ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر!

 میں دفتر پہنچا تو کچھ لوگ میرا انتظار کر رہے تھے، وہ الخدمت فاؤنڈیشن کی جانب سے آئے تھے، انہوں نے باہمی تعارف کے بعد اپنا مدعا بیان کرنا شروع کیا، اپنی خدمات کو شمار میں لانے کے لئے وہ ایک ایک بات کا ذکر کرتے گئے، یتیم بچوں کی کفالت پر انہوں نے زیادہ توجہ صرف کی، ان کا کہنا تھا کہ یتیم بچوں کی کفالت ہماری معاشرتی اور مذہبی ضرورت ہے، تاکہ ایسے بچے جن کے والد دنیا سے رخصت ہو گئے ہوں وہ خود کو لاوارث تصور نہ کریں، ان کو تعلیم ، صحت اوردیگر ضروریات بہم پہنچانے کا بندوبست ہو، الخدمت نے اس سلسلہ میں منصوبہ بندی کر رکھی ہے، سیکڑوں بچے اس سے مستفید ہورہے ہیں، ان کی تعداد میں مزید اضافہ ہو رہا ہے، ایک بچے پر تین ہزار روپے ماہانہ خرچہ اٹھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مخیر حضرات اس کارِ خیر میں مسلسل تعاون کررہے ہیں۔ ان بچوں کے لئے سکول بیگ، کتابوں کا بندوبست ، سکول یونیفارم اور عید کے موقع پر بھی کپڑے وغیرہ مہیا کئے جاتے ہیں۔ الخدمت کے وفد نے اپنی خدمات کا شمار جاری رکھا۔ بیواؤں کی کفالت کی جاتی ہے، غریب اورمستحق بچیوں کی شادیوں پر اخراجات کئے جاتے ہیں، معذوروں کی سہولت کے بندوبست ہوتے ہیں، جن میں وہیل چیئر وغیرہ کا بندوبست ہوتا ہے۔ صاف پانی کے پلانٹ بھی لگائے گئے ہیں۔ سیلاب یا زلزلہ وغیرہ کے موقع پر تو الخدمت کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں۔

الخدمت والوں نے دلچسپ بات یہ بتائی کہ وہ چولستان میں نلکے (ہینڈ پمپ) بھی لگا رہے ہیں، تقریباً پچاس نلکے لگا دیئے گئے ہیں، ابھی منصوبہ جاری ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے بتایا کہ ہم لوگ خود ہی سروے کرتے ہیں جس میں مقامی سطح پر لوگ شامل ہوتے ہیں، چولستان میں چونکہ پینے والے پانی کی بے حد کمی ہے، اونٹ، بکری اور گدھوں کے ساتھ روہیلوں کو بھی اُسی گھاٹ سے پانی پینا پڑتا ہے، اس لئے جہاں حکومت نے چولستان میں پینے کے صاف پانی کی میلوں طویل پائپ لائن بچھائی ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس کے اندر بھی مسائل ختم ہونے کا نام نہیں لیتے، بہت سے مقامات پر یہ پائپ لائن اپنا وجود ختم کر چکی ہے۔ بہرحال مختلف اطراف میں بکھری آبادی کو پانی مہیا کرنا انتہائی مشکل بلکہ کسی حد تک ناممکن کا م ہے۔ ایسے میں اگر حکومت یا کوئی این جی او یا کوئی الخدمت جیسا ادارہ ان علاقوں میں پانی پینے کے لئے نلکا لگا دیتا ہے تو یہ خدمت کسی نعمت سے کم نہیں، اسے غنیمت جاننا چاہیے۔ مگر یہاں پریشان کن پہلو یہ ہے کہ اگر کسی علاقے میں نلکا لگا نے کے کچھ عرصہ بعد خراب ہوگیا ہے تو اس کی مرمت کرنے کے لئے اطلاع کوئی نہیں دیتا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نلکا وقت کے ساتھ ساتھ اپنے باقیات سمیت غائب ہوجاتا ہے۔

معاملہ صرف نلکے کا نہیں، جب سے مختلف تنظیموں نے چولستان کا رخ کیا ہے، اب وہاں کے لوگوں میں بھی آگاہی کی کمی نہیں، وہ ہر آنے والے کو اسی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ وہ کچھ نہ کچھ دے کر جائے گا، حتیٰ کہ کوئی سیاح بھی ادھر جانکلے تو یار لوگ اسے بھی کسی این جی او کا نمائندہ جان کر اس سے مطالبات وغیرہ شروع کردیتے ہیں۔ انہوں نے یہ روایت بنا لی ہے کہ اپنی ہر ضرورت کو مطالبے کا رنگ دینا ہے، ہر آنے والے کے سامنے حکومت وغیرہ کے خلاف احتجاج کرنا ہے۔ این جی اوز نے انہیں اتنا سیانا تو کردیا ہے کہ وہ احتجاج کرنے لگ گئے ہیں، مگر انہیں یہ یاد نہیں دلایا جاتا کہ ہر کام حکومت یا این جی اوز کے کرنے کا نہیں ہوتا۔ ٹوبہ چولستان کے باسیوں کی زندگی کے لئے لازم وملزوم کی حیثیت رکھتا ہے، چولستان کے اندر آبادیاں ٹوبوں کے کناروں پر ہی بستی ہیں، کیونکہ پانی زندگی ہے۔ مگر جب ٹوبے خشک ہوجاتے ہیں تو زندگی اجیرن ہوجاتی ہے، چولستانی اپنے مویشیوں سمیت وہاں سے کسی دوسری جگہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ظاہر ہے مقامی لوگ پہلے خود ہی ٹوبوں کی کھدائی اور بھل صفائی کیا کرتے تھے، مگر اب وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے حکومت اور این جی اوز کی راہیں دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ بات تسلیم کرنے کے لائق ہے کہ چولستان محروم ترین علاقہ ہے، اور بے شمار وسائل سے ہی وہاں حالات میں معمولی بہتری آسکتی ہے، اور یہ بھی حقیقت ہی ہے کہ حکومت کے مہیا کردہ وسائل بھی ضرورت سے بہت کم ہیں۔ مگر اس تلخ حقیقت کو بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ جو کام چولستانیوں کے خود کرنے کا ہے، وہ اس پر بھی حکومت اور این جی اوز کی طرف دیکھتے ہیں۔ جن کاموں پر افرادی قوت اور معمولی اخراجات ہوتے ہیں، وہاں اپنی مدد آپ کی ضرورت ہوتی ہے، مگر بدقسمتی سے ہم سب کے منفی رویے پختہ ہوچکے ہیں۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472323 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.