والدین ساری زندگی اپنی اولاد کے لیے تگ و دو کرتے ہیں
اور وہ ہر دکھ و تکلیف برداشت کرنا تو گوارا کرسکتے ہیں، لیکن اپنی اولاد
کو کسی پریشانی میں مبتلا نہیں دیکھ سکتے، مگر غربت اتنی ظالم چیز ہے کہ
انسان سے اپنی اولاد کی محبت بھی چھین لیتی ہے۔ گزشتہ دنوں اس کی ایک مثال
اس وقت سامنے آئی جب اورنگی ٹاﺅن کراچی میں فرید کالونی کچرا کنڈی میں سوئے
ہوئے 7 سے 8 سال کی عمر کے 3 بچے ملے، جنہیں علاقہ مکینوں نے محمد پورہ
پولیس چوکی پر اہلکاروں کے حوالے کر دیا۔ ان میں سے ایک بچے نے پولیس کو
بتایا کہ والدین نے انہیں اسکول سے نکال کر مزدوری پر لگا دیا اور امی نے
کہا کہ اگر روزانہ 300 روپے نہ لائے تو پھر گھر نہ آنا، جس کے باعث وہ کچرا
کنڈی پر ہی سو گئے۔ گزشتہ سال بھی کراچی ہی میں اسی قسم کا ایک واقعہ اس
وقت پیش آیا تھا جب ایک شخص غربت سے تنگ آکر اپنی چار معصوم بچیوں کو ایدھی
سینٹر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ ملک میں ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ اس
مہنگے ترین دور میں غریبوں کے پاس اپنی اولادکے لیے کھانا میسر نہیں ہوتا،
اپنے بچوں کا جسم ڈھانکنے کے لیے لباس مہیا نہیں ہوتا، وہ ان کی تعلیم کا
بندوبست نہیں کرسکتے۔ بچوں کی پرورش کرنا ان کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں
ہوتا۔ ایسے حالات میں یہ لوگ اپنے بچوں کو اپنے اوپر بوجھ سمجھنے لگتے ہیں
اور مجبوراً ان کو کسی کے حوالے کردینے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔ بعض اوقات
ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی غریب شخص کے پاس اپنے مکان کا کرایہ ادا کرنے کے
لیے، اپنا قرض چکانے کے لیے، اپنے بیوی، بچوں کی دوا دارو کے لیے، اپنے
بچوں کی خوراک کا بندوبست کرنے کے لیے تھوڑی سی رقم بھی نہیں ہوتی تو وہ
اپنے معصوم بچوں کے برائے فروخت کا اعلان لگانے پر بھی مجبور ہوجاتا ہے۔
معاملہ یہیں تک نہیں، بلکہ یوں بھی ہوتا ہے کہ غربت کے ہاتھوں ستائے بہت سے
لوگ خودکشی کرلیتے ہیں یا پھر اپنے بچوں کو موت کی نیند سلادیتے ہیں۔
فلاحی اداروں کے مطابق پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو
رہا ہے، جنہیں ان کے ورثا قتل کر دیتے ہیں یا پھر کسی فلاحی ادارے کے حوالے
کردیتے ہیں۔ ہر سال ملک بھر میں غربت کے مارے والدین کی جانب سے چھوڑے ہوئے
سیکڑوں لاوارث بچے ملتے ہیں۔ ان حالات میں یہ بچے تعلیم و بہتر تربیت سے
محروم ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے بعض جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں،
جو بڑے ہوکر چوری، ڈکیتی اور دیگر جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں اور اکثر کم
عمری میں ہی مزدوری کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں 5 سے 14 سال تک
کے بچوں کی تعداد 40 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ان 40 لاکھ بچوں میں سے 3.8 لاکھ
بچے چائلڈ لیبر ہیں۔ ان بچوں کا بھی دل چاہتا ہے کہ وہ بھی پڑھ لکھ سکیں،
لیکن مجبوراً ان بچوں کو ہوٹلوں، قالین بافی، کان کنی، چوڑی سازی سمیت دیگر
کارخانوں ، ڈینٹنگ پینٹنگ کی ورکشاپوں، بھٹہ خشت، الیکٹریشن، گھروں اور
مکینک کی دکانوں پر کام کرنا پڑتا ہے۔ جن ہاتھوں میں قلم اور کتاب ہونا
چاہیے تھی، حالات ان ہاتھوں میں ٹائر ٹیوب، رینچ اور دیگر آلات و اوزار
پکڑا دیتے ہیں۔
ایسے نجانے کتنے معصوم پھول ہیں، جن کے ابھی کھیلنے کودنے اور پڑھنے لکھنے
