نہ جوڑ اجائے ، یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں لاکھوں کی تعداد میں مدارس ہونے کے باوجود، وہ فائدہ نہیں ہورہاہے، جتنا کہ صرف ایک صفہ مدرسہ کے ذریعہ لوگ فیض یافتہ ہوئے تھے۔ مدارس کو ایک سینٹر کے تحت جوڑنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا ،کہ یہ مدارس ظاہری ترقی کے ساتھ معنوی ترقی بھی حاصل کرپائیں گے ، نیز امت کا سالانہ تقریبا ساٹھ ہزار کروڑ روپیہ جو صرف مدارس کے فنڈ میں خرچ ہوتا ہے ، اس کا صرفہ بھی انتہائی معقول طریقے سے ہوگا اور اس طرح ہما شما میں ہماری رقومات ضائع ہوتے ہوتے بچ جائیں گی۔ اور جب ہر کام مرکز اور سسٹم کے تحت ہوگا، تو پھر ہمارے نظام تعلیم میں،جس میں آج مکمل طور پر بگاڑ آچکا ہے، اس کا بھی تصفیہ ہوجائے گااور پھر ہمارے مدارس مرغیوں کے ان چوزوں کی طرح ہوجائیں گے، جو اپنی ماں کے پروں میں دبک کر چیلوں کی نظروں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر کوئی ناگہانی خطرہ ان کے سروں پر منڈالاتا بھی ہے، تو ماں ان کے دفاع میں کمر بستہ رہتی ہے۔ اسی طرح کوئی بھی خارجی اور داخلی فتنہ اگر ان مدارس کی طرف رخ کرے گا، تو اس وقت ہمارا یہ سینٹرل مدرسہ پوری قوت سے اس کا دفاع کرے گا اور جب ہماری جمعیت ہوگی تو کوئی بعید نہیں؛ بلکہ یقین ہے کہ باطل کو ہماری طرف خشمگیں نگاہیں بلند کرنے کی بھی جرأت نہیں ہوگی۔ یہاں رک کراطمینان سے اس سینٹرل مدرسہ کی حقیقت اور اصلیت کاذرا گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں؛ تاکہ کسی بھی جانب کوئی لچک باقی نہ رہ جائے،چنانچہ تلاشِ بسیاراورتحقیق وجستجوکے بعد اس سیٹرل مدرسہ کی دو حیثیت کھل کر سامنے آتی ہے۔ ایک یہ کہ ہمارے تمام مدارس سرکار اور حکومت کی نگرانی اور اس کے نظامِ تعلیم کے تحت شامل ہوجائیں اور حکومت ان مدارس میں سے کسی ایک مدرسہ کو سینٹرل مدرسہ بنادے، پھر اس کے حکم ، نظام اورنصاب کے مطابق تمام مدارس کو چلایا جائے، جیسا کہ وقف بورڈ مدارس کا سسٹم ہے۔نیز ہماری حکومت بھی ہم سے اسی کا مطالبہ کررہی ہے؛ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ حکومت کیوں اس کا مطالبہ کررہی ہے، اس کے پیچھے حکومت کے ارادے کیا ہیں، کیا وہ ان مدارس کو اوقاف کے مدارس کی طرح بے روح بنانے کے فراق میں ہے؟ بہر حال ایجوکیشن منسٹر نے اس کا مطالبہ کیا تھا کہ ہمارے سامنے تحریری شکل میں مدارس کی تجاویز رکھی جائیں، ہم ان پر غور کرکے کوئی بہتر شکل نکالنے کی کوشش کریں گے، مگر اب تک ان تک کوئی دستاویز نہیں پہنچی اور پہنچنا بھی نہیں چاہیئے۔ دوسری حیثیت یہ کہ ہمارے یہ مدارس حکومت کی دراندازیوں سے بالکل آزادہوں، خوشی کی بات ہے کہ یہاں کے اکثر مدارس اسی طرز کے ہیں، مگرافسوس یہ ہے کہ ان مدارس کا کوئی سینٹر نہیں ہے۔ ان دونوں سسٹم میں سے اب ہمیں یہ طے کرنا ہے، کہ ہم کون سا سسٹم اختیار کریں۔