ہمارا المیہ
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
دنیا میں کہی بھی کوئی مسئلہ درپیش آجائے
تو اس کا تعلق کہی نہ کہی پاکستان سے جوڑ جاتا ہے بعض اوقات ہم نہیں جوڑنا
چاہتے لیکن دنیاوالے جوڑ لیتے ہیں ویسے ہم خود اس معاملے میں خود کفیل ہے
کہ کسی بھی ملک میں کوئی مسئلہ درپیش ہوجائے تو اس میں اکثر پاکستانی بھی
شامل ہوتے ہیں۔ ہم پاکستانیوں نے قسم کھائی ہے کہ پوری دنیا کا غم اور
تکلیف کا درد ہم پاکستانی ضرور محسوس کر یں گے اور ان کے خلاف یا حق میں
آواز بلند کرنا اپنا دینی اور قانونی حق کے علاوہ اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے
احتجاج شروع کر یں گے اور اس احتجاج میں سڑکے بلاک کر یں گے اور اپنے ہی
املاک کو نقصان پہنچے سے دریغ نہیں کر یں گے۔ حالانکہ پاکستان گزشتہ ایک
دھائی سے مصیبت اور پریشانی میں مبتلاہے کسی اسلامی ملک کے حکمرانوں نے
دورہ کرنا ،مالی امداد کرنایا پاکستان کے حق میں آواز بلند کرنا بھی گوار
نہیں کیا۔ہم ایسی قوم ہے کہ ہم نے پوری دنیا کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔جب حکومتی
سطح پر خاموشی ہو تو وہاں ہماری کسی نہ کسی مکتبہ فکرسے تعلق رکھنے والے
لوگ اٹھ کھڑے ہوجاتے اور یک دم سے جلسے ،جلوس شروع کردیتے ہیں۔اب سعودی عرب
اور ایران کے درمیان ہونے والا تنازعہ سے ہم الگ نہیں رہ سکتے ،حکومتی سطح
پر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر کرنے میں کردار بھی ادا کرنا چاہیے
لیکن عوامی سطح پر بالکل کسی بھی فرقے ،تنظیم یا پارٹی کواجازت نہیں دینی
چاہیے کہ وہ اپنی سطح پراجتماعی ہو یاانفرادی طور پر ملک میں سیاست شروع کر
یں۔یہاں تو پہلے سے کئی قسم کے مسائل موجود ہے اس میں مزید اضافے کی گنجائش
نہیں۔ حکومت کوچاہیے کہ ملک کے اندر جو مسائل موجود ہے ان کو حل کرنے میں
کردار ادا کر یں ۔ پوری دنیا کا ٹھیکہ اٹھانے کے بجائے اپنے اندررونی
اختلافات کو ختم کریں۔ فر یق بنے کی بجائے ثالث بنے اور یہ ہمارا قومی
المیہ ہے کہ ہم خود ٹھیک نہیں ہوتے لیکن دنیا کو ٹھیک کرنے کی چکر میں ہر
وقت لگے ہوتے ہیں۔
2016 کا آغاز ہوچکا ہے۔دنیا بھر میں نیا سال شروع ہونے سے ترقی یافتہ ممالک
نئے نئے منصوبے اور ٹارگٹ بناتے ہیں جب کہ پاکستان میں کوئی منصوبہ بندی
اور ٹارگٹ نہیں بنائے جاتے، یہ مسئلہ انفرادی طور پر بھی موجودہے اور
اجتماعی سطح پر بھی کہ صرف ٹائم پاس ہوتا ہے۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ حکومتی
سطح پر حالات پہلے سے زیادہ خراب ہوجاتے ہیں۔ جب ملک میں پرویز مشرف کی
آمرانہ حکومت تھی تو ہم چیخ رہے تھے کہ ملک کو پرویز مشرف نے تباہ کیا ،اداروں
کا بیڑا غرق کر دیا۔ عوام کے لیے روزگار کے مواقعے پیدا نہیں کیے جارہے ہیں۔
مہنگائی کاطوفان دن بدن بڑھ رہاہے لیکن حکومت کی طرف سے کوئی اقدامات نہیں
ہورہے ہیں۔ ملک میں امن وامان کی صورت حال نہ گفت بہ ہے لیکن حکمران صرف
اپنے سکیورٹی کو بڑھا رہے ہیں۔تعلیم مہنگی ہورہی ہے لیکن معیار بگڑتا
جارہاہے۔جعلی ڈگریوں والے پروفیسر اور وائس چانسلر بنے بیٹھے ہے جبکہ تعلیم
یافتہ افراد اپنے روزگار کے لیے بیرونی ممالک جانے پر مجبور ہے یا اپنی
مایوسی کی وجہ سے خود کشیاں کررہے ہیں بعض چور اور قاتل بن گئے ہیں۔ علاج
کے نام پر ڈاکٹر قصائی بنے بیٹھے ہیں ۔ ہسپتالوں میں بیڈ کم اور مریض زیادہ