کے دن ہیں، لیکن اسکول جانے کا خواب آنکھوں میں سجائے فقط غربت کی وجہ سے
تعلیم کی بجائے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ بچے ہمارے معاشرے کا
اثاثہ ہیں، اگر ان بچوں پر توجہ دی جائے تو آج کے یہ بچے کل یقینا قوم کو
ترقی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔ اگر ان بچوں کے بارے میں مل جل کر فکر کی
جائے تو یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ پورے پاکستان میں کوئی ایک بچہ بھی
لاوارث نہ رہے۔ کوئی بھی والدین کسی بچے کوقتل نہ کریں،کسی بچے کو بے یارو
مددگار نہ چھوڑیں، کوئی والدین کسی بچے کے برائے فروخت کا اعلان نہ لگائیں
اور نہ ہی کوئی بھی بچہ تعلیم سے محروم رہے۔ اگر ہر محلے اور ہر علاقے میں
کچھ صاحب ثروت لوگ مل کر اپنے طور پر کوئی فاﺅنڈیشن قائم کرلیں اور اپنے
علاقے میں ایسے غریب اور نادار لوگوں کی فہرست تیار کریں جو اپنے بچوں کو
اچھی خوراک نہیں دے سکتے، ان کی صحیح طور پر پرورش نہیں کرسکتے، اپنے بچوں
کے لباس کا بندوبست نہیں کرسکتے ، وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا چاہتے ہیں،
لیکن ان کے پاس فیس ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں، ایسے افراد کو خصوصی
طور پر ڈھونڈکر ان کے ساتھ تعاون کریں۔
اگر ہر علاقے میں فلاحی فاﺅنڈیشن قائم کرنا مشکل ہو تو ہر صاحب ثروت فرد
اکیلے ہی اپنی استطاعت کے مطابق کچھ غریب بچوں کی پرورش اور تعلیم کا خرچہ
اپنے ذمے لے لے اور اگر کوئی کسی بچے کا مکمل خرچہ اپنے ذمے نہیں لے سکتا
تو جتنی گنجائش ہو اتنا خرچہ تو ہر ماہ کسی غریب بچے کو دیا جاسکتا ہے، یہ
خرچہ کوئی لاکھوں میں نہیں ہوگا، حساب لگایا جائے یقینا یہ بہت تھوڑی سی
رقم بنے گی، مگر قلیل رقم سے غریب بچوں کی پرورش، تعلیم و تربیت کا انتظام
ہوسکتا ہے۔اگر غور کیا جائے کہ روز عیاشیوں میں نجانے کتنے پیسے خرچ ہوجاتے
ہیں، لیکن اگر کچھ رقم غریب بچوں پر خرچ کردی جائے، کچھ توجہ غریب بچوں پر
بھی دے دی جائے تو وہ بھی اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔
ہمارے ملک میں دھن اور درد کی دولت رکھنے والے اصحابِ دل کی کمی نہیں، دو
چار بچوں کی کفالت اپنے ذمے لینا ان کے لیے کوئی بڑا مسئلہ بھی نہیں ہے۔
اگر میرے ملک کے صاحب ثروت لوگ آگے بڑھیں تو بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ دنیا کے
امیر ترین شخص بل گیٹس نے جب غریب لوگوں کی مشکلات کو قریب سے دیکھا تو
غربت کے تکلیف دہ مناظر نے انہیں جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ انہوں نے اپنی دولت کو
فلاحی کاموں پر صرف کرنے کا عہد کرلیا، دوسرے امیر افراد سے بھی فلاحی
کاموں میں شریک ہو نے کی اپیل کی، بہت سے امیر لوگوں نے بھی اپنی دولت
فلاحی اداروں کے لیے وقف کردی۔ اسی طرح سعودی عرب کے شہزادہ ولید بن طلال
نے اپنی ساری دولت جو 32 ارب ڈالر بنتی ہے، انسانیت کی خدمت اور فلاح کے
لیے وقف کی ہے۔ فیس بک کے بانی مارک زکر برگ بھی 45 ارب ڈالر کے حصص عطیہ
کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ اگر پاکستان کے امیر حضرات بھی فلاحی کاموں کی
طرف توجہ دیں تو ان کی تھوڑی تھوڑی خرچ کی گئی رقم ملک کے ہزاروں انسانوں
کی زندگیوں میں خوش گوار تبدیلی لانے کا سبب بن سکتی ہے۔ اگر ہر شخص یہ عزم
کرلے کہ اپنی استطاعت کے مطابق ایک غریب آدمی کے ساتھ تعاون کرے گا تو مجھے
یقین ہے کہ میرے ملک میں کوئی ماں نہ اپنے بچوں کو گھر سے نکالے گی اور نہ
ہی کوئی شخص اپنی ننھی منھی بچیوں کو بے یارومددگار چھوڑے گا۔ |