یا تو حکومت کے ساتھ مل کر ہم اپنے اپنے مدارس کو سرکاری آئین کے تحت داخل کرلیں، یا پھر ان کو ایسے ہی آزاد رہنے دیں، لیکن جب ہم ان سرکاری مدارس کی حالت دیکھتے ہیں،ان کے نظام اورطریقہء تعلیم پر نگاہ دوڑاتے ہیں، تو ہماری روح کانپ اٹھتی ہے ، تاریخ اورزمانہ ان کی حالتِ زار کی گواہی دیتے ہیں اور مسلمانوں سے چیخ کر یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ان مدارس کوزندہ دفن ہونے سے بچا لو، اس حالت میں ہم کیسے یہ برداشت کرسکتے ہیں کہ ہم اپنے ان آزاد مدارس کا سلسلہ بھی انہی سرکاری مدارس سے جوڑ دیں اور مدارس کی تعمیر کے مقاصد کو بھلادیں؛ اس لیے کہ اس سے نہ صرف ہم مدارس کے مقاصد کو گنوا بیٹھیں گے؛ بلکہ ہمارے طلبا صرف کاغذی عالم فاضل بن کر نکلیں گے، سند تو ہم فراہم کرلیں گے، لیکن اس کی بنیاد پر نہ ہی تو ہم کوئی اعلیٰ سرکاری نوکری حاصل کرسکتے ہیں اور نہ ہی دین کے اعتبار سے ہماری صلاحیت اتنی پختہ ہوسکتی ہے کہ ہم قرآن وحدیث کے صحیح معانی کو سمجھ کر اس کی صحیح تعلیم دے سکیں ؛ اس لیے ہمیشہ یہ بات ذہن نشیں رہے کہ کسی بھی زاویے سے دوردور تک حکومت تو دور کی بات، حکومتی دفاتر سے بھی ان مدارس کا کوئی تعلق نہ ہو، اگر ان مدارس کا ان سے کوئی رابطہ ہو،تو صرف سند کی منظوری تک ،بس ؛اس لیے کہ اگر حکومت نے دخل اندازی شروع کردی ،توپھر مدارس کا جنازہ نکل جائے گا ، آج جو حالت بورڈکے مدارس کی ہے اس سے بھی بدترین حالت ان مدارس کی ہوکر رہ جائے گی، لوگ عالم اورفاضل کی سند حاصل توکر لیں گے، لیکن ان کے اندر سے عالمیت اور فضیلت نکل جائیں گی، ان کی روحوں سے قرآن اور حدیث کی عظمت اور معانی نکل جائیں گے، آج تو اربابِ مدارس کو ایک باصلاحیت محدث اور فقیہ کی ضرورت ہے، مگر اس دن ہم ایک باصلاحیت عالم کے وجود سے بھی محروم ہوجائیں گے۔ اگر ان مدارس کا باضابطہ حکومت سے رابطہ ہوا، تو سب سے پہلے مدارس کا نظام تبدیل کیا جائے گا ، جو ان کے افکاروخیالات کی حامل ہوگا، جب سسٹم ان کا ہوگا تو اس کو آپریٹ کرنے کے لیے وہ اپنے ہی لوگوں کو لائیں گے، مدرسین اور ملازمین کا انتخاب صلاحیوتوں کی بنیاد پر نہیں ہوگا، بلکہ تعلقات اور رشوت کی بنیاد پر جاہل اور بے روح افسردہ لوگوں کو مدرسہ کا ملازم وذمہ دار بنایا جائے گا۔او ر اس طرح ایک دینی اور مذہبی جگہ رشوت ، کالابازاری کا اڈہ بن کر رہ جائیگا۔ تعلیم وتعلم کے بجا ئے ہمارا مدرسہ سیاست کی آماجگاہ بن جائے گا، ہر سیاسی پارٹی اپنے مفاد کے لیے اس کا استحصال کرے گی، اس وقت مدرسہ ایک تحریک کے بجائے، محض ایک مکھوٹا اور کٹھ پتلی بن کر رہ جائے گا، کردار سازی کے بجائے مدرسہ کا کام افراد سازی تک ہی محدود ہو کر رہ جائے گا، متقی ، نیک اور باصلاحیت لوگ روز بروز معدوم ہوتے چلے جائیں گے، جاہل اور حکومت کی طرف سے منتخب زرخرید علما اور رشوت خوروں کی بہتات ہوجائے گی،اسکول کی طرح مدارس بھی ایک تجارتی ادارہ بن جائے گا، ہر سیاسی پارٹی پاور میں آنے کے بعد اپنی ذہنیت کے مطابق لوگوں کو اور اپنی سوچ کی حاملین کتابوں کو نصاب میں داخل کروائیں گے، اِ س حکومت کے زوال کے بعد اگر کوئی دوسری پارٹی حکومت میں آئے گی ،تو وہ اس موجودہ نصاب تعلیم کو تبدیل کرکے اپنے لوگوں کی کتابوں کو نصاب میں داخل کرنے کی کوشش کرے گی، طلباء کے ذہنوں کو پراگندہ اور نظامِ تعلیم کو آلودہ کرنے کے لیے ہر پارٹی نئے نئے طریقے ڈھونڈھ نکالیں گے،طلباء اور مدرسین کو اس نو منتخب نصاب کی تعلیم پر جبر کریں گے، یہ تبدیلیاں تو