گذشتہ دنوں صبح اخبار کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک ایسی خبر
نظر سے گذری جسے دیکھتے ہی نظر اس پر ٹھر گئی جس نے نہ صرف ذہن کو جھنجھوڑ
کر رکھ دیا بلکہ رنج اور پچھتاوے میں بھی مبتلا کردیا ، یقین نہیں آتا تھا
کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے پھر خبر پڑھنے کے بعد مزید تفصیل اور تصدیق کے لیئے
میں نے انٹرنیٹ پر اس خبر کو تلاش کرنا شروع کیا اورساتھ ہی اپنے جاپان میں
مقیم چند دوستوں سے رابطہ بھی کیا بلاآخر اس خبر کی مکمل تصدیق ہوگئی اور
ساتھ ہی مزید تفصیلات بھی میسر آئیں ۔
تو جناب خبر کچھ یوں تھی کہ جاپان کے ایک قصبے ہو کائیدو کے دور دراز گاؤں
اینگارو میں کچھ عرصہ قبل علاقے کے عوام کی ضرورت کے تحت کامی شیرا تاکی
ریلوے اسٹیشن قائم کیا گیا تھا وقت کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی آبادی کم ہوتی
گئی جس کی بڑی وجہ لوگوں کا روزگار کے حصول کی خاطر دوسرے علاقوں میں منتقل
ہونا تھی یہی وجہ تھی کہ اس ریلوے اسٹیشن سے چلنے والی ٹرین میں لوگوں کی
آمد و رفت روز بروز کم ہوتی گئی یہاں تک کہ اس علاقے سے ٹرین کے ذریعے آمد
و رفت اور سامان کی نقل و حمل صفر ہوگئی اور یوں یہ اسٹیشن خسارے میں چلنے
لگا ،جاپان ریلوے نے مالی خسارہ دیکھتے ہوئے تین سال قبل اس اسٹیشن کو بند
کرنے کا فیصلہ کرلیا جس کے لیئے ریلوے حکام نے متعلقہ عہدیداروں کی میٹنگ
طلب کی تھی ریلوے حکام نے اس اسٹیشن کی کارکردگی رپورٹ میں اسٹیشن سے صرف
ایک طالبہ کے مسافر ہونے کی رپورٹ پیش کی جو صبح کی ٹرین سے ہائی اسکول
جاتی ہے اور شام ساڑھے سات بجے کی ٹرین سے گھر واپس آتی ہے اجلاس کے تمام
شرکاء کے لیے یہ لمحہ فکریہ تھا کہ اسٹیشن بند کرنے سے گاؤں کی اس اکلوتی
طالبہ مسافر کی تعلیم کا کیا ہوگا خدشہ تھا کہ کہیں اسٹیشن بند ہونے سے اسے
اپنی تعلیم نہ چھوڑنی پڑجائے بہت غور و خوز کے بعد بورڈ نے لڑکی کے ہائی
اسکول کی تعلیم مکمل ہونے تک اسٹیشن بند کرنے کا فیصلہ موخر کردیا اور بورڈ
کے فیصلے سے جاپان حکومت کو آگاہ کردیا گیا جس پر جاپانی حکومت نے نہ صرف
فوری طور پر فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیشن پر ہونے والے خسارے کو
جاپان حکومت برداشت کرے گی بلکہ ٹرین کا ٹائم ٹیبل بھی اس طالبہ کے آنے
جانے کے شیڈول کے مطابق کردیا جس کے بعد سے اب اس اسٹیشن پرٹرین دن میں
دوبار ہی رکتی ہے جہاں سے ایک مسافر طالبہ سفر کرتی ہے اور اب وہ ٹائم پر
واپس اپنے گھر بھی پہنچ جاتی ہے۔
یہاں اس بات کا بھی ذکر کرتا چلوں کہ جب اس خبرکی تصدیق کے لیئے میں اپنے
جاپان میں مقیم دوستوں سے بات کررہا تھا تو میں نےان سے یہ ضرور پوچھا کہ
وہ لڑکی کہیں کسی سرمایہ دار ، جاگیردار، حکومتی اہلکار یا کسی سیاستدان کی
بیٹی تو نہیں شائید یہ سوال میں نے اپنے معاشرے میں ہونے والے واقعات
دیکھتے ہوئے کیا جس پر مجھے برجستہ جواب ملا کہ بھائی یہاں پاکستان والی
جمہوریت نہیں ہے وہ لڑکی ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی ہے ۔
یہ خبر پڑھ کر جب اپنے نظام تعلیم کو دیکھا تو بہت افسردگی ہوئی ایک جاپانی
حکومت نے ایک طالبہ کی تعلیم میں خلل نہ ہونے دینے کے لیئے ایک خسارے میں
جاتے اسٹیشن کو جاری رکھنے کا فیصلہ کرلیا اور ایک ہم ہیں کہ ہمارے ہاں
اسکولوں کو بند کیا جارہا ہے سرکاری اسکول تیزی سے پستی کی جانب جارہے ہیں
،اسکول ، کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم پذیر طلبہ کو آج بھی ٹرانسپورٹ کی
سہولیات میسر نہیں ، کراچی یونیورسٹی کے طلبہ اور طالبات آج بھی پوانٹس کے
دروازوں پر لٹک کر سفر کرنے پر مجبور ہیں ،شہر میں چلنے والی سرکلر ٹرین کی
بحالی کو مسعلہ کشمیر کی طرح الجھا دیا گیاہے، تعلیم کے حصول کو ایک غریب
سے چھینا جارہا ہے ، وی آئی پی کلچر روز بروز فروغ پارہا ہے ۔ کاش ہمارے
حکمرانوں ،سیاستدانوں کی سوچیں بھی جاپان کے حکمرانوں کی طرح ہوجائیں تو
کوئی بسمہ اسپتال جاتے ہوئے نہ مرے، پندرہ بچے وینٹی لیٹر کی سہولت نہ ہونے
سے نہ مریں ، کوئی تھر میں رہنے والا بچہ بھوک و افلاس اور علاج کی سہولت
نہ ملنے سے نہ مرے، کوئی بچہ سڑک پر پھول بیچتا نظر نہ آئے ، کوئی بچہ
غباروں میں اپنی سانسیں بھر کر نہ بیچے ۔دل بہت دکھتا ہے لیکن کیا کیجئے
میرے پاس ایک قلم کی طاقت ہے اور ایک ووٹ کی طاقت میں دونوں استمال کرتا
ہوں آپ بھی کیجئے جب چہرے بدلیں گے تب ہی نظام بدلے گا ورنہ پھر جالب کا یہ
شعر ہمیں ملامت ہی کرتا رہے گا۔
" وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
وہی ہے اہل وفا کی صورت حال
وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے" |