ہے۔حکومت اپنی عیاشیوں میں لگی ہے جب کہ سرکاری ادارے ریلوے، پی آئی اے اور
واپڈ سمیت کئی ادارے تباہی کے کنارے کھڑے ہے۔ لوٹ کھسوٹ اور کرپشن کو
قانونی حیثیت حاصل ہوچکاہے۔ جو آدمی جتنابڑا چور اور کرپٹ ہواوہ اسمبلیوں
میں اور اعلیٰ عہدے پر براجمان ہوتاہے۔ملک میں ایماندار لوگوں کے لیے دن بد
ن مشکلات بڑھ رہے ہیں۔انصاف ناپیدا ہوچکا ہے۔ عدالتیں صرف تاریخی دے رہی ہے۔
مجرم تھانوں کے بجائے کھل عام گھوم پھیر رہے ہیں۔ جن لوگوں کو جیل میں ہونا
چاہیے تھا وہ ہماری قسمت کے فیصلے کررہے ہیں۔
اب اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ملک میں یہ مسائل موجود نہیں تھے یا میڈیا
جھوٹ بھول رہا تھا بلکہ اس وقت بھی یہ مسائل تھے اور اسے پہلے بھی موجود
تھے ۔یہ سب کچھ پرویز مشرف کے دور میں بھی ہورہا تھا اوریہی سب کچھ پیپلز
پارٹی دور میں بھی ہوابلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس میں اضافہ زرداری دور ئے
حکومت میں ہوالیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے زیادہ تباہی اب ہورہی ہے۔
جوادارے پاکستان کے اثاثے تھے ، آج ان کو نیلام کے لیے پیش کیا جارہاہے ۔
میاں نواز شریف کی ڈھائی سالہ حکومت نے عوام کابیڑا غرق کردیا ہے۔ ان کا بس
چلے تو ملک کے غریب عوام کوفروخت کردیں۔ یہاں صرف میاں صاحب کی حکومت کی
ایک چھوٹی سی مثال پیش کر رہاہوں ۔ پرویزمشرف کے دور حکومت میں اسلام آباد
سے برہان تک موٹروے کا ٹیکس پرائیویٹ گاڑی کا 25روپے تھا ۔ آصف زرداری کی
حکومت آئی تو انہوں نے اس میں پانچ روپے اضافہ کرکے 30روپے کر دیا۔پانچ سال
تک ٹیکس تیس روپے ہی رہا۔ شریف برادران نے جب اقتدار سنبھالا تو اس میں یک
دم سے 15روپے اضافہ کرکے ٹیکس 45روپے کردیا۔ اب دو تین مہینے سے اس میں
مزید پندرہ روپے کا اضافہ کیا گیا اور اسلام آباد سے برہان تک آدھے گھنٹے
کی سفر میں ٹیکس 60پر کرڈالا۔ڈھائی سال ابھی رہتے ہیں مزید کتنا اضافہ کر
یں گے؟ اﷲ ہی کو معلوم۔۔۔یہ اضافہ پورے موٹروے پر ہے جس میں ہرجگہ ڈبل ٹیکس
لگایا گیا۔یہاں میں نے صرف چھوٹے سے ایک ٹول پلازے دوسرے ٹول پلازے کی مثال
دی ۔باقی اسلام آباد سے پشاوریالاہور تک میں اضافہ بہت زیادہ ہوا ہے۔اب اس
برائے نام جمہوریت کا عام آدمی کو کیا فائدہ جس میں سب کچھ پہلے سے زیادہ
خراب ہورہی ہو۔ جس میں ٹیکس براہ راست لگائے جارہے ہو ،بجٹ ہر ماہ پیش کیا
جارہاہے ۔اسمبلی کی حیثیت برائے نام ہو ۔ ہرون عوام کی عزت نفس مجروح ہو ۔
والدین غربت کی وجہ سے اپنے جگر گوشوں کو قتل کررہے ہو۔خواتین اپنی عزت کو
بھوگ کی خاطرنیلام کرنے پر مجبور ہو ۔پھر بھی ہم کہہ رہے ہو کہ جمہوریت
بہترین انتقام ہے۔ملک میں انصاف ختم ہواور ہمیں فکر پڑی ہو دنیامیں امن
قائم کرنے کا اوراپنے حق کی بجائے دوسروں کی لڑائی میں شامل ہونے کادرس دیا
جارہاہو ،تو پھر ایسا ہی ہمارے ساتھ ہوگا ۔ یہ قانون قدرت ہے کہ جو آج کروں
گے کل وہ کاٹوں گے۔آج پوری امت مسلم میں آگ لگی ہوئی ہے اور یہ آگ مسلمانوں
نے خود لگائی ہے۔ اب حدشہ یہ پیدا ہورہاہے کہ ملک کے حالات بہت تیزی سے
تباہی کی طرف جارہے ہیں جس کو اگربروقت ٹھیک نہ کیا گیا تو ہمارایہ سال اور
آنے والے سال مزید تباہی اور بربادی لے کر آئیں گے۔ صرف چہروں سے تبدیلی
نہیں آئے گی جب تک عوام خود نظام تبدیل کرنے کا فیصلہ نہ کریں۔ |
|