اسکول میں اس لیے برداشت کرلی جاتی ہیں، کہ وہاں افرادسازی کی تعلیم ہوتی، لیکن مدارس میں جہاں ایک انسان کو با اخلاق بنانے کے ساتھ انسان کو اس کو خالق ومالک سے رشتہ جوڑنے کا انہیں اصول بتایا جاتا ہے ، یعنی مدرسہ میں کردار سازی پر مکمل توجہ دی جاتی ہے ، اس تبدیلی کی صورت میں مدرسہ کا یہ مذہبی توازن کیسے برقراررہ پائے گا؛ اس لیے سینٹر سے میرامقصود صرف یہ ہے کہ ہندوستان میں ابھی موجود جتنے عومی مدارس ہیں، ان سب کا آپس ہی میں بغیر حکومتی شراکت کے کوئی ایک سینٹرل مدرسہ ہواور ہندوستان کے سارے مدارس بلاتفریق فکرونظر اس ایک مرکزی مدرسہ کے تحت جڑ جائیں۔ یہاں ایک سوال ہوسکتا ہے ،کہ ہندوستان میں دارلعلوم کی طرح ہر مکتب فکر کے مسلمانوں کے الگ الگ بڑے بڑے مدارس ہیں ، ان مدارس میں سے کس مدرسہ کو سینٹرل مدرسہ بنایاجائے، یہ بھی فطری بات ہے کہ ہر شخص اپنے مکتبِ فکر کے مدرسہ کو ترجیح دے گااور اس سلسلے میں سیاست کا ایک اور محاذ کھل جائے گا، تو اس سلسلے میں دو باتیں سامنے آتی ہیں:
اوّل یہ کہ ہم اپنی خواہشات پر پتھر رکھ کر ان تمام بڑے مدارس میں سے کسی ایک مدرسہ کو اپنا سینٹرل مدرسہ بنالیں، لیکن اگر اتحاد کی شکل نہیں بن پارہی ہے ،تودوسری شکل ؛شاید اس میں کسی کو کوئی حرج نہ ہو، یہ ہے کہ ہر مکتب فکر کے اربابِ مدارس اپنے مکتبِ فکر کے کسی ایک بڑے مدرسہ کو اپنا مرکزی اورسینٹرل مدرسہ بنالیں اور اس کے تحت اپنے تمام چھوٹے چھوٹے مدارس کو جوڑنے کی کوشش کریں، پھر جتنے بھی سینٹرل مدارس ہوں ، وہ اپنا ایک نمائندہ منتخب کریں، جن نمائندوں کا کام بے لاگ اور بے لوث ، خالص اللہ کے لیے اپنے اپنے مدرسہ کی ذمہ داری نبھانا ہو اوریہی منتخب کمیٹی گویاہماراسینٹرل مدرسہ ہوگی اور یہی منتخب حضرات ہندوستان کے تمام مدارس کے نظامِ تعلیم، نصاب اور دیگر تمام ضروریات کی نگرانی کریں گے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہمارے اندر سے خودمختاری کی صفت بھی جاتی رہے گی، نیز ہر سال مدرسہ کی تعلیم وتعمیر اور ترقی پر جو بے جا اسراف کیا جاتا ہے، یا بعض لوگوں نے جو مدرسہ کو ایک دوکان اور دھندہ سمجھ رکھا ہے ، وہ اپنے اس گناہ سے تائب ہونگے، ان کو اپنے سابق عمل پر شرمندگی اور ندامت ہوگی اور تلافیِ مافات کے لیے اب اس قوم کے روشن ستارے(طلباء) اوراسلام کے قلعے کو سنوارنے اور سجانے میں اپنی پوری محنت اور لگن صرف کریں گے، اپنے ہر ہر پل کو قیمتی اور کامیاب بنانے کے لیے جذبہ وایثار کا مظاہرہ پیش کریں گے اور اتنا نہ کرسکیں، توکم از کم مدارس کی ترقی کے لیے ہمارے اربابِ مدارس کے دل کے اندر اسی احساس کا بیدار ہوجانا کافی ہے، کہ ان کے سروں پر بھی ان کا نگراں موجود ہے ، پھر وہ کوئی غلط پیش قدمی کرنے سے گھبرائیں گے۔ اور یہی احساس ہمیں اور ہمارے مدارس اور طالبانِ علوم نبوت کو ترقی کے معراج پر پہنچاکر رہے گا۔ ہماری وہی حیثیت جب کبھی ہم اس دنیا میں فاتح کی حیثیت سے زندہ تھے دہرائی جانے لگے گی ۔
 

Rameez Ahmad Taquee
About the Author: Rameez Ahmad Taquee Read More Articles by Rameez Ahmad Taquee: 89 Articles with 73437 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.